اصول دین: توحید،رسالت، آخرت۔ قسط2

تحریر: حافظ محمود حسن

بات آگے بڑھانے سے قبل یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عقیدۂ توحید میں وہ تمام عقائد شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اسمائ و افعال سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں اہل علم کی اصطلاح میں ’’الٰہیات‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عقیدۂ رسالت کے ضمن میں وہ تمام عقائد اور ان کی تمام تفصیلات شامل ہیں جو نبوت و رسالت اور انبیائ و مرسلین سے متعلق ہیں مثلاً نبوت و رسالت کسے کہتے ہیں؟ انبیائ و مرسلین کی پہچان اور اوصاف کیا ہیں؟ ان کا انکار کرنا دین و ایمان میں کس قدر خلل ڈالتا ہے ؟اور اسی کے ضمن میں وحی الٰہی خواہ صحیفوں کی شکل میں ہو یا کتابوں کی صورت میں ان سے متعلق عقائد بھی شامل ہیں کیوں کہ یہ صحائف و کتابیں انبیائ و مرسلین ہی کو ملتی ہیں اس لئے انہیں عقیدۂ رسالت کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔جبکہ عقیدۂ آخرت کے ضمن میں وہ تمام عقائد اور تمام مباحث و تفصیلات شامل ہیں جو موت کے بعد کے احوال سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً عذاب قبر کی حقیقت، حشر و نشر اور قیامت کا ثبوت، قیامت کی تمام تفصیلات، جنت و جہنم کی حقیقت وغیرہ۔

اس توضیح سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اہل علم نے تمام ادیان کی بنیادی دعوت ان تین اصول کو کیوں قرار دیا ہے گویا یہ تینوں ایک جامع ترین عنوانات ہیں جن کے تحت کئی کئی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں اور شاید ہی کوئی ضروری گوشہ ہو جو ان میں داخل نہ ہو، اس توضیح کے بعد اب ہم دوبارہ پہلے نکتے توحید کی وضاحت کرتے ہیں۔

توحید کی حقیقت پر کچھ روشنی پہلے ڈالی جا چکی ہے اب ہم یہ جانتے ہیں کہ توحید کی اہمیت کس قدر ہے اور کیوں کر رہے؟ کہ تمام ادیان میں اس کو بنیادی حیثیت دی گئی اور تمام انبیائ علیہم السلام کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا گیا۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر انبیائ کرام کی دعوت میں یہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ وہ اپنی امتوں کو یہی کہتے تھے:
یا قوم اعبدوا اللّٰہ مالکم من الٰہ غیرہ
اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں ہے۔

دیکھئے سورۂ فاتحہ جو ہر مسلمان پڑھتا ہے اس میں اس سے اقرار کرایا جاتا ہے کہ:
ایاک نعبد و ایاک نستعین﴿اے اللہ!﴾ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) فرماتے ہیں کہ توحید کی اہمیت چار وجوہ سے ہے۔

پہلی وجہ
نیک بختی اور سعادت کا حصول ایک اس بات پر موقوف ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیاز مندی، عاجزی اور فروتنی اختیار کرے اور یہ نیاز مندی توحید کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو بھی معبود جانے گا تو وہ ڈانوا ڈول رہتا ہے کبھی اللہ کے در پر تو کبھی ’’غیر اللہ‘‘ کے در پر یوں وہ خالص نیاز مندی سے محروم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے سعادت نصیب نہیں ہوتی قرآن کریم میں اس کو یوں سمجھایا گیا ہے کہ اگر دو غلام ہوں ان میں سے ایک کا مالک تو ایک ہی شخص ہے اور دوسرے کے مالک کئی ہیں اور ان میں ہمیشہ ضدا ضدی اور جھگڑا رہتا ہے اور وہ غلام کبھی ایک کے در پر دھکے کھاتا ہے تو کبھی دوسرے کے در پر جبکہ پہلا غلام آرام اور ذہنی سکون و اطمینان سے ایک ہی مالک کی خدمت بجا لاتا ہے اور اس کی نوازشات سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے چنانچہ یہی حالت موحد اور مشرک کی ہوتی ہے کہ مشرک ہمیشہ متذبذب اور حیران و سرگردان رہتا ہے کبھی اللہ کی طرف دوڑتا ہے اور کبھی غیر اللہ کی طرف، پھر غیر اللہ میں سے بھی کسی ایک پر مطمئن نہیں ہوتا بلکہ کبھی کسی طرف بھاگتا ہے تو کبھی اس کو چھوڑ کر کسی اور طرف جبکہ موحد ہمیشہ اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اسی کی عظمت و عبادت میں لگا رہتا ہے اور اسی در پر اپنی جبین نیاز کو خم کرتا ہے کسی اور طرف نہیں جھکتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ عاجزی و نیازمندی پسند آتی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ دائمی سعادت مندوں میں شمار کرلیا جاتا ہے۔

دوسری وجہ
جس طرح دنیا کا کوئی کمال حاصل کرنے کے لئے دو قسم کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ﴿۱﴾ علمی تدابیر ﴿۲﴾ عملی تدابیر۔ اور یہ بات طے ہے کہ علمی تدبیر، عملی تدبیر سے مقدم اور اعلیٰ ہے کیوں کہ جب تک علم نہ ہو تو عمل کیسے ہوگا؟ چنانچہ اسی طرح انسان کو دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کے لئے ان دونوں علمی و عملی تدابیر کی ضرورت پیش آتی ہے اور پھر علمی تدبیر، عملی سے افضل ہے اور علمی تدابیر میں سب سے اعلیٰ تدبیر اپنے خالق و مالک اور معبود کی توحید اور صحیح معرفت ہے اس لئے توحید کی اہمیت سب بڑھ کر ہے۔

تیسری وجہ
توحید سے انسان کی کامل توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجاتی ہے اور یہ توجہ دم بدم اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتی اور قوی ہوتی جاتی ہے چنانچہ بسا اوقات موحد انسان تمام غیر اللہ سے منقطع ہوکر خالص اللہ کی یاد میں مگن ہو جاتا ہے اسے دنیا کی کوئی خبر نہیں رہتی تو اس طرح اس کے اندر اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کے دیدار کی قوی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور وہ مقربین بارگاہ میں شمار ہوجاتا ہے گویا اس نے ایک مضبوط حلقہ ﴿کڑا﴾ تھام لیا ہے جو اسے نہ گرنے دیتا ہے اور نہ کسی کے آگے جھکنے دیتا ہے۔ سورۃ لقمان میں ارشاد فرمایا گیا:

جو شخص اپنا رخ اللہ کی طرف کرلے اور وہ مخلص بھی ہو تو اس نے بڑا ہی مضبوط حلقہ ﴿کڑا﴾ تھام لیا۔ ﴿سورۃ لقمان، آیت:۲۲﴾

چوتھی وجہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور ارشادات میں توحید کی اہمیت و عظمت پر خاص زور دیا گیا ہے اور اسے تمام نیکی کے کاموں میں ’’دل‘‘ کی حیثیت دی گئی، جس طرح جسم کی صحت اور بگاڑ کا مدار دل پر ہے، وہ سنورتا ہے تو تمام اعضائ سنور جاتے ہیں اور جب دل بگڑتا ہے تو تمام اعضائ کے اعمال بگڑ جاتے ہیں، اسی طرح نیکی کے کاموں کی قبولیت کا مدار توحید پر ہے اگر توحید اور ایمان درست ہے تو تمام نیک اعمال مقبول ہیں اور اگر توحید اور ایمان میں کھوٹ ہے تو ہر نیکی ضائع ہے، مثلاً ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا:

جس شخص کی موت اس حالت میں ہو کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ﴿مشکوٰۃ، حدیث:۶۲﴾

اور قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا گیا:و لقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک و لتکونن من الخاسرین بل اللّٰہ فاعبدوکن من الشاکرین ﴿الزمر:25,26﴾

حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’اور حکم ہوچکا ہے تجھ کو، اور تجھ سے اگلوں کو۔اگر تو نے شریک مانا، اکارت﴿ضائع﴾ جاویں گے تیرے کئے اور تو ہووے گا ٹوٹے ﴿نقصان﴾میں آیا۔ نہ !بلکہ اللہ ہی کو پوج اور ﴿شامل﴾ رہ حق ماننے والوں میں‘‘﴿موضح قرآن﴾
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 340165 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.