دوسروں کے لئے وہ موسم بہار کی
ایک خوبصورت شام تھی۔ لیکن میرے لئے بہت ہی خوفناک شام تھی، جس کے کالے
گھنے بڑھتے ہوئے سایوں کو آج بھی سوچتا ہوں تو جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ
جاتی ہے۔ سب ہنسی خوشی اس پارک میں کھیل رہے تھے اور میں تنہا کھڑا رو رہا
تھا۔اپنے والدین سے بچھڑنے کا غم مجھے بے ساختہ رونے پر مجبور کر رہا تھا۔
ا س وقت میری عمر صرف چار سال کی تھی۔ اکثر لوگ مجھے روتا دیکھ کر میرے پاس
آتے اور میرے والدین کے بارے میں پوچھنے لگتے تو میں شاید ٹھیک سے بتا نہ
پاتا تو وہ مجھے روتا چھوڑ کر آگے چلے جاتے۔زندگی میں پہلی بار مجھے کسی
اپنے سے بچھڑنے کا دکھ اور درد محسوس ہوا۔ پہلی بار جانا کہ جیتے جی اپنوں
سے بچھڑنے کا غم کیا ہوتا ہے۔ قدرت کے دئیے اس عظیم سبق سے میں نے جانا کہ
اگر کوئی آپکی قیمتی ترین متاع چھین لے تو آپ کی زندگی بے معنی سی ہو کر رہ
جاتی ہے اور میں نے بھی اس شام اپنی قیمتی ترین متاع اپنے والدین کو کھو
دیا تھا۔ایک بچے کے لئے اس کے والدین سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی چیز عزیز
نہیں ہوتی۔ اس کے والدین ہی اسکا کُل اثاثہ ہوتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ اسلام آباد کے اس لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لگائے
گئے کیمپ میں موجود ۵ ماہ کی ’’بریرہ‘‘ کے حالات بھی میرے اس واقعہ سے
زیادہ مختلف نہیں۔ فرق ہے تو بس اتنا کہ میں اپنے والدین سے بچھڑ گیا تھا
اور ظالم لوگوں نے اس کے بابا کو اس سے چھین لیا تھا۔ فرق ہے تو بس اتنا کہ
مجھ پر بچھڑنے کی صرف ایک شام آئی تھی اور آج ’’ بریرہ ‘‘کو اپنے بابا سے
بچھڑے ۳ ماہ سے اوپر ہو گئے تھے۔ میں سوچنے لگا کہ مجھے تو ایک شام کے کالے
سیاہ سائے آج تک یاد ہیں نہ جانے اس ’’پھول سی بچی‘‘ کو اور کتنی سیاہ کالی
گھٹائیں ستائیں گی؟
’’ بریرہ‘‘ کے ساتھ والے کیمپ میں ۳ سالہ افنان بھی ہے وہ بھی اپنے بابا کے
انتظار میں روز صبح ہوتے ہی ’’پلے کارڈ‘‘ لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جس پر
لکھا ہے ’’خدا کے لئے مجھے میرے بابا واپس کر دو‘‘ بہت سی نظریں شاید اس کی
طرف اٹھتی ہوں۔لیکن انصاف کی آنکھیں جب اس طرف سے گزرتی ہوئی اسے نظر انداز
کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں تو وہ لگژری گاڑیوں کے سیاہ شیشوں کے اندر
بیٹھے کالے کوٹ پہنے انصاف مہیا کرنے والوں کو دیکھنے کی ناکام کوشش کرتا
رہتا ہے۔ اسکے سامنے روز وزیروں، مشیروں کی سینکڑوں گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن
سب گاڑیاں اس پر سوائے مٹی کی دھول پھینکنے کے اور کچھ نہیں کرتیں۔اس نے
اپنے بابا کی پیار اور مٹھاس بھری آواز کو تقریباً ڈیڑھ سال سے نہیں سنا،
اور اب نہ جانے اسے کتنا عرصہ مزید انتظار کرنا ہو گا۔ مجھے یہ سوچ کر ہی
جھرجھری سی آ گئی۔
فروری اور مارچ کے مہینے میں اس کیمپ کے لوگ کتنے پُر عزم تھے۔ اس کیمپ میں
موجود سینکڑوں اور ملک بھر کے ہزاروں مصیبت زدہ مظلوم خاندانوں نے امید یں
باندھ لیں تھیں، ۵ ماہ کی بریرہ اپنے بابا کو لینے سکھر سے سفر کرکے اسلام
آباد چلی آئی تھی لیکن آج 80دن گزرنے کے بعد وہ خالی ہاتھ تھی، سب اہل
اقتدار کے پاس اسے دینے کے لیے تسلیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس عرصے میں کھلے
آسمان تلے اس پر بادل بھی برسا .مری کی یخ بستہ ہوائیں بھی ۳ سالہ افنان کے
عزم کو نہ توڑ سکیں. اور پھر یوں ہوا کہ بریرہ اور افنان خالی ہاتھ واپس
لوٹ گئے ان کی امیدیں دم توڑ گئیں۔کالی سیاہ راتوں کا خوفناک سکوت ان کی
زندگیوں میں مزید بڑھ گیا۔وہ جہاں سے آئے تھے وہاں چلے گئے لیکن نفرتوں کا
سیلاب ساتھ لے گئے، انہیں انصاف سے نفرت ہوگئی، اور شاید انہیں اپنے آپ سے
بھی نفرت سی ہو گئی ہو گی کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ نہ جانے
وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے۔
پاکستان کی سینکڑوں ایجنسیز بیسیوں صوبائی وقومی وزارتیں اور سب سے بڑھ
کراعلٰی عدلیہ بھی بریرہ اور ان جیسے سینکڑوں معصوم بچوں کو ان کے بابا نہ
لوٹا سکیں . میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، دل بے چین ہو گیا، میں کرب میں
مبتلا ہو گیا کیونکہ میں نے آج سے بہت پہلے کھونے کا درد خود اپنے دل میں
محسوس کیا ہے، میں جانتا ہوں کہ ان مظلوم بچوں میں سے جب کسی کے سامنے کوئی
بچہ اپنے بابا کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا ہوگا تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہو
گی۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ جب ان معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے کوئی
بچہ اپنے بابا کا ہاتھ پکڑے سڑک پار کرتا ہو گا تو ان کی نظریں اپنے خالی
ہاتھ کی طرف جا کر خالی لوٹ آتی ہوں گی تو ان کے دل پرکیسا پہاڑ ٹوٹتا ہو
گا۔
چیف جسٹس صاحب! ان بچوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے آپ سے امیدیں
وابستہ کر لیں تھیں۔ یہ بچے یقین کر چلے تھے کہ ملک کا تیسرا سب سے بڑا
عہدیدار شاید ان کے دکھ، درد کو سمجھ سکتا ہے کیونکہ اس قوم کے ہزاروں
لوگوں نے آپ کیلئے قربانی دی تاکہ آپ مسند انصاف پر بیٹھ کر ملک کے مظلوم
طبقے کو انصاف مہیا کریں لیکن شاید کسی سے امید لگانا آج کے زمانے میں کسی
مظلوم بچے کی اس سیاہ کالی رات جیسا ہے جس کا سکوت تھپکی دے کر سونے پر
مجبور تو کرتا ہے مگر اس کا اندھیرا حواس پر خوفناک اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ ان
مظلوم بچوں میںسے ایک بچہ آپ سے گزارش کرتا ہے کہ زندگی میں ایک بار کبھی
اپنے سب سے چھوٹے بچے سے تنہائی میں سوال کیجیے گا کہ بیٹا ! اگر مجھے کوئی
آپ لوگوں سے چھین کر دور لے جائے اتنا دور کہ آپ مجھے دیکھ بھی نہ پاؤ تو
بتاؤ تم کیسا محسوس کرو گے؟؟ پھر آپ کا وہ بچہ جو جواب دے وہ ساری قوم کو
بتائیں۔ نہیں. آپ شاید اس بچے سے یہ سوال ہی نہ کر پائیں گے یہ سوچ کر کہ
نہ جانے یہ خوفناک سوال اس معصوم بچے کے ذہن پر کیسے برے اثرات پیدا کرے۔
کیا ان بوڑھے والدین کے بارے میں سوچ کر آپکی نیند اڑ جاتی ہے جن کے کڑیل
جوان بیٹے لاپتا کر دیے گئے ہوں؟ کیا کبھی سوچا کہ اْن بہنوں پر کیا گزرتی
ہوگی جن کے بھائیوں کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ وہ خواتین کس حال میں
ہوں گی جن کو یہی نہیں معلوم کہ ان کا سہاگ اجڑ گیا یا وہ ابھی سہاگن ہیں
اور شوہر کبھی نہ کبھی پلٹ کر آجائے گا۔کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کو دیکھ
کر ان بچوں کے بارے میں سوچا جو روز صبح یہ امید لے کر آنکھ کھولتے ہیں کہ
آج تو شفیق باپ کا چہرہ ضرور نظر آجائے گا۔ اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ
اپنی غم زدہ ماں سے کوئی سوال بھی نہیں کرتے، بس چپ چاپ دہلیز پر جاکر بیٹھ
جاتے ہیں کہ شاید ایک مانوس اور محبت بھرا چہرہ وقت کی دھول میں سے نمودار
ہوکر انہیں گود میں اٹھالے۔ کیا آپ جانتے ہیں. جن بچوں کے بابا ان کی نظروں
سے دور کر دیے گئے ہیں وہ کم عمری ہی میں اتنے سیانے ہوگئے ہیں کہ اپنی
ماؤں سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ بابا کہاں ہیں‘ کب آئیں گے۔ انہیں پتا ہے
کہ ان کی ماں ان سے چھپاکر اپنی آستین سے آنسو کیوں پونچھتی رہتی ہے۔
اسلام آباد میں تین ماہ سے زائد لگائے گئے اس کیمپ میں آج صرف پانی کی خالی
بوتلیں اور چند میلی چادریں پڑی ہوئی ہیں۔ یہاں کے عارضی مکین اٹھ کر چل
دئیے یہ کہتے ہوئے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو ایکشن کی اپیل ہم واپس
لے رہے ہیں۔ ان مشکل حالات میں اگر کسی کا سہارا ہے، اگر کسی کی امید ہے تو
صرف اس منصف اعلیٰ کی جس کی عدالت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ ہم اپنے
پیاروں کے لئے دعائیں کریں گے، انہیں صبح و شام اپنے رب سے مانگیں گے۔آج کے
بعد ہمیں بس اسی سے امید ہے، اسی پر یقین ہے کہ ہماری سیاہ راتوں کی خوفناک
گھٹائیں ختم کر دے۔ |