انٹیلی جنٹ ایجوکیشن

New Page 2
انٹیلی جنٹ ایجوکیشن
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
عہد حاضر میں انٹیلی جنٹ کلاس روم طلبہ کی انفرادی ضرورت پوری کرتا نظام بن رہا ہے۔مصنوعی ذہانت نے اساتذہ کے سال ہا سال کے تدریسی تجربے کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب اساتذہ طلبہ کو ٹیبلٹ کے ذریعے مشقیں تفویض کرتے ہیں، جن کے جوابات فوری طور پر اسکرین پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔اے آئی اور بگ ڈیٹا کے تجزیے کی بدولت ہر طالب علم کی کمزوریوں کو شناخت کرنا ممکن ہو گیا ہے، جس کے بعد ان کی ضروریات کے مطابق تدریسی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یوں ،پہلے کے مقابلے میں یہ تدریسی نظام کہیں زیادہ موثر ہو چکا ہے ۔

انہی امور کی روشنی میں چین کی وزارتِ تعلیم کے آن لائن تعلیمی سروس پلیٹ فارم نے مصنوعی ذہانت اور کم ارتفاعی معیشت جیسے فوری ضرورت کے شعبوں پر توجہ مرکوز ہوئے کورسز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔اسمارٹ ایجوکیشن آف چائنا پلیٹ فارم نے کل 1,455 معیاری تعلیمی وسائل متعارف کروائے ہیں۔ان میں 33 عملی اور مانگ والے مضامین میں 138 فرسٹ کلاس یونیورسٹی سطح کے کورسز، نیز صنعت کی ضروریات کے مطابق بنائے گئے "مائیکرو میِجرز" (چھوٹے اور مہارت پر مبنی کورسز) کی بڑھتی ہوئی تعداد شامل ہے۔

مائیکرو میِجرز سے مراد یونیورسٹیوں کے ذریعے پیش کیے جانے والے چھوٹے، مخصوص اور بنیادی کورسز کے مجموعے ہیں، جو عام طور پر کسی مخصوص تعلیمی یا عملی شعبے پر مرکوز ہوتے ہیں۔ انہیں خاص اہمیت دیتے ہوئے، بین الشعبہ جاتی اور لچکدار بنایا گیا ہے، تاکہ طلبہ مکمل ڈگری پروگرام میں داخلہ لیے بغیر اضافی صلاحیتیں حاصل کر سکیں۔ اگرچہ کوئی ڈگری نہیں دی جاتی، لیکن طلبہ کو کورس ورک مکمل کرنے پر تکمیل کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔

سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جن صوبائی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبہ نے مائیکرو میِجرز کیے تھے، انہیں ملازمتوں میں کامیابی میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مائیکرو میِجر مکمل کرنے والے 80 فیصد سے زائد طلبہ نے بتایا کہ اس پروگرام نے انہیں اپنی عملی مہارتیں بہتر بنانے میں مدد دی اور گریجویشن کے بعد ملازمت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اے آئی اب صرف سائنس اور انجینئرنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ تمام شعبہ جات کے طلبہ کے لیے عام تعلیمی مضمون بن چکا ہے۔چینی ماہرین تعلیم کے خیال میں یونیورسٹی کی عام تعلیم میں اے آئی کا انضمام اس بات کی علامت ہے کہ یہ سیکھنے، تحقیق اور کام کرنے کے لیے ایک آفاقی ٹیکنالوجی بن چکی ہے۔ اے آئی کے استعمال میں مہارت حاصل کرنا اب ایک ایسی صلاحیت ہے جو ہر کسی کو سیکھنی چاہیے۔

2023 میں، چین کی وزارت تعلیم نے نئی ٹیکنالوجیز، ابھرتے ہوئے شعبوں اور نئے کاروباری طریقوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیے 2025 تک ابھرتے ہوئے تعلیمی شعبوں کو بہتر بنانے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔حالیہ حکومتی ورک رپورٹ میں بھی معیاری انڈرگریجویٹ تعلیم کو وسعت دینے اور عالمی معیار کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی شعبوں کی تیز رفتار ترقی پر زور دیا گیا ہے۔

اسی وژن کی روشنی میں، سنگھوا یونیورسٹی، ووہان یونیورسٹی، اور شنگھائی جیاؤ تونگ یونیورسٹی جیسی چین کی معروف یونیورسٹیوں نے بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اے آئی اور متعلقہ بین الشعبہ جات کے شعبوں میں داخلے بڑھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسے جیسے سائنسی، تکنیکی اور صنعتی ترقی کی نئی لہر تیز ہوتی جارہی ہے ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تعلیمی ترقی کے مستقبل کو تشکیل دینے میں تیزی سے اہم ہوتی جارہی ہے۔تاحال ، ڈیجیٹل تعلیم میں سرفہرست 62 ممالک میں سے 13 فیصد ڈیجیٹل تبدیلی کے ابتدائی مراحل میں ہیں، 68 فیصد اعلیٰ معیار کے وسائل کا اشتراک کرتے ہیں، اور 19 فیصد ڈیٹا پر مبنی، ذاتی تعلیم کی اعلیٰ سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

چین کی مخصوص ترقیاتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ملک میں اسمارٹ تعلیم کی ترقی میں چار اہم مراحل کی نشاندہی کی گئی ہےجن میں وسائل کا اشتراک، ڈیٹا پر مبنی طریقے، مصنوعی ذہانت انضمام، اور تعلیمی ماحولیاتی نظام کی تشکیل نو ، شامل ہیں.رپورٹ میں ڈیجیٹل تبدیلی کے حوالے سے چین کی پالیسیوں اور طریقوں کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے وسیع پیمانے پر اطلاق کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔چینی ماہرین یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی سے چلنے والی شاندار تعلیم اور انسان مشین ہائبرڈ تدریس اب ہماری روزمرہ زندگی کی ایک بڑی حقیقت بن جائے گی ، جس سے تعلیم کی یکساں معیاری ترقی کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا جا سکے گا۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1561 Articles with 839091 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More