کریڈٹ کارڈ ! (وبالِ جان یا جانِ جاں)
(Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui, )
ایک نجی ٹی وی سیریل میں آج کل
ایک ڈرامہ ” قدوسی صاحب کی بیوہ“ آن ائیر ہے اُس سیریل میں پرانے زمانے کی
زبان اور پرانے ہی زمانے کی حرکتیں جن میں پاندان وغیرہ کا استعمال بے حد
قابلِ توجہ ہے۔ اسی میں وہ بٹوہ بھی دکھایا جا رہا ہے جو اس صدی بلکہ یوں
کہہ لیں کہ اس زمانے میں ایسے بٹوﺅں کا استعمال کافی زیادہ ہوا کرتا تھا جس
میں بوڑھی عورتیں اپنے پیسے وغیرہ رکھا کرتی تھیں۔ اس بٹوہ کا Shapeکچھ اس
طرح کا ہوا کرتا تھاکہ اگر کوئی صاحبِ حیثیت ہے تو اس کے پاس تو نئے کپڑے
سے سِلا ہوا بٹوہ ہوتا تھا اور سونے پہ سہاگہ اس میں گوٹے کناریوں کا کام
بھی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ اوراگر کوئی غریب ہے تو پرانے کپڑوں
کو کاٹ کر اس کا بٹوہ بنا لیا جاتا تھا۔ پھر درزیوں کا زمانہ آیا اور آہستہ
آہستہ یہ نام بدل کر ٹیلر ماسٹر ہو گیا تو کئی طرح کی جیبیں بنانے کا فیشن
زور پکڑ گیا اور پھر کیا تھا بٹوے کی جگہ جیبوں نے لے لی۔ پھر کیا تھا صاحبِ
حیثیت تو ان جیبوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا رہے تھے کیونکہ ان کے پاس خطیر
رقم جیبوں میں رکھنے کیلئے دستیاب ہوتے تھے ۔ اب جبکہ جیبوں کی تعداد کافی
زیادہ ہو گئی ہے تو چمڑے کا پرس (Wallet)بھی جیبوں میں رکھا جانے لگا۔
چونکہ پرس میں سکّوں کا کوئی کام نہیں رہا تو پرس (Wallet)میں ڈالنے کیلئے
نوٹوں نے اپنی جگہ بنانی شروع کی جو کہ آج بھی جاری و ساری ہے۔پھر عموماً
نئے زمانے کے مطابق چونکہ چوریاں، ڈکیتیاں، چھنتائی (Snatching)کا رواج
کافی بڑھ گیا ہے تو دنیا بھر میں کاغذ اور ایک خاص قسم کے Leminationشیٹ کے
ساتھ ایک کارڈ تیار کیا گیا جسے ”کریڈٹ کارڈ “ کہا جانے لگا۔ یہ کارڈ ہمارے
ملک میں مختلف بینکوں کے ذریعے ان افراد کو دیا جانے لگا یا ان افراد کیلئے
بنائے جانے کا کام شروع کیا گیا جن پر مالیاتی اداروں کا اطمینان ہو کہ یہ
حضرات وقتِ مقررہ پر کریڈٹ کارڈ کا بل اور لیٹ ہونے پر بمعہ سود کی رقم ادا
کر دیں گے۔
اکیسویں صدی کی اس تیز رفتار گذرتی ہوئی زندگانی میں کس کے پاس اتنا وقت
دستیاب ہے کہ وہ کسی شاپ پر یا ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر یا پھر پیٹرول پمپ پر
کھڑے ہوکر نوٹوں کا پرس نکالے اور اسے خرچ کرنے کا سوچے( کیونکہ چھنتائی (Snatching)کا
ڈر ہمہ وقت رُخِ آدمیت پر سوار رہتا ہے۔ کسی بھی قسم کی شاپنگ کرنا ہو،
کوئی الیکٹرونکس کی اشیاءخریدنے کی ضرورت ہو، پیٹرول یا سی ۔این۔جی کا ٹینک
بھروانا مقصود ہو تو یہ کریڈٹ کارڈ آپ کا ہمسفر ہوگا۔ آج کا انسان کسی وقت
ایسا محسوس کرتا ہوگا کہ شاید وہ اپنی ہی سانس لینا کچھ لمحے کیلئے بھول
جائے مگر گھر سے نکلتے وقت اپنا کریڈٹ کارڈ نہیں بھولتا۔آج کا انسان تو
ویسے ہی بہت بے صبر نظر آتا ہے اگر ایک کارڈ بن گیا ہے تو اس پر قناعت نہیں
کرتا بلکہ مختلف بینکوں کا کریڈٹ کارڈ (Wallet)میں رکھنا اپنی شان سمجھتا
ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی بنسبت ہمارے پاک وطن میں ایک محتاط اندازے کے
مطابق صرف 5%فیصد طبقہ ہی اس سہولت کا بھرپور استعمال کرتا ہے۔
آج کل یہ کارڈوں کا سلسلہ کافی دراز ہو رہا ہے امیر تو اس کا استعمال کرتے
ہی ہیں اب متوسط طبقہ کے افراد بھی اس کا استعمال کرنے میں کوئی پس و پیش
نہیں کرتے اور ان متوسط طبقوں کی دیکھا دیکھی مہنگائی کی چکی میں پِسا ہوا
بالکل غریب بھی اس کے خواب دیکھنے لگا ہے ۔ اور کیوں نہ دیکھے کارڈ کے
ذریعے اسے آسائشیں جو نظر آ رہی ہیں تو غریبوں کو بھی اپنی غریبی سے چِڑ
ہونے لگی ہے اور کیسے نہ ہو چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور سامانِ آسائش کی ضرورت
کسے نہیں ہوتی۔ آخر کب تک بسوں میں دھکّے کھاتے رہیں گے کیوں نہ ایک عدد
نئی کار ہی لیزنگ پر لے لی جائے۔ اور اسی طرح کی دوسری اشیاءبھی خرید کر
گھر میں بہم پہنچا دی جاتی ہے۔
جنابِ من! کریڈٹ کارڈ سے آپ نے تو اپنی پسندیدہ ترین چیزیں خرید لی ہیں۔ اب
آتے ہیں اس کی پیمنٹ کی طرف، ایک مخصوص ٹائم فریم کے بعد خریدی گئی اشیاء،
یا بھروائی گئی پیٹرول اور سی۔این۔جی ، کا بل آپ کے گھر کورئیر سروس کا
نمائندہ لے کر حاضر ہو جائے گا۔ اس میں مطلوبہ خرید کردہ رقم اور اس میں
شامل ہوگا، ایس ۔ایم۔ایس سروس چارجز، ایکسائز ڈیوٹی ، کور پریمئم اور نہ
جانے کیا کیا، اور پھر آپ کی نظر اس رقم پر ٹھہر جائے گی اور آپ پر سکتہ
طاری ہو جائے گا کیونکہ ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی بساط سے کہیں زیادہ خریداری
کر تو لی ہے مگر ادائیگی کی ایک مقررہ تاریخ تک آپ نے اس رقم کا کیش یا چیک
قریبی برانچ پر جمع کرانا ہے۔ اب چاہے آپ ادھار کریں یا اپنی جمع پونجی سے
ادا کریں اس بل کو ہر صورت میں ادا کرنا ہے ۔ کہیں خدا نا خواستہ آخری
تاریخ گذر گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کیونکہ اس پر جو سود کی رقم کا
اندارج ہوگا اس سے آپ پر صرف سکتہ ہی طاری نہیں ہوگا بلکہ آپ کو اپنی
سانسیں بھی رکتی ہوئی محسوس ہوگی۔ مرتا کیا نہ کرتا کہیں سے بھی انتظام کر
بل چُکتا کرنا کریڈٹ کارڈ ہولڈر کی اوّلین ذمہ داری جو ٹھہری۔
اس انوکھے کارڈ کے حوالے سے یہاں یہ ذکر کرنا اس کے صارفین کیلئے ضروری
سمجھتا ہوں ۔ وہ یہ کہ میرے ایک آفس کولیگ کو بھی کریڈٹ کارڈ بنوانے کا
جنون کی حد تک شوق تھا۔ ویسے تو وہ بہت نفیس اور شریف النفس انسان ہیں، پنج
وقتہ نمازی ہیں اور ہم سب گنہگاروں کو بھی وقتاً فوقتاً نماز قائم کرنے کی
درس دیتے رہتے ہیں۔ موصوف ریسلنگ دیکھنے کا بے حد شغف رکھتے ہیں۔ اور پان
کھانا ان کی کمزوری بھی ہے۔ بہرحال ذکر تو تھا کریڈٹ کارڈ کے حصول کا....تو
حضور ایک دن آفس میں ایک بینک کا کارندہ (نمائندہ) کسی ذرائع سے ان تک
پہنچنے میں کامیاب ہوگیااور ان کو کریڈٹ کارڈ کے حوالے سے خوب لُبھانے کی
کوشش کی اور بھائی صاحب کو اس نمائندے نے آخر کار زیر کر لیا۔ پھر کیا تھا
فارم بھروایا گیا، والدہ کے نام سے لیکر بینک کی اسٹیٹ منٹ تک تمام تفصیلات
کا حاصل کیا ، پے سلپ کی کاپی بھی بطور پُروف فارم کے ساتھ منسلک کیا گیا
اور یوں وہ 10سے 15دنوں کا کہہ کر چلا گیا کہ آپ کو کریڈٹ کارڈ مل جائے گا۔
مگر دیکھئے کہ شوقِ کریڈٹ کارڈ کا زوم کہاں جا کر ٹوٹا کہ ایک ماہ کا عرصہ
گذر گیا مگر کارڈ نہیں ملا مگر اسی دوران بینک کی طرف سے کریڈٹ کا رڈ کا بل
موصول ہوگیا جو تقریباً 2500/=کا تھا جس میں پروسیسنگ فیس اور پتہ نہیں کیا
کیا شامل تھا ۔ مطلوبہ بینک میں فون کیا گیا کہ بھائی یہ کیسی اندھیر نگری
ہے کہ کارڈ ہولڈر کو کارڈ موصول نہیں ہوا اور اس کا بل پہلے آگیا۔ بینک
والوں نے پہلے تو خوب ادھر اُدھر کیا کہ بل جمع کر دیں باقی باتیں بعد میں
دیکھیں گے مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا ، کافی تگ و دُو اور فون کالز کی پے
در پے کارگذاری کے بعد اب جاکر کارڈ کو Blockکر دیا گیا ہے۔ یہ روداد لکھنے
کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ صارف ان ہتھکنڈوں سے بھی ہوشیار رہے۔
کچھ ذکر اس کے حلال و حرام ہونے کا بھی ہو جائے۔ تو اس کے لیے ایک مفتی
صاحب کا ذکر کیے گئے چند الفاظ دہرائے دیتا ہوں ۔ ان کے ساتھ کئے گئے ایک
سوال اور اس کا جواب ہی درج کرنا کریڈٹ کارڈ کے زمرے میں کافی ہے۔یہ سوال و
جواب جو نیچے درج ہے اسے حوالہ ہی تصور کیا جائے۔
سوال: کیا کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے؟
جواب: کریڈٹ کارڈ کو بطور کارڈ استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسا استعمال
جائز نہیں جس میں ماہانہ، سالانہ یا کسی ٹرانزیکشن پر اضافی رقم دینی پڑے۔
کیونکہ وہ اضافی رقم مارک اب یعنی سود ہوگی اور سود لینا یا دینا اسلام میں
حرام ہے۔
اب تو اور بھی جدت ، کا زمانہ جسے ہم تیز رفتار زمانہ ہی کہیں گے کیونکہ اب
کریڈٹ کارڈ کی جگہ بلیک بیری نے لے لیا ہے۔ بلیک بیری 9900ایک ایسی
ٹیکنالوجی ہے جس نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کی وہ تفصیلات اس پر
انٹر کر لی جائیں پھر کسی بھی شاپ، سینٹر میں کریڈت کارڈ ریڈر کے ساتھ اسے
کریڈٹ کارڈ کے طور پر استعمال کرنا آسان ہو جائے گا اور آپ ادائیگی کے قابل
بھی ہونگے۔ اس اسمارٹ فون کو (Wallet)میں تبدیل کرنا بلیک بیری کی کئی نئی
صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت ہے۔ ایجادات تو ایسے ہو رہا ہے کہ تھمنے کا نام
ہی نہیں ہے۔ اس دوڑ میں اور بہت سے ادارے بھی اپنے آپ کو منوانے میں مگن
نظر آتے ہیں۔ گوگل انٹرنیٹ کمپنی نے بھی اب تو یہ فخریہ اعلان کر دیا ہے کہ
وہ گوگل (Wallet)متعارف کرانے والی ہے۔ بلیک بیری کے ٹچ اسکرین فون اس کے
سسٹم کے ذریعے عمل در آمد کو یقینی بنائیں گے۔
یہ تو تھی رُودادِ کریڈٹ کارڈ ، اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ نے اسے وبالِ
جان سمجھا ہے یا جانِ جاں۔ |
|