تاریک راہوں میں تنویر صبح کا متلاشی

ظہوراحمددانش صاحب :یقین کرومیری تو کمر ٹوٹ گئی ہے ۔اب ۲۸سال میں 60سال کا بابا بن گیا ہوں ۔زندگی ہے کہ ضرورتوں میں روبوٹ بن گیاہوں ۔پیسے کمانے کی مشین۔کہاں گئے آپ کی و فلسفایانہ موشگافیاں بتاؤ میں آج طویل عرصے سے ملنے والے دوست کے اس رویے پر حیران مجسمہ حیرت بنے اسے تک رہا تھا۔مجھے وہ دن یاد آگئے کہ جب ہم کارساز نیوی کے اسکول کے پارک میں بیٹھے گپ ہانکا کرتے تھے، فکروں سے کئی سمندر پار،مزاح مسخری،کھیل کود۔
آہ!!!!!!!!!!!!!!!!میرے بچپن کے دن
آج بیٹھے بیٹھائے یاد آگئے آج

یہ شارق جسے ہم ممی ڈیڈی کہتے تھے۔بڑا نظافت پسند،حقوق نسواں کے لیے پیش پیش،دل تو گویا اس کا سربازار نیلام ہواچلاجاتا تھا۔صنفِ نازک کے ماہر نفسیات ہواکرتے تھے ۔سوچنے کی یہ بات ہے کہ حالات نے ایک مضبوط حواس والے انسان کو کس قدر بد حواس کردیا کہ مکارم اخلاق پڑھ پڑھ کر آج آتے ہی سلام دعاکیءے بغیر اپنا رونا رویا۔مفاد ات کا اتنا دھنی کے اپنا قصہ سنایا دوسرے کی دنیا میں کتنی تاریکیاں و مایوسیاں ہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔

آج ہم میں سے ہر ایک حالات کی خرابی، مہنگائی، بے راہ روی، ملکی سطح سے لے کر گھریلو سطح تک ہر جگہ پریشانی اور مسائل کا رونا رو رہا ہے.اور کوئی حکومت کو تو کوئی علماء کو، کوئی عوام کو تو کوئی امریکہ،یہودی وغیرہ کو اس کا سبب بتلاتا ہے.

لیکن ہم میں سے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ میری کیا ذمہ داریاں ہیں؟

کیا ہم میں سے ہر ایک پر حالات کی مناسبت سے الگ الگ ذمہ داریاں لاگو نہیں ہوتیں؟

کیا ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے ؟ ہم میں سے ہر ایک میں جتنی استعداد اور صلاحیت ہے کیا اس کے بقدر ہم میں سے ہر ایک کوشش کر رہا ہے ؟۔۔اس طرز میں کوئی نہیں سوچتا. کیونکہ اس طرح سوچنے سے کچھ کرنا پڑے گا. اور ہم کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں. ہم صرف دوسروں کے خلاف بول سکتے ہیں. دوسروں پر کیچڑ اچھال سکتے ہیں. زرداری، اوبامہ، اسرائیل، انڈیا وغیرہ پر ہر باتیں تھوپ کر کیا ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری کر لیں؟۔۔۔

ارے دوستو!!
سوچو تو سہی.
اگر میں اپنی ذمہ داریاں پور ی کر دوں. یعنی میری ذات کے مجھ پر کیا حقوق ہیں، میرے گھر والوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، دوست احباب کے جو حقوق ہیں میں ان سب حقوق کو پورا کر دوں تو سمجھیں یہ ایک بہت بڑا انقلاب ہے. انقلاب صرف خون بہانے،لڑائی کرنے، شور شرابہ کرنے، جلسے کرنے، نعرے لگانے کا نام نہیں.

خود کو بدلنا اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا سب سے بڑا انقلاب ہے. اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نفس سے جہاد کو جہاد اکبر کہا ہے.

میں کوئی ادیب نہیں ہوں. اور میں نے کوئی زیادہ مضامین بھی نہیں لکھے.

لیکن ذرا سوچیں ایساکیوں؟

کیوں کا کیا مطلب ہے ،ہر مسلئے پر ہم کیوں کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اور یہ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ۔۔۔۔یہ نہیں کرتے کہ اس کیوں کا حل تلاش کریں ۔۔ہر کام میں تنقید کرتے ہیں جو کہ سب سے آسان کام ہے ۔۔۔ایک فلسفی کا قول ہے ”جب آپ کسی پر انگلی اٹھا کر بات کرتے ہو تو کیا یہ غور نہیں کرتے کہ باقی چار انگلیاں آپکو خود گناہ گار کہہ رہی ہوتی ہیں“

ہم لوگ بھی یہی کام کر رہے ہیں کسی کے اچھے کام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنی خامیوں پر غور نہیں کرتے مگر اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں سسٹم اور معاشرے کو الزام دینے کی بجائے اپنے مسئلوں کا حل تلاش کرنا ہے ہمیں کچھ کر کے دکھانا ہے کچھ عمل کرنا ہے ہر کام کی ذمہ داری حکومت کی نہیں ہے ہم ہر کام میں امریکہ کی نقل کرتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ امریکہ کی حکومت بھی اتنے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرتی بلکہ لوگ خود عمل کرتے ہیں ہمارے ملک میں اکثر لوگ اپنی پوری زندگی گھروں کی صفائی میں صرف کر دیتے ہیں اور پوری زندگی ختم ہو جاتی ہے اس لئے ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ہم لوگ مسئلوں کو دباتے ہیں اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں بات بات پر لوگوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں ہم قرضوں پہ قرض لیتے جا رہے ہیں صرف ایک قسط کی ادائیگی کےلئے دوسرا قرض لیتے ہیں یہ سوچتے ہیں کہ اب تو قسط دے دیں بعد میں دوسرے قرضے کی قسط کے بارے میں سوچیں گے-

قومیں صرف حال نہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں بھی سوچتی ہیں مگر ہم ایسا نہیں کر رہے ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ‌آج تو گزر گیا تو مسئلہ دب گیا ہے مگر حقیقیت اسکے برعکس ہے قومیں ترقی کےلئے بہت زیادہ قربانیوں دیتی ہیں جب قومیں اپنے مسئلوں کے ھل کےلئے کوشش کرتی ہیں تو پھر ہر مسئلے کا حل آسان ہو جاتا ہے امریکہ دنیا کے دوسرے کونے میں رہتے ہوئے بھی دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے کبھی عراق پر پابندی،کبھی پاکستان پر ایسا کیوں!

یہاں تک کہ آپ اپنے ملک کی بنی چیز بھی خاص مقدار سے فروخت نہیں کر سکتے اس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں اگر ہم اپنے ملک کا حال دیکھیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم ترقی پزیر ہیں۔۔۔

مگر ترقی یافتہ ہونے کےلئے کوشش نہیں کرتے طالب علم صرف ڈگریوں کےلئے پڑھتے ہیں شعور اور بیداری صرف استاد کی رہنمائی سے حاصل ہو سکتی ہے اسی طرح جب تک ہمیں اچھا حاکم نہ ملے ہمارا نظام اسی طرح بگاڑ کا شکار رہے گا استاد سے مراد وہ شخص نہیں جو تعلیم دے بلکہ کوئی بھی شکص جو ہمیں اچھی بات کی طرف راہنمائی کرے وہ ہمارا استاد ہے اگر خاندانوں کی تربیت کرتا ہے تو اسی طرح وہ بھی استاد ہے اسی طرح اگر استاد اچھے تعلیم یافتہ اور بچوں کی مثبت سوچ پیدا کرنے والے ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ملک کترقی نہ کرے ہمیں اپنے کیوں کا حل تلاش کر کے ایک ایک مسئلوں کو دبانا نہیں بلکہ حل کرنا ہے ہمارے معاشرے میں لوگ کیوں اپنے رشتوں کا تقدس بھول چکے ہیں چھوٹے بڑے کی تمیز کیوں بھول گئے ہیں ایک دوسرے کےلئے پیار و محبت ،اخلاقیات ختم ہو کر رہ گئے ہیں ایک زمانہ تھا جب ہمارے بزرگ اپنے پوتے پوتیوں کو اپنے اردگرد بیٹھا کر اخلاقی درس دیتے تھے-

رشتوں کی پاسداری کرنا سکھاتے تھے اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے تھے ہمیں اچھت برے میں تمیز سکھاتے تھے ہمارے دلوں میں پیار و محبت کی شمعیں روشن کرتے تھے مگر لیکن یہی ہمارے پیارے ۔جن کے آنگن میں پیار کی لوریاں تھیں ،جن کی زبان ہمارے لیے اعتبار و اتباع کی پہاڑ تھی ۔آہ !آج وہی رشتے ہمارے لیے بے معنی و بے وقعت بنتے چلے جارہے ہیں ۔انھیں ہم ایدھی و دیگر فاؤونڈیشن و فلاحی اداروں کو سونپ کر بڑھاپے دہلیز پر امید کی ایک کرن اولاد اس کا بھی چراغ گل کردیتی ہیں ،اب حزن و ملال کی رفاقت میں زندگی کے دن بیتیں گئے۔

جو اپنے پوتے پوتیوں کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس جاتے ہیں اسی آس کو دل میں لئے اور اپنوں سے ملنے کی حسرتوں کو دل میں سموئے ہوئے اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں
آجکل عہد کے تہوار کی پھلجڑیاں کیوں نہیں جلتیں
چوڑیوں کی چھنک کیوں چھنکتی،
ہاتھوں کی مہندی نہیں مہکتی
رشتے داروں کی پرمسرت ہنسی نہیں نکلتی

پہلے عیدوں پر لوگ ایک دوسرے کے گھر جا کر عید مبارک کہا جاتا تھا۔ایک دوسرے کے گلے لگ کر شکوے دور کئے جاتے تھے۔اس طرح ایک دوسرے کےلئے پیار بڑھتا تھا۔۔

لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ گلے شکوے ختم ہو جاتے تھے۔۔۔ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے تھے
مگر آجکل ایسا بالکل نہیں آخر کیوں؟
کیوں؟آخر کیوں؟

آجکل لوگ اس قدر بیگانے بے حس ہو گئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ہم اپنے تہواروں کے پہلے اپنے روزمرہ کے اوقات میں اس مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنے اردگرد دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ ہمارے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔سائنسی تعمیر و ترقی نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے پہلے پہل و خط ا کتابت فاصلوں کو کم کرتی تھی اور اپنوں کو قریب تر کرتی تھی پردیس سے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر سے محبت و خلوص کی خوشبو محسوس ہو جایا کرتی تھی اور دیس سے لکھی گئی چھٹی سے پردیس میں بھی اپنے وطن کی مٹی کی تازگی دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے مگر اب کی فیکس اور ای میل نے یہ آخری سہارہ بھی چھین لیا ہے۔

دوستوں تحریر کا اختتام کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ہمارے بیچ میں یہ ایک لفظ کیوں پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ اس لفظ کو اپنے درمیان ختم کرنے سے گریزاں ہیں آخر کیوں؟۔۔دوستوں پاک نیٹ نام کا پاکستانیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم ملا جس میں رہتے ہوئے جہاں آپ ملک و قوم کےلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔

مگر انتہائی معذرت کے ساتھ کہ یہ فورم چند ناگریز وجوہات کے تحت اختلافات کی طرف جا رہا ہے آخر کیوں؟

کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم رنگ و نسل سے کنارہ کر لیں اور ایک سچے پاکستانی بن کر پاک نیٹ نام کے اس پلیٹ فارم سے اپنی کھوئی ہوئی شخصیت کو واپس لانے کےلئے اقدامات کریں کیا ہمراے لئے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہمارے مذہب اسلام سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جبکہ سب کا ماننا ہے کہ ہمارا خدا ایک،قرآن ایک،رسول ص ایک تو پھر ہم کیوں مسلمان ہونے کے باوجود ان اختلافات میں گھرے ہوئے ہیں کیوں ؟

آؤ اس کیوں کا حل نکالتے ہیں ۔پیار کے نءے دیپ روشن کرتے ہیں ،تاریک و سیاہ سپاٹ راہوں کو امن و امان کے قمقموں سے روشن کرتے ہیں ،بس پہلا قدم تو رکھیں ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544567 views i am scholar.serve the humainbeing... View More