ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر
پر کیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجب مستی سی طاری ہے۔ رات آہستہ
آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے
ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پرسکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب
گزرنے کو ہے کہ یکایک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے
جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق
لئے آسمان کی بلند یوں سے اتر کر حضرت اُم ہانی کے گھر تشریف لاتے ہیں جہاں
ماہ نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے،
دل بیدار لئے آرام فرما رہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں
اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہو جائے گی فکرمند
ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے۔ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یا
جبریل قبل قدمیہ اے جبریل میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی
ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور
سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ
محبوب دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردئے۔
یہ منظر بھی کس قدر حسیین ہوگا جب جبریل امین نے فخر کائنات حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین کے ہونٹوں کی
ٹھنڈک پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں
اے جبرائیل کیسے آنا ہوا۔ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ خدائے بزرگ و برترکی
طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
ان اللہ اشتاق الی لقائک یارسول اللہ
یا رسول اللہ! اللہ تعالٰی آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے۔ حضرت تشریف لے چلئے
زمین سے لیکر آسمانوں تک ساری گزرگاہوں پر مشتاق دیدکا ہجوم ہاتھ باندھے
کھڑا ہے۔ (ملا حظہ ہو معارج النبوۃ علامہ کا شفی رحمۃ اللہ)۔
چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر جبرائیل امین نے آپ کا سینہ
مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
کہ ْ ْ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر مرے پاس سونے کا ایک طشت
لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا
پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر
رکھ دیا گیا۔ (بخاری شریف جلد اول صفحہ 548 )
مسلم شریف میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب
مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند
کردیا۔
(ملاحظہ کیجئے مسلم شریف جلد اول صفحہ 92)
حضرت جبرائیل امین فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے
اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔
(ملا حظہ کیجئے فتح الباری جلدد 13 صفحہ 410)سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں
کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل
ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے
بالخصوص دیدار الٰہی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ کے
سر پر عمامہ باندھا گیا۔
علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شب معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی
پیدائش سے سات ہزار پہلے کا تیار کیا ہوا تھا چالیس ہزار ملائکہ اس کی
تعظیم و تکریم کے لئے اس کے ارد گھر کھڑے تھے۔
حضرت جبرائیل نے حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی،
یا قوت کا کمر بند باندھا۔
(ملا حظہ کیجئے معارج النبوۃ صفحہ 401)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
“سینہ سرخ یا قوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت بجلی کوندت تھی، سٹانگیں
سبز زمرد، دم مرجان، سر اور اس کی گردن یا قوت سے پیدا کی تھی۔ بہشتی زین
اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یا قوت کے دور، کاب آویزاں تھے اس کی
پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔
چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ
علیہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل امین نے رکاب تھام لی۔
حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین
کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شب معراج کی رات
اسی ہزار فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں
طرف تھے۔ (ملاحظہ کیجئے معارج النبوۃ ص 406)
فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے
ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔
سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا
حولہ لنریہ من ایتنا
ترجمہ: پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کول ے گیا رات میں مسجد حرام سے مسجد
اقصٰی تک وہ مسجد جس کے ارد گرد ہم نے برکت فرمادی ہے تاکہ ہم اسے دکھائیں
اپنی نشانیاں۔ |