وفا کا سفر حصہ اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت عزیز علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ نبی گزرے ہیں جو قوم نبی اسرائیل کی ہدایت کے لئے دنیا میں بھیجے گئے۔ جب قوم بنی اسرائیل کی بداعمالیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر اللہ کی طرف سے قہر نازل ہوا۔ اچانک ایک کافر بادشاہ جس کا نام بخت نصر تھا بہت بڑی فوج لے کر بیت المقدس پر حملہ آورہوا اور شہر کے ایک لاکھ افراد کو قتل کردیا۔ ایک لاکھ کو گرفتار کرلیا اور باقی ملک شام میں ادھر ادھر بکھر کر روپوش ہوگئے۔ نصر بخت کی فوج نے پورے شہر کو توڑ پھوڑ کر اور اجاڑ کر رکھ دیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی گرفتار کر لئے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب حضرت عزیز علیہ السلام رہا ہوکر اور ایک گدھے پر سوار ہوکر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو اپنے اجڑے ہوئے ویران شہر کو دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور رونے لگے۔ اس وقت آپ کے پاس ایک برتن کھجور کا ایک پیالہ انگور کے رس کا تھا۔ آپ اس اجڑے ہوئے شہر کو دیکھ کر سوچنے لگے کہ اس برباد اور اجڑے ہوئے شہر کو اللہ کس طرح آباد فرمائے گا۔ پھر آپ نے درختوں سے کچھ پھل توڑ کر تناول فرمائے اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا اور بچے ہوئے شربت کو برتن میں بھرلیا گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کیلئے موت کی نیند سلادیا اور پورے سوسال تک سوتے رہے۔ اللہ تعالٰی نے درندوں پرندوں جن و انس سب کی آنکھوں س آپ کو اوجھل کردیا تاکہ کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے جب سترہ سال بیت گئے تو اللہ تعالٰی نے ملک فارس کے ایک بادشاہ کو اپنے لشکر کے ہمراہ بیت المقدس کے اس ویرانے میں مسلط کیا۔ اس بادشاہ نے اس شہر کو پہلے سے بہتر طریقے پر آباد کیا۔ نبی اسرائیل کے وہ لوگ جو ادھر ادھر رو پش ہوگئے تھے ان کی اولادیں دوبارہ بیت المقدس میں آکر آباد ہوگئیں۔ سو سال کے بعد جب حضرت عزیز علیہ السلام دوبارہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ آپ کا گدھا مرا پڑا ہے۔ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھر چکی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور برتن میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل درست ہے۔ آپ کی عمر وہی چالیس سال ہے سر اور داڑھی کے بال بالکل کالے ہیں۔ بیت المقدس پہلے سے زیادہ بارونق اورآباد ہے۔ آپ حیرانی کے عالم میں سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ حضرت جبرائیل امین وحی کے ذریعے اللہ تعالٰی کا پیغام لے کر آئے ۔ فرمایا ْ ْ تم یہاں کتنے عرصہ رہے ْ ْ آپ نے اندازے سے عرض کی ْ ْ ایک دن یا کچھ کم۔“

اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا تم پورے ایک سوسال یہاں رہے۔ اپنے گدھے کو دیکھو وہ مرگیا ہے اس کے اعضاء بکھر گئے ہیں۔ اب ذرا میری قدرت دیکھو کہ آپ کا کھانا جو چند گھنٹوں کے بعد سڑ جاتا ہے جوں کا توں صحیح سلامت ہے۔ دیکھو گدھے کا بکھرا ہوا ڈھانچہ کیسے جڑتا ہے، یکایک ان کی نگاہ کے سامنے گدھے کے اعضاء جمع ہوئے اور اپنے اپنے مقام پر جالگے۔ ہڈیوں پر گوشت چڑھا۔ گوشت پر کھال آئی، کھال پر بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ (ملا حظہ کیجئے سورۃ بقرہ رکوع 35 تفسیر جمل علی الجلالین جلد اول صفحہ 212 تا 215)

قرآن مجید کے اس سچے واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ دن و رات، یہ ماہ و سال، یہ زماں و مکاں اور یہ حدود و قیود سب کچھ حکم الٰہی کے تابع ہیں۔ کسی میں یہ مجال نہیں کہ اس کے حکم کی نافرمانی کرے۔ ایک طرف کارخانہ عالم کو روک دیا اور حضرت عزیز علیہ السلام سوسال تک سوتے رہے۔ آپ کی عمر چالیس سال ہی رہی جب کہ دوسری طرف زمانے کی رفتار متحرک تھی۔ چاند اپنی جگہ متحرک تھا، سورج اپنی جگہ، ہر چیز اپنے اپنے حساب سے جاری و ساری رہی۔ معلوم ہوا وقت کی قید ہم انسانوں کےلئے ہے اللہ تعالٰی اس کا محتاج نہیں۔ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے کہ ہزار سال کو بھی لمحوں میں بدل دے اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہو۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد واقعہ معراج کو سمجھنا مشکل نہیں واقعہ معراج بھی اللہ تعالٰی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔

اللہ تعالٰی نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد کو اپنی قدرت کامل کا مشاہدہ کرایا واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔

ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے اللہ تعالٰی فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے۔ اے فرشتو آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو میری حمد و تقدیس کرنا بند کردو آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو بلکہ آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کےلئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کےلئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔ مالک دربان دوزخ سے کہہ دو کہ دوزخ کو تالہ لگادے۔ خلد بریں کی حوروں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات شب معراج کی رات میرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کےلئے تیار ہو جاؤ۔ (ملاحطہ کیجئے معارج البنوۃ علامہ کا شفی رحمۃ اللہ علیہ )

چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل دیا گیا حکم ربی ہوا اے جبرائیل اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔ حکم الٰہی سن کر جبریل امین سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔“(ملا حظہ ہو تفسیر ہو روح البیان صفحہ 108 )
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1308882 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.