تحریر: طلحہ السیف
ہم کشمیر کے دعویدار نہیں‘‘
یہ خارجہ پالیسی ہے۔
’’کشمیر صرف اور صرف ہمارا ہے، کشمیری قوم کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘
یہ داخلہ پالیسی ہے۔
یہ مت پوچھئے دونوں میں سے ٹھیک کون سی ہے۔ دونوں ٹھیک ہیں، ہر اچھی قوم کی
خارجہ و داخلہ پالیسی الگ ہوا کرتی ہے، آج کل امریکہ کو ہی دیکھ لیجئے!
ویسے داخلہ وخارجہ پالیسی میں تضاد امریکیوں نے تو اب اپلائی کیا ہے، ہم تو
شروع سے ہی ایسا کرتے چلے آئے ہیں، ذرا نظر تو دوڑائیے!
ہم نے تقسیم کے وقت کشمیر اور کشمیر کا راستہ دونوں ہندوستان کے پاس جانے
دیئے، یہ خارجہ پالیسی تھی۔ کشمیر پر دعویٰ بھی برقرار رکھا، یہ داخلہ
پالیسی ہوئی۔
۸۴ئ میں اکثر کشمیر پر قبضہ کرکے اسے چھوڑنا خارجہ پالیسی کا تقاضہ تھا
جبکہ شہ رگ والے فارمولے کے تحت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت داخلہ
پالیسی کا۔
تاشقند معاہدے میں بات پانی، تجارت، جنگ بندی اور دیگر امور تک محدود رکھنا
خارجی دباؤ کا نتیجہ تھا جبکہ کشمیر کشمیر کا واویلا داخلی دباؤ کا۔
ہم نے ۵۶ئ کی جنگ میں کشمیر کے محاذ پر زور بڑھانا خارجہ امور کے آداب کے
منافی سمجھا جبکہ مسئلہ کشمیر کو اس جنگ کا سبب قرار دینا داخلی ضروریات کے
عین مطابق جانتے ہیں۔
۱۷ئ میں بھی اگر ہندوستان کے مشرقی پاکستان میں ناجائز داخلے کے خلاف
احتجاجاً ہی کشمیر میں گھس جاتے تو شاید جنگ کا نتیجہ کچھ اور ہوتا مگر ہم
خارجہ پالیسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیٹھ رہے جبکہ آج تک ہم ہندوستان کی اس
جارحیت کو اپنی ’’مضبوط‘‘ اور ’’بے لچک‘‘ کشمیر پالیسی کا شاخسانہ قرار
دیتے ہیں تو یہ ہماری داخلہ پالیسی کا حصہ ہے۔
ہم نے کارگل میں ہندوستان سے ۱۷ئ کا بدلہ لینے اور کشمیر آزاد کرانے کا
سنہری موقع خارجہ پالیسی کے زیر اثر ہی گنوایا لیکن کارگل کا ہیرو کہلانے
کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا ظاہر ہے داخلہ پالیسی ہی تو ہے۔
اس ملک کے چار افراد جانتے ہیں کہ کشمیر کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ بھی کہ
وہ فیصلہ ’’یو ٹرن‘‘ ہے کیونکہ خارجہ پالیسی اسی قرینے کی متقاضی ہے جبکہ
یوم یکجہتی کشمیر جوش وخروش سے منایا گیا، داخلہ پالیسی ایسا ہی چاہتی ہے۔
غیروں کے آگے ہر بات میں جھکاؤ ہی جھکاؤ.خارجہ پالیسی
اپنوں کو حکم کہ ہر حال میں سر جھکاؤ .داخلہ پالیسی
کافروں کے ہر حکم پر سر تسلیم خم.خارجہ پالیسی
اپنوں کی نہ کوئی فکر نہ کوئی غم.داخلہ پالیسی
ہندوستان کے ساتھ ہر معاملے میں لچک کا اظہار ہو رہا ہے اور اس کی ہر قسم
کی چودھراہٹ تسلیم کرکے بات چیت یعنی خرید وفروخت کا عمل آگے بڑھایا جارہا
ہے جبکہ شہدائ کشمیر کے ورثائ کا احتجاجی مظاہرہ بھی قابل دست اندازی پولیس
سمجھا گیا، وزیر خارجہ علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا معاملہ طے
کرلیا گیا ہے اور چند ماہ بعد قوم کو سنادیا جائے گا جبکہ وزیر اعظم اور
حکمران جماعت کے ترجمان سرے سے انکاری ہیں۔
حریت کانفرنس کو تقسیم کردیا گیا ہے اور دونوں دھڑے خود اپنی باتوں میں ہی
کنفیوژن کا شکار ہیں گویا تقسیم کے کسی بھی نامرضی فارمولے کو داخلہ پالیسی
کے طور پرعوام کے ذہنوں میں مسلط کرنے کے لئے پلاٹ مہیا کرلیا گیا ہے،
کشمیریوں کے منہ سے کہلوایا جارہا ہے کہ ہمیں اب مسئلہ کشمیر کا حل چاہئے،
اب خارجہ پالیسی کے تحت طے کردہ حل لایا جائے گا اور اس کا ذمہ دار ان
کشمیری لیڈروں کو قرار دے دیا جائے گا۔ عوام کا غضب ان کی طرف منتقل ہوجائے
گا اور داخلہ وخارجہ پالیسیاں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی۔
آج تک داخلہ پالیسی کشمیری مجاہدین کی اخلاقی حمایت کرنا اور ان کی حوصلہ
افزائی کرنا تھی اب خارجہ پالیسی اس کی تبدیلی چاہتی ہے، لو کشمیریوں میں
سے بعض ہی کہہ دیں گے اور کہہ رہے ہیں کہ ہم مزید قربانیاں نہیں دے سکتے،
مجاہدین کی حمایت سے دستکش ہو کر لعنت کا یہ طوق بھی ان کے گلے میں ڈال دیا
جائے گا کہ وہ لوگ اب خود مسلح جدوجہد سے تھک گئے اور تنگ آگئے ہیں اب اس
کی اخلاقی حمایت بے سود ہے۔
کشمیر میں کوئی نہیں تھکا، تھکے ہوئے نظر آنے والے تو پہلے دن سے ہی شکست
خوردہ تھے، وہ تو کبھی اٹھے ہی نہ تھے ان کا بیٹھنا چہ معنی دارد. البتہ
بہت سارے لوگوں کی نیک نامی برباد کرنے کے لئے انہیں دھوکہ دے کر اپنی
خارجہ پالیسی کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، انہیں باور کرایا جارہا ہے کہ تم
آنکھیں بند کرکے ہمیں اپنا وکیل تسلیم کرلو ہم تمہارا کیس ٹھیک طرح سے لڑ
کر تمہیں انصاف دلائیں گے، ان کے سامنے زمانے کے بدلتے حالات کا رونا رویا
جارہا ہے انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ عسکریت جاری رکھنا ممکن نہیں البتہ گن
رکھنے کی قیمت پر مطالبات منوائے جاسکتے ہیں۔ وہ لوگ بکاؤ مال نہیں، اقتدار
کے بھوکے نہیں، قربانیوں سے گریزاں نہیں مگر ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیوں
کے چکر سے نا آشنا ہیں، ہماری ’’یوٹرن آزمائیوں‘‘ سے نابلد ہیں اس لیے
دھوکے میں اگر ایسی باتیں کر رہے ہیں جس کا نقصان تحریک کشمیر کو پہنچ رہا
ہے۔ حریت پسند تقسیم نظر آرہے ہیں، مجاہدین ان سے برہم اور نالاں ہیں۔
پہلے کشمیر میں صرف دو نظرئیے تھے ایک طاقتور ایک کمزور، اب تو نظریوں کی
بھرمار دکھائی دے رہی ہے، وہ جہاں تحریک کشمیر کے اصل حل سے دور ہو رہے ہیں
وہاں اپنی قوت کو بھی منتشر کر رہے ہیں دشمن پر ان کی کمزوری آشکارہ ہو رہی
ہے اور وہ تقسیم کرکے سب کو الگ الگ ختم کر رہا ہے۔ اس لیے اس موقع پر چند
اقدامات ہم سب کو کرنے ہوں گے تاکہ ہم ان عظیم قربانیوں کو رائیگاں جانے سے
بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں جو جہاد کشمیر میں آج تک دی گئیں ہیں،
جہاد کا محافظ تو خود اﷲ ہے اور وہی شہدا کے خون کی لاج رکھنے والا ہے لیکن
اپنی طرف سے کوشش کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تمام با اثر قوتوں کو جن کا جہاد کشمیر سے
تعلق ہے خواہ سیاسی ہو یا عسکری، کشمیرکی سیاسی قیادت کو متحد کرنے کی
بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ سیاسی قیادت یعنی حریت کانفرنس کا اختلاف ہی وہ
بنیادی نکتہ ہے جو کشمیر کے کسی بھی نامرضی حل کو مسلط کرنے میں ان کفریہ
طاقتوں کو کمک فراہم کر رہا ہے، لیڈروں کے اختلاف سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ
گویا پوری کشمیری قوم ہی تقسیم ہے اور آپس میں دست وگریباں ہے، ہم نے جہاں
تک دیکھا ہے اور فریقین کی باتوں سے جو نتیجہ نکالا ہے اس کے مطابق یہ سمجھ
میں آیا ہے کہ ان حضرات کا اختلاف زیادہ تر لفظی ہے، دونوں طرف شہدائ کے
وارثین ہیں، ایسے لوگ ہیں جن کی قربانیوں میں کوئی شک نہیں اور نیتوں میں
بھی، صرف طریق کار اور لائحہ عمل کا اختلاف ہے جو اتنا سنگین نہیں جسے دور
نہ کیا جاسکے، آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے انہیں جو عزت اور
مقام حاصل ہے جھک کر یا بک کر اسے گنوانے کی نادانی غالباً ان میں سے کوئی
بھی کرنا نہیں چاہے گا اس لیے انہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مل بیٹھنا
چاہئے اور کسی بنیادی نکتے پر اتفاق کرلینا چاہئے جو جزئیات میں قدرے
اختلاف کے باوجود قائم رہے اور ان کی باہمی تقسیم کا عنصر ختم ہو۔
کشمیر کے عوام اس جدوجہد آزادی کا بنیادی عنصر ہیں، ان کی قربانیوں سے
تحریک قائم ہے، اور جب تک وہ ثابت قدم رہیں گے تحریک قائم رہے گی۔ کوئی بھی
گوریلا تحریک مقامی آبادی کے تعاون کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتی اور اس
بارے میں کشمیری قوم کا جو کردار ہے اس کی مثال دنیا کی بہت کم تحریکیں ہی
پیش کر سکیں گی۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ اس موقع پر دکھایا جائے کہ کشمیری
قوم خود قربانیوں سے تھک چکی ہے اور اب وہ کسی قیمت پر بھی حل چاہتی ہے
خواہ وہ نظرئیے کی قربانی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ یہ حقیقت نہیں
ہے کشمیر میں برسرپیکار مجاہدین کے ساتھ کشمیری عوام کا تعاون اسی طرح قائم
ہے ان کے جذبات، نظریات اس طرح جوان ہیں اور وہ تو مکمل آزادی سے کم کسی حل
کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں موجود
کشمیری عوام کے نمائندگان اس امر کا خوب پرچار کریں اور ایسے ذرائع استعمال
کریں جن سے اس منفی پروپیگنڈے کا توڑ ہوسکے۔ کشمیری عوام کی طرح بین
الاقوامی میڈیا پر یہ پیغام بار بار نشر ہو کہ وہ مکمل آزادی اور حق خود
ارادیت کے حصول سے کم کسی حل کو قبول نہیں کریں گے۔
عسکری کارروائیاں تحریک کشمیر کا وہ مضبوط عنصر ہیں جن سے اس تحریک میں وزن
پیدا ہوا، اپنی کارروائیوں کی بدولت تحریک کشمیر دنیا بھر میں متعارف ہوئی،
ہر فورم پر اس کا تذکرہ آیا، انہی کی بدولت ہندوستان بات چیت کرنے اور
کشمیر کو مسئلہ تسلیم کرنے پر رضا مند ہوا، اسی یلغار نے اسے کئی بار دفاعی
پوزیشن میں آنے پر مجبور کیا اور اس نے دنیا بھر میں جاکر واویلا مچایا۔ اس
وقت بھی کسی حل کے مسلط کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی کارروائیاں ہیں۔
حکومت پاکستان اور دیگر منصوبہ سازوں نے پروپیگنڈے اور منفی اقدامات کے زور
پر مجاہدین کو اس معاملے کے فریقوں کی صف سے ہی گویا باہر کردیا ہے اور ان
سب کی مشترکہ کوششیں اس پر صرف ہو رہی ہیں کہ مجاہدین کو بالکل ختم یا
انتہائی کمزور کردیا جائے۔ عسکری کارروائیوں کا امکان ہی مٹادیا جائے تاکہ
مزاحمت دم توڑ جائے اور طاقت سے عاری بے دست و پا کشمیری سیاسی قیادت کے
ہاتھ میں مجوزہ حل کی فائل تھمادی جائے۔ قائدین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ
لینی چاہئے کہ ان کو بات چیت کے لئے مدعو کیا جانا اور بطور فریق تسلیم کیا
جانا صرف اس وقت تک ہے جب تک مجاہدین مضبوط ہیں اور عسکریت قائم ہے،
خدانخواستہ اگر یہ سب ختم ہوگیا تو ان کی حیثیت بھی کچھ نہ رہے گی، نعروں
اور جلسوں کی سیاست نے ۰۴ سال میں کشمیر اور اہل کشمیر کو وہ مقام نہیں
دلایا جو چند سال کی عسکری جدوجہد نے انہیں دلایا ہے، اس لیے کشمیری قیادت
ہوش کے ناخن لے، سازش کا شکار ہو کر اپنا بازوئے شمشیر زن نہ کاٹے، خود کو
طاقت سے محروم نہ کرے بلکہ مجاہدین اور جہاد کو مزید مضبوط کرکے مسئلہ کے
حل کے لئے ان کا کارڈ استعمال کرے۔ یقین جانیئے! اگر سیاسی قیادت یہ اعلان
کردے کہ پاکستان اور ہندوستان اگر مجاہدین کو فریق تسلیم نہیں کرتے تو ہم
بھی بات نہیں کرسکتے یا ہم ان کو اعتماد میں لیے بغیر ہم کوئی حل قبول نہیں
کریں گے تو یہ مجاہدین کو ساتھ بٹھانے پر یقینا مجبور ہو ں گے اور کشمیری
قیادت کی بات کو بھی وزن دینے پر آمادہ ہوں گے ابھی تو وہ ان بیچاروں کو
صرف احکامات ہی سنا رہے ہیں۔
پاکستانی عوام کی تحریک کشمیر سے ایک نظریاتی اور جذباتی وابستگی ہے جبکہ
بدقسمتی سے حکمرانوں کی خارجہ وداخلہ پالیسیاں ان کی ذاتی دلچسپیوں اور
مفادات کی غمّاز ہوتی ہیں، جن کی کچھ مثالیں ہم مضمون کی ابتدائ میں نقل کر
چکے۔ ہر حکمران اپنی اپنی من چاہی پالیسی کو قومی مفادات کا نام دے کر اسے
قوم پر زبردستی مسلط کردیتا ہے۔ پاکستانی عوام کی یہ وابستگی اور تعاون
تحریک کشمیر کی کامیابی اور مضبوطی کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان
کے عوام اس حقیقت سے بخوبی آشنا بھی ہیں اور حکمرانوں کے مزاج سے بھی واقف
ہیں اس لیے وہ اس نازک موقع پر پہلے سے زیادہ تعاون اور وابستگی کا ثبوت
دیں اور میڈیا پر جو کچھ کہا سنایا جارہا ہے اس کے فریب میں آکر تحریک
کشمیر یا کشمیری عوام اور قیادت سے بدگمان نہ ہوں اور نہ ہی کسی آمر کے
مجوزہ حل کو قبول کریں یا اس کی حمایت کریں۔ کشمیر کی آزادی اور الحاق
ہمارا قومی نظریہ ہے جبکہ اس سے دستبرداری تحریک سے اکتاہٹ حکومتوں کا
نظریہ ہے جو حکومت کی تبدیلی سے بدل جائے گا، قومیں اپنے نظریات اور اصولوں
سے پہچانی جاتی ہیں ہم نے اگر انحراف در انحراف کی یہ پالیسی جاری رکھی تو
ہم اپنا تشخص کھو بیٹھیں گے اور بحیثیت قوم شناخت سے محروم ہوں گے، پہلے
بھی حکمرانوں کے ایسے ناجائز اقدامات کی بے سوچے حمایت کرکے ہم بہت کچھ کھو
چکے ہیں جبکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس کون سی متاع ہے جو وہ کھوئیں گے ان کا
منشور تو صرف غلامی ہے اور غلام کا کچھ بھی اپنا نہیں ہوتا۔
کشمیر میں بہنے والا لہو ہم سے کئی سوالات کر رہا ہے، قربانیاں دینے والے
کشمیری عوام ہم سے بہت کچھ پوچھ رہے ہیں۔ کیا ہم انہیں بیچ منجدھار چھوڑنے
کی اپنی اس پالیسی کا کوئی جواز پیش کرسکتے ہیں؟
نہیں.
تو آئیے! پھر کشمیر پر اپنی خارجہ وداخلہ پالیسی خود بناتے ہیں۔ |