آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت شان
و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف روانہ ہوتے
ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لا مکاں تک نور ہی نور پھیلا
ہوا تھا سواری بھی نور تو سوار بھی نور باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور،
میزبان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں بے آب و گیار
ریگستانوں گھنے جنگلوں چٹیل میدانوں سر سبز و شاداب وادیوں پر خطر ویرانوں
پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بے شمار درخت ہیں۔
حضرت جبرائیل عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ
آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے
راستے میں ایک سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسٰی علیہ السلام
کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی
دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کیلئے بے چین و
بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے
باب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے
پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا جبریل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی
مار کر اس میں سوراخ کر دیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔ (ملاحظہ کیجئے
تفسیر ابن کچیر جلد 3 صفحہ 7)
آفتاب نبوت حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصٰی میں داخل
ہوتے ہیں صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑ چکے
ہیں۔ قدسی سلامی دے رہے ہیں۔ حضرت جبرائیل امین اذان دے رہے ہیں۔ تمام
انبیاء و رُسل صف در صف کھڑے ہو رہے ہیں جب صفیں درست ہو چکیں تو امام
الانبیاء فخر دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم امامت
فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو
رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء
کرام سب کے سب سر تسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا
دلنواز منظر روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہوتے ہیں عظمت و
رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ
پھر گونج اٹھتی ہے۔ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نوری مخلوق کی جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ثمہ عرج بی پھر مجھے اُوپر لے جایا گیا۔
براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں بُراق پہلا
قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آ گیا۔ حضرت جبرائیل امین نے دروازہ
کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے ؟
جواب دیا جبرائیل ۔ دربان سے پوچھا من معک تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل
امین نے کہا حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم۔ دربان نے کہا مرحبا
دروازے انہی کیلئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا آسمان اول
پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام
اور حضرت یحیٰی علیہ السلام نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش
آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے چوتھے آسمان پر حضرت
ادریس علیہ السلام نے پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے چھٹے
آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا
استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو
جنّت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر
پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں
مخلوق کے عُلوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب
تشریف لا رہے ہیں ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالٰی نے حکم
دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہو جائیں جب میرے محبوب کی سواری
آئے تو سب زیارت کر لیں چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہو گئے اور جمال محمد
(صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کیلئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔
(ملاحظہ کیجئے در منثور جلد6 صفحہ 126)
اس مقام پرجبرائیل امین رک گئے اور عرض کرنے لگے یارسول اللہ ہم سب کیلئے
ایک جگہ مقرر ہے اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالٰی کے
انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر رکھ دیں گے یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔
سبحان اللہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا
اندازہ لگائیے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد
ختم ہو جائے وہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی
ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اے
جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ جبرائیل امین نے عرض کی حضور یہ مانگتا ہوں
کہ قیامت کے دن پُل صراط پر آپ کی اُمت کیلئے بازو پھیلا سکوں تاکہ حضور کا
ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پُل صراط سے گزر جائے۔ (ملاحظہ کیجئے روح
البیان جلد خامس صفحہ 221)
حضور تاجدارِ انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ
کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی
حجابات تھے تمام پردے اٹھا دئیے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان
فرماتا ہے۔
فاستوی وھو بالافق الاعلی (سورہ نجم7)
ترجمہ :۔ پھر اللہ نے قصد فرمایا اور وہ آسمان بریں کے بلند کنارہ پر تھا۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
کہ حضور سرور دو عالم حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج
آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الٰہی متوجی نمائش ہوئی۔ صاحب
تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلٰی یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ
فرمایا۔
پھر وہ مبارک گھڑی بھی آ گئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حریم الٰہی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین
عالم بیداری میں اللہ تعالٰی کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محّب کی اس
ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظوں میں بیان کرتا ہوں۔
ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی (سورہ نجم 9۔ 8 )
پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا۔ پھر خوب اتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو
ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔
صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ
تعالٰی کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب کو اپنے قرب
سے نوازا۔ (روح البیان)
جب حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں
پہنچے تو ارشاد فرمایا۔
فاوحی الی عبدہ ما اوحی (سورہ نجم10)
ترجمہ:۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔
حضرت امما جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ
تعالٰی نے براہِ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ
تھا۔ پھر راز و نیاز کی گفتگو ہوئی۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ
تعالٰی نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالٰی اور
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہی کو ہے۔
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
ما کذب الفؤاد مارای (سورہ نجم 11)
ترجمہ:۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔
اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم کے قلبِ انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شبِ معراج آپ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکاتِ الٰہی دیکھے
حتٰی کہ اللہ تعالٰی کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل
نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے
میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں اپنے
محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے۔
مازاع البصر وما طفی (سورہ نجم 17)
ترجمہ :۔ آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔
اس آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا
ذکر ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج کی رات اس مقام
پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ دیدار الٰہی سے مشرف
ہوئے تو اس موقع پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں
بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم
تھیں۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالٰی قرآن مجید میں مذید ارشاد
فرماتا ہے۔
لقد رای من ایت ربہ الکبری (نجم آیت18 )
ترجمہ :۔ بے شک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔
اس آیت مقدس میں بنایا گیا ہے کہ شبِ معراج کی رات حضور صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالٰی کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و
ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلوماتِ غیبیہ کا آپ کو علم
حاصل ہو گیا۔ (ملاحظہ کیجئے روح البیان)
رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
رایت ربی فی احسن صورۃ فوضع کفہ بین کتفی فواحدت بردھا ۔۔۔۔۔
ترجمہ :۔ میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں
کندھوں کے درمیان اپان ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک پائی
اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا۔ (ملاحظہ کیجئے مشکوٰۃ شریف صفحہ 28
)
ایک موقع پر مذید ارشادِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔
رایت ربی بعینی وقلبی (مسلم شریف)
ترجمہ :۔ میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا دیدارِ الٰہی
کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا۔
فخاطبنی ربی ورایتہ بعینی بصری فاوحی
ترجمہ :۔ میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے
سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی۔ (ملاحظہ ہو صاوٰی
صفحہ328 )
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ حضرت مکرمہ حضرت انس بن مالک
اور حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کی ذات کا
مشاہدہ فرمایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ
تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلعت، موسٰی علیہ السلام کو کلام
اور حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا
اعزاز بخشا۔
حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس
رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قائل ہوں حضور نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن
بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج اللہ تعالٰی کو دیکھا۔
فخر دو عالم حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج کے موقع
پر اللہ تعالٰی نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا تحفہ سورہ بقرہ کی آخری تین
آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصُیبتوں کے ختم ہونے کی
خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسرا تحفہ یہ دیا گیا کہ اُمت محمدیہ (صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا تیسرا تحفہ یہ
کہ اُمت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔
اللہ تعالٰی کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الٰہی
سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و
رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب ہمارے پیارے نبی محمد
مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم واپسی کیلئے روانہ ہوئے تو چھٹے
آسمان پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے دریافت کیا۔ کیا عطا ہوا ؟ حضور صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اُمت پر پچاس نماز کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔
حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا اے اللہ کے نبی میں نے اپنی قوم (بنی
اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے آپ کی اُمت یہ بار نہ اٹھا سکے گی۔ آپ واپس
جائیے اور نماز میں کمی کرائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسٰی علیہ
السلام نے پھر کم کرانے کیلئے کہا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
پھر بارگاہِ الٰہی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام
کے مشوروں سے بار بار مہمانِ عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز کی کمی کی
التجاء کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالٰی نے
ارشاد فرمایا۔
اے محبوب ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ یہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی
ہیں مگر ان کا ثواب دن گنا دیا جائیگا میں آپ کی اُمت کو پانچ وقت کی نماز
پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم براق پر
سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظّمہ واپس تشریف لائے۔ (ملاحظہ
کیجئے تفسیر ابن کثیر جلد سوئم صفحہ 32) |