حکومت خواہ کِسی سطح کی ہو، یہی
چاہتی ہے کہ لوگ اُس کی ہر بات مانیں اور اُس پر فی الفور عمل کریں۔ یہ تو
کوئی بات نہ ہوئی۔ اگر ایسا ہونے لگے تو کل کو حکومت کہے گی لوگ سانس بھی
اُس کی مرضی کے مطابق لیا کریں! حکومت اور بیوی میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے!
ایک وقت میں ایک ہی کی بات مانی جاسکتی ہے۔
خوفِ خُدا رہے کہ خیال بُتاں رہے
کِس طرح ایک دل میں غم دو جہاں رہے؟
بنگال کا جادو مشہور ہے۔ مگر لازم نہیں کہ جادو ہر بار چل ہی جائے۔ بھارتی
ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے ریاستی عوام پر زور دیا ہے
کہ وہ حکومت کے بارے میں پھیلائی جانے والی بے بنیاد باتوں سے بچنے یعنی
اطمینان سے بے خبر رہنے کے لیے ٹی وی پر نیوز چینلز دیکھنا چھوڑیں اور
میوزک چینلز دیکھا کریں! اُن کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے زیر
اثر کام کرنے والے ٹی وی چینلز رات دن حکومت کے خلاف جھوٹی خبریں چلا رہے
ہیں اِس لیے لوگ پروپیگنڈے سے دور رہنے کے لیے ٹی وی پر صرف میوزک چینلز سے
محظوظ ہوں!
ممتا بینرجی کا مشورہ ایک اعتبار سے تو ہرگز بُرا نہیں۔ آج کی ہنگامہ خیز
زندگی کو موسیقی کی اشد ضرورت ہے۔ جب سبھی کچھ بے ہنگم ہو جائے تو ”ردھم“
کی بحالی ناگزیر ہوتی ہے۔ مگر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ممتاجی نے یہ
کیسے سوچ لیا کہ نیوز چینلز میں موسیقیت نہیں ہوتی؟ کیا نیوز چینلز ہر وقت
چند مخصوص راگ نہیں الاپ رہے ہوتے؟ ہم نے تو یہی دیکھا ہے۔ جس نیوز چینل کو
بغور دیکھیے وہ اپنی مخصوص ڈفلی پر ایک مخصوص راگ الاپتا ملے گا۔ ردھم بھی
ایسا ہوتا ہے کہ بندے کو جوش آوے ای آوے! اور اگر بندہ سیاسی ہو تو سمجھ
لیجیے دھمال کا سامان ہووے ای ہووے!
عوام اب باشعور ہوچکے ہیں۔ کیا دیکھنا اور سُننا چاہیے، کیا کھانا چاہیے،
کیا پینا چاہیے، کس طرح جینا چاہیے اور کس طرح نہیں جینا چاہیے۔۔۔ یہ سب
جاننے کے لیے اُنہیں کِسی کنسلٹنٹ کی ضرورت نہیں۔ فیصلہ وہ خود کرسکتے ہیں۔
ہم نے بارہا لوگوں کو نیوز چینلز متواتر دیکھتے دیکھا ہے۔ اور جب اُنہیں یہ
مشورہ دیا کہ ذہنی انتشار سے بچنے کے لیے کامیڈی چینلز دیکھا کیجیے تو وہ
”زیر لب کے نیچے“ مُسکرادیئے! اُن کا استدلال یہ تھا کہ کامیڈی چینلز نے
دِماغ کی جو ”واٹ“ لگائی ہے اُس کے ازالے کے لیے ہی تو نیوز چینلز دیکھ رہے
ہیں! چند احباب کو کامیڈی چینلز کا دِلدادہ پاکر ہم نے اِن چینلز کی طرف
متوجہ ہونے کا سبب پوچھا تو جواب ملا کہ سنسنی خیز چیزیں دیکھنے کی خواہش
اور جستجو اِس طرف لے آئی!
ممتا بینرجی نے یہ بات ٹھیک کہی ہے کہ عوام میوزک چینلز ”دیکھا“ کریں
کیونکہ آج کل میوزک چینلز صرف دیکھنے ہی کی چیز رہ گئے ہیں! مگر ممتاجی کو
ذرا بھی اندازہ نہیں کہ اگر کِسی کو مختلف نسلوں کے عجیب و غریب جانور ہی
دیکھنے ہوں تو میوزک چینلز کیوں دیکھے گا؟ براہِ راست نیشنل جیوگرافک اور
اِسی قبیل کے دوسرے چینلز دیکھنے میں کیا ہرج ہے؟ آج کل بیشتر میوزک چینلز
ذہنی خلجان پیدا کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اگر ممتاجی مخالفین کے
دِماغ کا دہی بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں تو یقیناً میوزک چینلز اُن کے لیے
کام کی چیز ثابت ہوسکتے ہیں!
ایک میڈیا ٹیم ذہنی امراض کے شِفاءخانے پہنچی۔ دیکھا کہ ایک ہال میں پندرہ
بیس مریض ٹی وی پر پاپ میوزک سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں نے
ڈاکٹرز سے پوچھا کہ ذہنی امراض میں مبتلا اِن معصوم افراد کا قصور کیا ہے
جو اِنہیں ایسی سخت سزا دی جارہی ہے؟ جواب ملا کہ یہ سزا نہیں، دونوں کا
علاج ہے! ذہنی مریض پاپ سنگرز کو دیکھ کر اپنائیت سی محسوس کرتے ہیں اور آج
کل کے پاپ سانگز اِسی قابل ہیں کہ اُنہیں ذہنی مریض دیکھیں اور انجوائے بھی
کریں! ثابت ہوا کہ سب کچھ حشر کے دن پر موقوف نہیں، اِس دُنیا میں بھی
گناہوں کی سزا کِسی حد تک مل کر رہتی ہے!
سیاست دانوں کی یہ روش اچھی نہیں کہ لوگوں کو ٹی وی چینلز دیکھنے کے بارے
میں بھی مشوروں سے نوازیں۔ عوام کوئی پارلیمنٹ نہیں جسے موم کی ناک کی طرح
کسی بھی طرف موڑ دیا جائے!
یہ بات تو ہم ایک زمانے سے جانتے ہیں کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز اپنے اپنے
ایجنڈے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ جب ملک میں سبھی کچھ
ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے تو چینلز نے کیا بگاڑا ہے کہ اُنہیں اِس صفت سے
محروم رکھا جائے! اِضافی سچ یہ ہے کہ اب عوام بھی ٹی وی چینلز ایجنڈے کے
تحت دیکھتے ہیں اور یہ ایجنڈا وہ اپنی صوابدید کے مطابق طے کرتے ہیں! میڈیا
کے ماہرین اِس زعم میں مبتلا ہیں کہ اُنہیں عوام کے رُجحانات کا خوب اندازہ
ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُنہیں عوام کے موڈ کا ککھ بھی پتہ نہیں۔ آپ نے شاید اب
تک اِس امر پر غور نہیں کیا کہ عوام نے ٹی وی چینلز کی پلاننگ کرنے والوں
کو بھی چکراکر رکھ دیا ہے۔ عوام کی دل بستگی اور گھریلو زندگی میں زیادہ سے
زیادہ سُکون پیدا کرنے کی غرض سے بنائے جانے والے فیملی ڈرامے آج کل ہارر
شو کی کیٹیگری میں دیکھے جارہے ہیں! کرنٹ افیئرز کے پروگرام مزاح کی ضرورت
ایسی فراخ دِلی اور جاں فشانی سے پوری کر رہے ہیں کہ ناظرین over-dose اور
bumper crop کی منزل سے گزر رہے ہیں! وہ زمانے ہوا ہوئے جب فطری ماحول اور
حیاتیاتی تنوع سے آشنا کرنے کے لیے بچوں کو نیشنل جیوگرافک اور اِسی قبیل
کے دیگر چینلز دکھائے جاتے تھے۔ اب سِکّہ بند کامیڈی پروگرام دیکھتے رہنے
سے بچوں کو مختلف جانوروں کی عجیب و غریب خصوصیات سے واقف ہونے میں مدد
ملتی ہے!
کامیڈی پروگرام مظلوم ہیں کیونکہ اب بیشتر پروگراموں میں مزاح اِس قدر پایا
جاتا ہے کہ لوگ غیر رسمی کامیڈی دیکھنے کے بعد رسمی طور پر کامیڈی چینلز
دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے! بہت سے ہارر شو بھی اب کامیڈی ہی کے
ذیل میں آتے ہیں! کسی زمانے میں پی ٹی وی کا خبرنامہ مزاح کی کمی بہت حد تک
پوری کردیا کرتا تھا! اب لوگ اُسے خاصی سنجیدگی سے نظر انداز کرچکے ہیں!
بچوں کے پروگرام دیکھنے سے بڑوں کو بہت سی کام کی باتیں معلوم ہوسکتی ہیں۔
مثلاً یہ کہ گفتگو کِس طرح کرنا چاہیے، بڑوں سے کِس طرح پیش آنا چاہیے، کچھ
پوچھنا ہو تو کِس طرح پوچھنا چاہیے۔ بچوں میں غیر معمولی اضطراب پایا جاتا
ہے مگر ہمارا خیال ہے اب بچوں کے پروگرام دیکھ کر بڑے دیکھ اور سیکھ سکتے
ہیں کہ تحمل کیا ہوتا ہے اور جو لوگ پسند نہ ہوں اُنہیں کِس طرح برداشت کیا
جاتا ہے!
بہت سے انٹرٹینمنٹ شو مختلف علوم اور فنون کا مجموعہ محسوس ہوتے ہیں۔ اِن
پروگراموں کو دیکھ کر ذہنی پیچیدگیوں کے اسباب جاننے میں خاصی مدد مل سکتی
ہے! ہم نے فِکشن لکھنے والے بعض احباب کو ٹی وی پر انٹرٹینمنٹ شو باقاعدگی
سے دیکھتے دیکھا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سیلیبریٹیز کے باہمی مناقشوں
اور جھگڑوں کی تفصیلات سے ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانیوں کے لیے خوب
مواد ملتا ہے! ویسے یہ مواد اُنہیں بہت احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے
کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی کہانی کی کیٹیگری کو تبدیل کردیتی ہے! |