ہمارے ہاں بیروزگاری کی چکی میں
پسا ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے۔یہ پڑھے لکھے نوجوان لڑکے لڑکیوں کاایک بہت
بڑا طبقہ ہے جن کو اگر ان اداروں سے جن میں یہ کام کر رہے ہیں نکال کر باہر
لایا جائے تو ایک محنتی ،جفاکش،قابل ،تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ فوج کی
شکل اختیارکر جائے گا،جس کو اگر صحیح معنوں میں ملک و قوم کی ترقی میں ہاتھ
بٹانے کا موقع دیا جائے تو یقینا ان کا کردار قابل تحسین و آفریں ہو گا۔
جس طبقہ کی میں بات کر رہا ہوں اس سے میری مراد ”نجی تعلیمی اداروں میں
بطور ٹیچر“ کام کرنےوالے افراد ہیں۔معاشرے کا یہ طبقہ بہت سے پیچیدہ قسم کے
مسائل سے دوچار ہے ان مسائل کے بارے میں یقینا کسی نے ضرور آواز اٹھا ئی ہو
گی مگر مسائل جوں کے توں ہیں۔
(یہاں میری مراد وہ اعلٰی پائے کے اسکولز نہیں ہیں جو صرف امراءکے بچوں
کیلئے ہیں بلکہ یہاں عام پرائیویٹ سکولوں کی بات ہورہی ہے جن کی تعداد
لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہے)
اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو ایک پرائیویٹ سکول کا ٹیچر بھی وہی سلیبس
اتنی ہی محنت اور لگن سے بچوں کو تیا ر کرواتا ہے جو کہ ایک سرکاری سکول
ٹیچرکرواتا ہے۔بلکہ اگر زیادہ صاف گوئی سے کام لیا جائے تو اکثر و بیشتریہ
نجی تعلیمی ادارے باقی تمام سرکاری اداروں سے تعلیمی میدان میں سبقت لے
جاتے ہیں۔ہر سال بچوں کے شاندار رزلٹس اس چیز کے گواہ ہیں۔مگر ان اچھے اور
شاندار رزلٹس کا ذمے دار جو شخص ہے کیا اسے اس کا جائز حق مل جاتا ہے میرے
خیال سے نہیں۔۔۔۔
آپ کسی بھی عام پرائیویٹ سکول ٹیچر کی ماہانہ آمدنی پوچھ کر دیکھ لیں شرم
کے مارے وہ آپکو بتا نہ پائے گا۔جبکہ اس کے برعکس سرکاری سکول ٹیچرز کا
30،40بلکہ50،50ہزار ماہانہ تنخواہ پاکر بھی تنخواہوں میں اضافے کیلئے
احتجاج کرنا،تعلیمی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کرناسمجھ سے باہر ہے۔اگر ایک نجی
ادارے کا سکول ٹیچر بھی اپنی تنخواہ بڑھانا چاہے تو وہ کس کے آگے احتجاج
کرے؟؟؟
میرے خیال سے صاحب اقتدار لوگوں کو ملک کے اس بہت بڑے اور قابل طبقے کی طرف
نظر التفات ضرور کرنی چاہیے کیونکہ مہذب معاشرے قابل لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔
مسائل تو بہت سے ہیں مگر ان تما م مسائل میں سے اک اہم اور سنگین مسئلہ ان
سکول ٹیچرز کو سکول مالکان کی طرف سے پیش آتاہے۔ایک ایسا شخص جس کے پاس
روپیہ پیسہ ہے وہ ایک اچھی سے لوکیشن پر ایک اچھی سے بلڈنگ لیکر سکول بنا
لیتا ہے ۔کسی نہ کسی طرح سے وہ اس کو اپنے یا اپنے کسی عزیز کے نام پر
رجسٹرد بھی کروا لیتا ہے بس پھر بعد میں ”ستے ای خیراں نیں“ کوئی پوچھنے
والا نہیں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹیچر کو کلاس میں موجود بچوں کے سامنے
انسلٹ کرنا،اور اپنی شیخی بگاڑنا ان صاحبان کا معمول ہے اور وہ اپنی کسی
زیادتی کیلئے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔اچھی تنخواہ تو دور استاد کے
حصے کا جائز مقام اور عزت ومرتبہ بھی اسے نصیب نہیں۔
میرا یہ سوال ہے کہ سکولوں کو چلانے والے کسی قاعدے قانون کے پابند بھی
ہوتے ہیں یا نہیں۔کیاسکول کا لائسنس جاری کرتے وقت ان مالکان سے کوئی
اخلاقیات بارے سوال ہوتاہے یا نہیں؟
کئی ایک واقعات ہیں جنہیں بیان کرنا مناسب نہیں ۔لیکن یہ تو ایک کھلی حقیقت
ہے کہ ان سکول ٹیچرز کے ساتھ سکولوں کے ان نام نہادپرنسپل صاحبان کا رویہ
قابل مذمت بھی ہے اور قابل گرفت بھی۔ ایک اسی طرح کے ایک سکول ٹیچر کو
پرنسپل کے لاڈلے بیٹے کے طرف سے یہ کہہ کر نکال دیا گیاکہ ہاں ہم نے تم سے
زیادتی کی ہے جاﺅ کسی عدالت سے انصاف مانگو۔تو میراسوال اس پورے تعلیمی
نظام کے چلانے والوں سے یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی عدالت موجود ہے جو اس
بیچارے ٹیچر کو انصاف فراہم کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ |