THE VOICE OF QURAN
کسی بات کو غلط کہہ دینا نہایت آسان بلکہ آسان ترین کام ہے ۔لیکن اس غلط
کام کی درستگی ،اس کی اصلاح کی جانب پیش قدمی یہ کافی مشکل کام ہے ۔عام
زندگی میں یہ بازگشت سنائی دیتی ہے ۔یہ غلط ہے ،یہ کمزور ہے ،اس میں فنی
خرابی ہے ،اس میں فلاں اس میں فلاں ۔لیکن حل شاید ہی شاذ و نادر ہی تجویز
کرتا ہو۔یہ اعجازِ قران ہی ہے کہ مسائل ،مصائب اور ان کے محرکات کے ساتھ
ساتھ ان کے سدِ باب کی راہ بھی واضح کرتاہے ۔
دنیا میں جتنی بھی ترقی کے مدارج ہیں ان کے پیچھے علم ،تعلیم ،تعلم کا عنصر
غالب رہاہے ۔کیوں کہ جب تک امتیاز نہ ہوگا تو پھر پہچان کیسے ہوگی ۔پہلاکام
جہالت کو دور کیا جائے ۔برائیوں کا خاتمہ ہوتا چلا جائے گا۔اس ذریں پیغام
کو قران نے کس حسیں پیرائے میں بیان کیا ہے ۔
١۔ اپنے رب کے نام سے پڑھ
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(العلق٩٦:١)۔
یعنی the first one is educate
٢۔ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو علم سکھایا
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ(العلق٩٦:٥)۔
خالق ہر خشک و تر ،مالک بحر وبر رحمن و رحیم ربّ نے انسان کو علم سیکھانے
کا ارشاد فرمایا ہے ۔یعنی تعلیم و تعلم کا شعبہ ایک عظیم شعبہ ہے ۔
٣۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے علم سکھایا
وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا(البقرۃ٢:٣١)۔
٤۔ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ا کو قرآن سکھایا
اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ(الرحمن٥٥:١،٢)۔
٥۔ علمی مثالیں صرف علماء ہی سمجھتے ہیں۔
وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلاَّ الْعَالِمُوْنَ(عنکبوت٢٩:٤٣)۔
محترم قارئین!ذرا قران کے اسلو ب ،فکر اور نظریہ کو دیکھیں ۔کہ علم سمجھ ہے
،امتیاز و تمییز کا ایک فن ہے ۔اور جو اس فن سے بہرمند ہے وہی سہل و ثقیل
معاملات چہ جائے کہ گفتگو ہویا علم فکر مکالمہ و مناظرہ اہل علم ہی یہاں
میدان مارتے ہیں ۔
٦
۔ عالم اور جاہل برابرنہیں ہو سکتے
قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا
یَعْلَمُوْنَ(الزمر٣٩:٩)۔
اسلام زندہ باد اسلام پائندہ باد۔اعتدال اگر کسی کو سیکھنا ہے تو وہ
تعلیماتِ اسلام کا مطالعہ کرے ۔اب اس آیت میں دیکھیں کہ واضح کردیا ہے
۔ایجو کیٹڈاور نن ایجو کیٹڈ میں فرق ہے ۔آج جدید سائس ،ماہرینِ سماجیات
،احکام بالا،محکمہ انتظامی امو ر بلکہ یہی محشر بپا ہے ۔کسی ملک نے ترقی
کرنی ہے تو وہ تعلیم کے شعبہ پر اپنی توجہ مرکوز کردے ۔کامیابی اس کا مقدر
ہوگی ۔یہ تو بدیہی بات ہے کہ ایک جاہل بھلا ایک صاحبِ علم جیسا کیسا
ہوسکتاہے ۔اس کی بیٹھک ،اسکی گفتگو ،رہن سہن ،اندازِ زندگی یکسر مختلف
۔قران نے بھی اس اہم عنوان کو کس قدر لطیف پیرائے میں بیان کر دیا ہے ۔
٧۔علماء ہی اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۤؤُا(فاطر٣٥:٢٨)۔
٨۔ ہمارے نبی کریم ا معلم ِ انسانیت ہیں۔
دوستو!آپ کبھی زندگی میں دیکھیے گا جو شریعت کا علم جانتے ہیں ۔چہ جائے کہ
ان میں ایک تعداد علم سے عاری ،کاہلی و سستی کا شکار ہوتی ہے لیکن فکری
اعتبار سے بیدار ہوتے ہیں ۔وہ غلطی کو غلطی جانتے ہوئے حتی المقدور خائف و
نالاں اور ضمیر کی عدالت میں نادم رہتے ہیں ۔یہ وصف ان کے اندر علم کی
بدولت پیدا ہوا ۔یہاں قران بھی اسی پشیمانی کو بیان کررہاہے ۔کہ اہل علم
اپنے پیارے پیارے ،ستر ما ؤں سے زیادہ پیار کرنے والے ربّ سے اس کے عزت
وجلال کی وجہ سے اس سے ڈرتے ہیں ۔
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ
وَالْحِکْمَۃَ(آلِ عمران٣:١٦٤)۔
٩۔ محبوب کریم ا ہمارے لیے عملی نمونہ ہیں
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(احزاب٣٣:٢١)۔
١٠۔اﷲ تعالیٰ قلم اور تحریر کی قسم کھاتا ہے۔
نۤ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ(القلم٦٨:١۔٣)۔
محترم قارئین!میں تمام بہن بھائیوں سے مخاطب ہوں ۔آپ مجھے بتائیں ۔آج کے اس
پرفتن دور میں نت نئے فتنے ،قتل و غارت ،انسانیت سوز رویے الغرض جنگل کا
قانون دکھائی دیتاہے ۔حالانکہ ہر تیسرا شخص مدرسہ ہویا اسکول ،کالج ہویا
یونیورسٹی تعلیم حاصل کررہاہے ۔والدین وسائل نہ ہونے کے باوجود اولاد کو
تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں ۔لیکن معاشرے میں ،ملک میں تو اس روشنی کی کرنیں
ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہیں ۔وجہ کیا ہے ؟کبھی اس گھمبیر اور سنگین مسئلہ
پر غور کیا ؟میرا آپ سے یہ سوال ہے ۔جواب کا منتظر رہوں گا۔۔ضرور اپنی
ملفوظات سے نوازیے گا۔ |