حق گوئی و بے باکی۔۔۔۔
(Professor Akbar Hussain Hashmi, Rawalpindi)
ایک دور تھا جب روزناموں کی
تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی اور لوگ اخبارات اس ذوق سے اخبارات کا
مطالعہ کرتے تھے کہ شائید ہی کوئی لفظ پڑھنے سے رہ جاتا ہو۔ اخباری صنعت نے
زور پکڑا۔ اب تو اخبارات کا خاندان بہت پھیل گیا ہے۔ لیکن پاکستان کے طول و
عرض میں دونام چلتے ہیں ایک کو عوام الناس اشتہاری و سرکاری کے نام سے
پہچانتے ہیں جبکہ دوسرے کو اسلامی نظریاتی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اول
الذکر کا نام میں نہیں لوں گا قارئین جانتے ہیں لیکن اسلامی نظریاتی اخبار
وہ ہے جو پاکستان کی شناخت ہے،پاکستان کے نظرئیے کا مبلغ ہے اور وہ ہے
نوائے وقت۔ قارئین جانتے ہیں کہ آئے دن نئے اخبارات منظر عام پر آتے ہیں
اور وسعت اشاعت کے مختلف حربے استعمال کیئے جاتے ہیں مثلا روپے دو روپے
قیمت رکھی جاتی ہے تاکہ سستا جان کر ہر کوئی لے اور زیادہ قیمت والے
اخبارات کی جگہ انکی فروخت میں اضافہ ہو۔ لیکن اخبار بینی بھی انسانی مزاج
سے متعلق ہے۔ بعض نے بلیک میلنگ کی، سنسی خیز اور من گھڑت خبریں شائع کیں،
سنسنی پھیلائی، برائیوں اور جرائم کی خبروں کو شہ سرخیوں سے شائع کر کے
صحافت کے مقاصد کو مسخ کیا۔ لیکن اس ظلمت خیز ماحول میں نوائے وقت آفتاب
صحافت بن کر چمکا۔ یہ اس روز طلوع ہوا جس روز منشی تقدیر کا قلم قرارداد
پاکستان لکھوارہا تھا۔ یعنی 23 مارچ 1940 کو جب اقبال پارک لاہور میں
اسلامیان ہند دلوں کو عشق رسول اور اللہ کی توحید سے سجائے عزم و استقلال
کے پیکر بن کر قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی آواز پر لبیک
کہتے ہوئے جمع تھے۔ اذان آزادی کو ہند کے گوشے گوشے تک پہنچانے کا عزم لے
کرعبدالحمید نظامی رحمة اللہ علیہ نے نوائے وقت جاری کرکے طبل آزادی بجا
دیا۔اور یوں فیض نظامی کے چشمے نے تحریک پاکستان میں اپنا روشن کردا ر ادا
کرنا شروع کیا۔ 14 اگست 1947 تک تو قیام پاکستان کی تحریک تھی جس نے بعد
میں استحکام پاکستان کا روپ دھار لیا۔یہ مشن اب تک جاری ہے۔ محترم حمید
نظامی نے خلد بریں میں دخول تک استحکام پاکستان کی راہیں متعین فرمائیں۔
انکے اولین مقاصد میں جو امور نمایا ں نظر آتے ہیں ۔ وہ ہیں پاکستان کو
عملی طور پر اسلامی نظریاتی مملکت بنانے کی جدوجہد۔مقاصد زیست کی تکمیل کے
لیئے صاحبان نظر مادی زوال و کمال سے بے نیاز ہوکر بھر پور جد وجہد کرتے
ہیں۔ اور یہی کچھ بانی نوائے وقت نے کیا۔ خلوص اور ارادے کی پختگی رنگ لاتی
ہے کہ بانی کے وصال کے بعد جس صاحب نظر نے اس قلمی تحریک استحکام پاکستان
میں جان ڈالی اور پرخطر راہوں کو اختیار کیا۔کیونکہ کہ سچائی کے راستے
پھولوں کی سیج نہیں ہوتے۔ ایک عقیدہ، ایک نظریہ، جوش اور ولولہ کہ پاکستان
پاکستان بن جائے، جان جائے پرواہ نہیں۔ اسکی آبیاری کے لیئے اللہ تعالٰی نے
خانوادہ نظامی کو ہمت و استقلال بخشا۔ اس قلمی لشکر کے سالار اعلی جناب
عبدالحمید نظامی (حمید نظامی) اس پر خار میدان کارزارمیں اترے۔ اللہ نے
انشراح صدر فرمایا تولاتعداد محاذوں پر خامہ بکف نظریہ پاکستان کے دشمنوں
پر یورش کردی۔ قارئین جانتے ہیں کہ صاحبان اقتدار کے دماغ میں خناس کا اثر
غالب ہوتا ہے۔ اخبارات و جرائد کے لیئے مالی وسائل کا ہونا بھی ضروری ہے
اور جب صاحبان اقتدار نظریہ پاکستان کے خلاف گامزن ہوں ، اخبار انکی
رہنمائی کرے یا انکی سرزنش کرے تو انکا خناس انتقام میں بھڑک اٹھتا ہے ۔ اس
صور ت میں حق کی آواز کو خاموش کرنے کے دوطریقے استعمال کرتا ہے ، صاحبان
حق گو ئی کو پس زندان ڈالنا اور ادارے کو مالی مشکلات سے دوچار کرنے کے
لیئے سرکاری اشتہارات کی بندش۔ آفرین کہ نوائے وقت کے سالار نے ان ہتھکنڈوں
سے گھبرا کر اپنے نظریاتی مشن کو کمزور نہ ہونے دیا۔ ۔ پچاس سالہ شبانہ روز
محنت اور نظریہ کی لگن وہ سرمایہ حیات ہے جو شائید کہ آئیندہ کسی کو نصیب
ہو۔ اس وقت تو حق پرست صحافت کے سرخیل جناب حمید نظامی صدی کے نصف النہار
کے درخشاں آفتاب ہیں۔ ملک میں میں خلاف نظریہ پاکستان بک بک کرنے والے اس
دھرتی کا نمک کھاکر نمک حرامی کرتے ہیں تو نظامی درہ پڑتا ہے۔ میرا یہ کہنا
مبالغہ نہ ہوگا کہ اگر نظامی کی گرانی نہ ہوتی تو نظریہ پاکستان کے مخالفین
اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوجاتے۔ میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ نظریہ
پاکستان کے دیوانے صرف جناب مجید نظامی ہیں بلکہ انکی طرح کے اہل ایماظر ن
ملک کے طول و عرض میں کثیر تعداد میں ہیں۔نظریہ کی ترویج کے لیئے ذرائع
ابلاغ کا وجود انتہائی ضروری ہے۔ جس کے ذریعہ اہل فکرونظر اپنے خیالات
دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔ملک میں ایک طرف لا دینیت اور مغربی اخلاق باختہ
طوفان کا وجود ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا دوسری طرف دشمنان اسلام کی سوچی
سمجھی سازش کے تحت تحریک پاکستان کے محرک جذبہ توحید و رسالت اور قرآن و
سنت کے نظام کا نفاذ عوام کے دلوں سے نکالنے کی مذموم تحریکیں ہیں۔جیسا کہ
چند روز قبل ایک ٹی وی چینل (قت نہیں) نے ابوالکلام آزاد کی تقریروں کے
اقتباسات سنائے۔ اینکر کا زاویہ فکر و نظر کیا تھا۔وہ انہیں معلوم ہوگا۔
حکمرانوں کے کرتوتوں کو دیکھیں اور اس ملک اور قوم کی زبوں حالی کو دیکھیں
تو لگتا تھا کہ ابوالکلام کا کہنا درست تھا۔ لیکن عوام کے ساتھ اس یہ
ہمدردی ایک پرعظمت کارنامے اور قائدین تحریک پاکستان کی عمر بھر کی مخلصانہ
جدوجہد کو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ثابت کرنے کی سازش ہے۔ ایک آدمی نے بہت
عمدہ گھر رہنے کے لیئے بنایااور اچانک ڈاکوﺅں اور لٹیروں نے وہاں قبضہ
کرلیا تو اس میں بنانے والے کا کیا قصور ہے؟اب یہ کہنا کہ وہ آدمی گھر
بناتا نہ یہ ڈاکو اس گھر میں قابض ہوتے۔ جب مشرقی پاکستان ہمارے کچھ
سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کی نااہلیت کی وجہ سے جدا ہوا تو ہندوﺅں نے
کہا کہ نظریہ پاکستان ختم ہوگیا۔مگر اس کاجواب اہل ایمان مسلسل دیتے آرہے
ہیں۔ نظریہ پاکستان کے نام سے ٹرسٹ جناب نظامی صاحب کی ملی سوچ کا نتیجہ ہے۔
جب ملک کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ ہوتو جناب نظامی بلاتاخیر سیمینار منعقد
کرکے صاحبان فکرو نظر کو مدعو کرکے دشمنان نظریہ پاکستان پر کاری ضرب لگا
دیتے ہیں۔ ابھی وہ اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہوتے ہیں کہ تازہ تریں تازیانے
پڑتے ہیں۔ اب زرداری کو اپنے پیارے آباواجداد کی یاد ستا رہی ہے انکی جہنم
رسید روحوں کو پیغام محبت و بھائی چارہ دینے کے لیئے واہگہ بارڈر پر باب
تجارت کھول دیا اور دوسری جانب حساس اور خطرناک سرحد جو سیالکوٹ کے راستے
پاکستان کی شہ رگ ہے ، اسے بھی کھولنے کا کہدیا ہے۔ جب بھی ملکی سلامتی کو
خطرہ درپیش آتا ہے حمید نظامی کے اداریئے عوام کے ترجمان ہوتے ہیں۔ کشمیر
کا مسئلہ ہوتو نوائے وقت کے اداریئے، مضامین، اور خبریں کشمیر کی حیثیت کو
مسخ نہیں ہونے دیتے۔ جب دین نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ عشق رسول میں سرشار
نظامی خانوادہ مبلغ کی حثیت رکھتا ہے۔ عید میلاد النبی ﷺ اور دوسرے اہم
دینی ملی تہواروں پر اداریئے اور مضامین کی اشاعت تبلیغ دین کا فریضہ
اداکرتے ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت کے بارے جو خدمات جناب نظامی نے سرانجام دیں
وہ انکے لیئے توشہ آخرت ہے۔ گستاخان رسول کے بارے نہائت دیانتداری اور خلوص
کے ساتھ لکھا گیا۔ جبکہ دوسرے اخبارات و جرائد میں سے اکثر نے مصلحت کوشی
کی۔ ایک اخبار والے سے میں نے کہا کہ گستاخ رسول سلمان تاثیر کو جہنم رسید
کرنے والے غازی ممتاز حسین قادری کی خبروں کو آپ نظر انداز کیوں کرتے ہیں
تو انہوں نے کہا کہ اخبار بھی تو چلانا ہے کیونکہ اسی سے عملے کی دال روٹی
چلتی ہے۔ نوائے وقت نے غازی کے کارنامے کو اجاگر کرنے میں بھر پور کردار
ادا کیا۔ اسی طڑح ختم نبوت کے معاملے میں نوائے وقت کا ماضی درخشندہ ہے۔
اور آج بھی قادیانی مرزائی سراٹھاتے ہیں تو نوائے وقت انکے خلاف آواز حق
بلند کرتا ہے۔ اخلاقیات اور شرم وحیا کی تعلیم کا معلم ہے۔ چند باتیں جو
خاص طور پر میں نے محسوس کیں کہ نوائے وقت کے سرورق پر تمام کلاموں پر
برتری رکھنے والے کلام کا اردو مفہوم اس عقیدے کا مظہر ہے کہ ہم اللہ اور
اسکے کلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ بلاناغہ حضرت قائد اعظم کے فرامین اور حضرت
علامہ اقبال کے کلام کی اشاعت قوم کی اسلامی ذہنی تزئین و آرائش کے لیئے
لکھے جاتے ہیں۔ نظامی جانتے ہیں کہ اگر قوم نے ان دوقائدین کو یاد رکھا تو
آخر منزل پا لیں گے۔ میاں عبدالرشید مرحوم کے کالموں کی مسلسل اشاعت تبلیغ
دین کا فریضہ ادا کیا جارہا۔
تعلیمی اداروں کے درسی نصابوں میں قائدین تحریک پاکستان، حضرت قائد اعظم
اور حضرت اقبال کو کوئی مقام نہیں دیا جاتا۔ لیکن اقبال زندہ ہے قوم کونئی
زندگی اور بقا کا جذبہ اسکے کلام معجز نما کا کارنامہ ہے۔ پاکستان میں حضرت
علامہ اقبال کی تحریک خودی کا نقیب حمید نظامی ہے۔ یہ موضوع بحر بیکراں ہے۔
بس اتنا کہوں گا کہ اللہ تعالی اپنے پیارے رسول کریم ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے
تبلیغ دین کے اس ادارے اور اسکے سربراہ جناب حمید نظامی ، دیگر جملہ
متعلقین ادارہ کو دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اوراسی ایمانی
قوت سے کام کرنے کی تقوفیق عطا فرمائے آمین۔ |
|