حقوقِ نسواں کے علمبردار کہاں ہیں؟

ہمارے ملک پاکستان میں اور مغربی مما لک میں حقوق نسواں کی نام نہاد تنظیمیں اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں عورتوں کی حق تلفی، عورتوں پر تشدد، اور ظلم کا جھوٹا پروپگینڈا کر کے اس کی آڑ میں اسلام کی تعلیمات، اور قرآنی حدود پر حملے کرتی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی مختصر عرصے کی حکومت میں ان نام نہاد حقوق نسواں کے علمبرداروں نے طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور آج تک ان پر عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کاالزام لگایا جاتا ہے۔ جب کہ درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں تھی طالبان نے کبھی بھی خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیا تھا اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو برطانوی خاتون صحافی یوآن ریڈلے(اب مریم ریڈلے)طالبان کی قید سے رہا ہونے کے بعد اسلام قبول نہیں کرتی یہاں ہم سوات کی بات نہیں کریں گے اسلیے کہ سوات کی صورحال ابھی تک واضح نہیں ہے۔اور مبینہ طور پر وہاں امریکی اور بھارتی ایجنسیاں دہشت گردی میں ملوث ہیں

بات کسی اور طرف چلی گئی ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ مغربی ممالک عورتوں کو گمراہ کرنے کے لیے نام نہاد حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں اور اس کام کے لیے کروڑوں روپے کا فنڈ خرچ کرتی ہیں۔اور اسکی آڑ میں اسلام کی تعلیمات کو نشانہ بنایا جاتا ہے یہاں تک کہ دو سال قبل صدر پروز مشرف کی حکومت میں قومی اسمبلی سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی اور بدنام زمانہ حقوق نسواں بل منظور کیا گیا تھا

لیکن خود ان کے اپنے معاشرہ میں خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اور وہاں کی عورت کس طرح ظلم کا شکار ہے اس کی جھلک دکھانے کی کوشش کریں گے۔اور پھر اندازہ ہوگا کہ مغربی تہذیب کے بظاہر روشن چہرے کا باطن کتنا تاریک ہے۔

برطانیہ جو کہ مغربی ممالک میں نسبتاً زیادہ روایت پرست، اور مہذب معاشرہ سمجھا جاتا ہے وہاں کی سو مقامی کونسلیں خواتین کو مدد فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔اور ان کونسلز کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ تمام کونسلز خواتین کو تشدد، زیادتی، اور گھریلو تشدد سے بچانے میں ناکام ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یورپ کا مہذب ملک بھی خواتین کو تشدد اور زیادتیوں کے حوالے سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔اسی طرح حال ہی میں ایک شرمناک اور رونگھٹے کھڑے کر دینے والی رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ہے اور اس کے مطابق اقوام متحدہ جو کہ ساری دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا محافظ ہے خود اس ادارے میں کام کرنے والی خواتین نے اپنے اعلیٰ افسران کے رویے کی شکایت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کو اپنے ساتھی افسران کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور اور اکثر واقعات میں زیادتی بھی کی گئی ہے۔اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کے دفاتر میں ہورہا ہے۔جو کہ ساری دنیا میں اس حوالے سے این جی اوز کو فنڈ فراہم کرتا ہے اور خود اس کے ذمہ داران کا رویہ اتنا گٹھیا اور شرمناک ہے۔

اور اب ذکر ہمارے سیاست دانوں اور این جی اوز کے منظور نظر، اور محبوب ملک امریکہ کا، امریکہ جو کہ تمام دنیا کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے اور بالخصوص حقوق نسواں کے نام پر مغربی تہذیب کی غلاظت وطن عزیز میں پھیلانے کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے شاید لوگ ابھی بھولے نہ ہونگے کہ جب مختار مائی کا معاملہ سامنے آیا تھا تو کس طرح امریکہ نے اس معاملے کو ہائی جیک کرلیا تھا اور امریکی کاسہ لیس این جی اوز نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا تھا اور اس واقعے کو بنیاد بنا کر اسلامی تعلیمات کو ہدف بنا کر باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی اور مختار مائی کو امریکہ کے دورے تک کرائے گئے اور وہ مظلوم خاتون لاعلمی اور سادگی کے باعث ان کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی تھی۔اسی امریکہ کی آرمی میں خدمات انجام دینے والی خواتین اہلکاروں نے مرد ساتھیوں کے نازیبا سلوک کی شکایت کی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکی فوج میں ملازم خواتین کو باقاعدہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ ان کے افسران ان کی عزت سے کھیلتے ہیں، اس عمل میں کرنل اور میجر تک کے رینک کے افسران کے ساتھ ساتھ اکیس سے ستائیس سال تک کے نوجوان سپاہی بھی شامل ہیں۔ان خواتین کے اعلیٰ افسران اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ان خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔

کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ تمام رپورٹس ہمارے ملک کی نام نہاد حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز تک نہیں جاتی ہونگی، یقیناً ان تمام رپورٹس ان این جی اوز کے ذمہ داران تک جاتی ہونگی۔ مگر یہ عجیب اتفاق ہے کہ اسلامی ممالک میں کسی بھی واقعے پر آسمان سر پر اٹھا لینے والی یہ این جی اوز یہاں بالکل خاموش ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے اردو میں ایک مثال ہے کہ منہ کھائے تو آنکھ لیجائے، کیا خیال ہے آپ کا ہم نے صحیح کہا ہے نا
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1456938 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More