ہوئے تم دوست جس کے

ہمارے حکمرانوں کی جانب سے امریکی اہلکاروں کو پاکستان کے اعلٰی ترین سول اعزازات سے نوازنے کے عمل کو پاکستانی عوام نے انتہائی افسوسناک قراردیا تھا۔ حکمران جماعت اور اس کے کارندوں کے علاوہ شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جس نے اس عمل کو درست قراردیا ہو۔ ڈپلومیسی کے اور بھی طریقے ہیں جن کے ذریعے سفارتی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے مفادات کے صریحاً خلاف کام کرنے والے ان لوگوں کو اعزازات کا دیا جانا یقیناً قومی جرم ہے۔ اس ناپسندیدہ فعل کے خلاف ایک مؤثر آواز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے سامنے آئی تھی جب انہوں نے احتجاجاً اپنا اعزاز واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکی دوستی کے زعم میں ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فرمایا کہ سابق آمر پرویز مشرف کی وردی اتروانے کا کریڈٹ کسی بھی سیاسی جماعت کو لینے کا حق نہیں، بلکہ یہ کارنامہ تو موصوف جوزف بائیڈن نے انجام دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کے لیے امریکی امداد منظور کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وزیراعظم کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ شدید ردعمل کے بعد محترم وزیراعظم کو نہ صرف یہ بیان بدلنا پڑا بلکہ یہ بھی کہنا پڑا کہ پرویز مشرف کی وردی سیاسی جماعتوں کی کاوش سے اتری تھی۔

اس وضاحت کے بعد بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن حکمراں جماعت کی "ہلال پاکستان ڈپلومیسی" کس قدر کمزور اور بودی تھی اس کا اندازہ خود انہیں گزشتہ روز جوزف بائیڈن کی طرف سے دیئے جانے والے ایک انٹرویو سے ہوگیا ہوگا۔ اس انٹرویو میں ہلال پاکستان یافتہ، پاکستان کے مبینہ دوست اور خیرخواہ جوزف بائیڈن نے اعلان فرمایا ہے کہ مستقبل میں بھی پاکستان پر ڈرون اور میزائل حملے بدستور جاری رہیں گے۔ عوام اور دانشوروں کے لیے یہ بیان زیادہ چونکا دینے والا نہیں ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس قسم کے خیالات اور ارادوں کا اظہار اوباما اور ان کے حواری الیکشن مہم کے دوران بارہا کرتے رہے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد لوگ دوست اور دشمن کی پہچان سے محروم کیوں ہوجاتے ہیں۔ وہ عوام اور قومی مفاد میں فیصلے کرنے سے گھبراتے کیوں ہیں۔ وہ کون سی انجانی قوتیں یا مجبوریاں ہیں جو انہیں مقبول فیصلے کرنے سے باز رکھتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک سیاستدان کو اقتدار نہ ملے تو عوام توقعات کی بنیاد پر انہیں عزیز رکھتے ہیں اور ان کی مقبولیت کا گراف بلند رہتا ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد الٹی گنتی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران کچھ نہ کرنے کی صورت میں مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا ہے۔ عوامی ردعمل میں اتنی طاقت ہے کہ وہ پرویز مشرف جیسے طاقتور حکمران کو بھی زمیں بوس ہونے پر مجبور کرسکتی ہے۔ کاش یہ بات سمجھ لی جائے اور عوامی اور قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا عمل شروع ہو۔

امریکہ میں "تبدیلی" کے بعد پاکستانی عوام سوچ رہے تھے کہ شاید پاکستانی حکومت ڈرون حملوں کے حوالے سے زیادہ مؤثر موقف اختیار کرے گی۔ لیکن ابھی تک ایسے آثار نظر نہیں آتے۔ اگر ڈرون حملے جاری رہے اور نئی امریکی انتظامیہ کو آغاز میں ہی ان حملوں کے منفی نتائج پر قائل نہ کیا جاسکا تو مستقبل میں صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت اور انتقامی جذبات قبائلیوں میں موجود غصے اور تشدد کی لہر کو مزید بڑھاسکتے ہیں۔ دوسری جانب ڈرون حملوں کی صورت میں دی جانے والی چھوٹ مزید تباہ کن ہوسکتی ہے، جس میں ایک آپشن امریکی فوج کا براہ راست پاکستانی علاقوں میں کاروائی کرنا بھی شامل ہے۔
Zahid Sharjeel
About the Author: Zahid Sharjeel Read More Articles by Zahid Sharjeel: 5 Articles with 37118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.