اوبامہ اور مارٹن لوتھر کنگ

سترھویں صدی سے انیسویں صدی کا طویل دور پوری دنیا کے لئے باعث شرم تھا جب امریکی شہری افریقہ سے غریب افریقیوں کو غلام بناکر لاتے اور نہ صرف ان سے سخت محنت و مشقت کراتے بلکہ ان سے انسانیت سوز سلوک روا رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ۔اس دوران ایک اندازے کے مطابق 5لاکھ سے زائد افریقی امریکہ لائے گئے ۔ 1808ءمیں ”غلاموں کی درآمد “ کو غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد بھی امریکہ میں یہ سلسلہ چوری چھپے جاری رہا اور بنیادی طور پر یہی درآمد شدہ آبادی افریقی امریکی کہلاتی ہے جو وقت کے ساتھ وسعت پاتی گئی اور اب امریکہ میں اسی آبادی کو سب سے بڑی اقلیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان میں کئی ایسے افریقی امریکی ہیں جنہوں نے عالمی شہرت حاصل کی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ امریکہ کے سفید فام شہری ہی نہیں بلکہ سیاہ فام بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں ان میں باکسر محمد علی اور جو لوئیس ‘ سیرینا اور وینس ولیمز ‘ ٹائیگر ووڈس اور مائیکل جیکسن کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ سیاستدان بھی شامل ہیں جو سیاہ فام ہونے کے باوجود پورے امریکہ اور دنیا میں جانے جاتے ہیں ان میں کولن پاؤل اور کونڈو لیزا رائس کے نام خاص طور پر لئے جاسکتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا جو امریکی انتظامیہ کے اہم عہدے پر فائز ہونے کے سبب ملنا چاہئے تھا اس کی وجہ یہ رہی کہ یہ لوگ سابق صدر جارج بش کی پالیسیوں پر عملدرآمد کےلئے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے چنانچہ جو بدنامی جارج بش کے حصہ میں آئی وہی کولن پاؤل اور کونڈو لیزا رائس کا بھی مقدر بنی ۔

ان کے برخلاف امریکہ کی تاریخ کا ایک سیاہ فام سماجی خدمتگار ایسا بھی ہے جو مشہور بھی تھا اور محترم بھی ‘ وہ تھا مارٹن لوتھر کنگ جس نے شہری و انسانی حقوق کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی ‘ 1964ءمیں اسے اس کی پرامن خدمات کے صلے میں امن کا ”نوبل انعام“ بھی دیا گیا ۔اب دنیا میں امریکہ کو ایک محترم شناخت ‘ عزت اور وقار سے نوازنے والے سیاہ فام امریکیوں میں دوسرا نام بارک اوباما کا شامل ہونے جارہا ہے جنہوں نے گزشتہ روز امریکہ کے پہلے سیاہ فام اور مجموعی طور پر امریکہ کے 44ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور امریکی عوام نے کیپٹل ہل پر ہونے والی اس تقریب حلف برداری میں لاکھوں کی تعداد میں شرکت کرکے انہیں جو پذیرائی دی وہ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ عوام نے تبدیلی کے جس عمل کے لئے انہیں منتخب کیا ہے اور تبدیلی کی جس مہم کی داغ بیل مارٹن لوتھر کنگ نے ڈالی تھی اب اوبامہ کو اس مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے عوامی خواہشات پر پورا اُترنا ہے‘ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ جو خواب مارٹن لوتھر کنگ نے دیکھے تھے اور تنگی حیات کے باعث وہ انہیں تعبیر نہ دے سکے‘ ان تمام خوابوں کی تعبیر بارک اوبامہ پر قرض ہے اور امریکہ کے عوام چاہتے ہیں کہ اوبامہ یہ قرض ادا کریں ‘ اسلئے اوبامہ کو اپنے ایجنڈے میں وہ سب کچھ شامل کرنا ہوگا جس کے لئے مارٹن لوتھر لڑتے رہے اور پھر جان دی ۔اوبامہ کو امریکہ و افریقہ کے بہت سے لوگ مارٹن لوتھر کنگ کے دور اور ذہنی سفر کا تسلسل تصور کررہے ہیں لیکن یہ اُسی وقت ہوگا جب اوبامہ صیہونیت کے شکنجے سے آزاد رہتے ہوئے امریکہ سمیت پوری دنیا کےلئے پالیسیاں تشکیل دیتے وقت انسان دوستی اور مارٹن لوتھر کے فلسفہ امن و محبت کو یاد رکھیں ۔ مارٹن لوتھر کنگ کا کہنا تھا کہ ”وہ حق جو دیر سے ملے ‘ حق تلفی کے مترادف ہوتا ہے “۔ بارک اوبامہ کو ‘ جب تک وہ صدارت کے عہدے پر فائز رہیں گے ‘ اس قول کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ امریکی پالیسیوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں تباہی و بربادی مچاتے ہوئے ‘ کروڑوں انسانوں کو نہ صرف ان کے حقوق سے محروم کردیا ہے بلکہ لاکھوں کے بے جرم قتل کا سبب بھی بنی ہیں ۔ اوبامہ کو ان پالیسیوں سے انسان دشمنی کا عنصر حذف کر کے انسان دوستی کا عظیم اور غیر معمولی عنصر شامل ہوگا تاکہ امریکہ کے خلاف پوری دنیا میں پھیلی ہوئی نفرت کم ہو ۔ اوبامہ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جارج بش نے ان کے لئے بہت کام چھوڑا ہے اور ان کے بوئے کانٹوں کو صاف کر کے امریکی عوام کی خواہشات کے مطابق محبتوں کے گلابوں کی فصل اب اوباما کو بونی ہے ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.