نواز شریف کی سندھ میں پیش قدمی
(Usman Hassan Zai, Karachi)
پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ
ن سیاسی جنگ اب سندھ کے میدان میں لڑ رہی ہیں۔دونوں بڑی پارٹیوں کی سندھ
میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
میاں نواز شریف گزشتہ ہفتے رتو ڈیرو اور جیکب آباد کی تحصیل گڑھی خیرو میں
بڑے جلسے کرنے میںکامیاب رہے۔ ممتاز بھٹو نے اپنی جماعت سندھ نیشنل فرنٹ کو
ن لیگ میں ضم کرنے کا اعلان کیا جب کہ سابق وفاقی وزیر لیاقت جتوئی، غلام
علی بلیدی سمیت دیگر اہم شخصیات کی ن لیگ میں شمولیت نے پیپلزپارٹی کے لیے
خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ جس کے بعد پی پی نے مخالف مضبوط امیدواروں کی دیگر
جماعتوں میں شمولیت کا راستہ روکنے کے لیے سیاسی مخالفین، بااثر افراد،
وڈیروں، سرداروں، اور قبائلی شخصیات سے رابطے تیز کردیے ہیں۔ تاکہ آیندہ
انتخابات میں پیپلزپارٹی کی سندھ کی حد تک پوزیشن مستحکم ہوسکے۔
مسلم لیگ ن بھی سندھ میں پارٹی کو منظم کرنے اور پی پی پی کو ٹف ٹائم دینے
کے لیے کوششوں میں مصروف ہے، جلا وطنی کے بعد پہلی مرتبہ نواز شریف کی سندھ
میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر دکھائی دے رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے ہم نے عرض کیا
تھا کہ نواز لیگ پی پی کے خلاف سندھ کو میدان بنانا چاہتی ہے۔سندھ میں نواز
شریف کے جلسے ،ممتاز بھٹو جیسے زرداری دشمن، ماروی میمن و لیاقت جتوئی جیسی
مشرف باقیات کو ن لیگ میں شامل کرنا،ارباب غلام رحیم،عزیر بلوچ اور قوم
پرستوں سے رابطے اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ سندھ میں قدم جمانے کے لیے کسی
بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سندھ میں مضبوط ووٹ بینک بنانا ن لیگ کا دیرینہ خواب
ہے۔
ممتاز بھٹو کی ن لیگ میں شمولیت سے ن لیگ سندھ میں کسی حد تک مضبوط ہوگی
اور ظاہر ہے کہ اس سے دوسرے افراد کی بھی ن لیگ میں شمولیت کے لیے دروازہ
کھلے گا۔ اگر نواز لیگ مزیدچند مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنے ساتھ ملانے میں
کامیاب ہوگئی تو ن لیگ کے لیے سندھ میں ماحول سازگار ہوجائے گا۔
سندھ کی صوبائی وزیراطلاعات شازیہ مری نے کہا ہے کہ نواز شریف سندھ کے خلاف
سازش کررہے ہیں۔ پی پی رہنما کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب
نواز شریف سندھ کا کامیاب دورہ کرکے لوٹ چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
نواز لیگ کی سندھ میں حالیہ سرگرمیوں سے پی پی قیادت پریشان ہے اوروہ اس کے
سدِ باب کے لیے حکمتِ عملی وضع کررہی ہے جب کہ پیپلزپارٹی نے بھی نواز لیگ
کی پالیسیوں کے خلاف کموں شہید کے مقام پر ایک بڑا جلسہ کرکے جواب دے دیا
ہے۔ کموں شہید سندھ اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی حکومت
ہونے کے باوجود سڑکوں پر فیصلے کروانا چاہتی ہے۔ اس طرز کے جارحانہ رویے سے
محاذ آرائی بڑھے گی جس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ملکی حالات اس
بات کی اجازت نہیں دیتے کہ محاذ آرائی کو فروغ دیا جائے اور نہ ہی ملک اس
کا متحمل ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا یہ فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے، اسے دانش
مندی کے ساتھ ن لیگ کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا، لیکن جوابی جلسوں سے اپوزیشن
جماعتیں اور زیادہ مشتعل ہوں گی۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کو صبر و تحمل کے ساتھ
ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے ملک و قوم کی بھلائی ہو۔
پیپلزپارٹی نے بیک وقت عدلیہ اور اپوزیشن کے خلاف میدان لگا لیا ہے اور اس
کی جمہوریت کش پالیسیوں کے خلاف عوام میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔ ملک میں امن و
امان، مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف اقدامات کرنے کی بجائے نان ایشوز
پرتوانائیاںصرف کی جارہی ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیاں اقتدارکے لیے ایک دوسرے کے
خلاف برسرپیکار ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہ وہی سندھ ہے جسے باب الاسلام (اسلام کا دروازہ)
کا اعزاز ملا۔ یہ وہی سندھ ہے جہاں محمد بن قاسم نے اسلامی حکومت کی بنیاد
رکھی تھی۔ جہاں مسلمانوں کا حسنِ سلوک اور بھائی چارا دیکھ کر لاکھوں ہندو
مسلمان ہوگئے تھے اور جب محمد بن قاسم سندھ سے رخصت ہورہا تھا تو ہر آنکھ
اپنے عظیم لیڈر کی جدائی میں اشک بار تھی۔ آج وہی سندھ ہے ،وہی سر زمین ہے
جو خون مسلم سے سرخ ہے۔ جہاں حکمران اسلامی نظام کے لیے نہیں، صرف اور صرف
اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ آج سندھ کی سر
زمین پھر ایک محمد بن قاسم کی منتظر ہے۔ اس دھرتی کو اس امن و بھائی چارے
کی تلاش ہے جو ماضی کی یاد بن کر رہ گیا ہے اور جس کے لیے اب کوئی فکر مند
نہیں۔ |
|