خطاطی(calligraphy)ایک ایسا
نادرو نایاب فن ہے جو مسلمانوں کاایک عظیم ورثہ ہے زندگی کے مختلف شعبہ
ہائے زندگی کی طرح خطاطی میں بھی مسلمانوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دینے
میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی بلکہ یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ خطاطی کو
عروج مسلمانوں نے ہی دیا ابتدائے اسلام میں حضور ﷺ پر نازل ہونے والے
احکامات جوجبرئیل ؑ لاتے تھے اُن کو حضور ﷺ قلم کے ذریعے محفوظ کرلیتے تھے
اور اس دور میں خوش خط لکھنے والے صحابہ کرام ؓ کو زیادہ عزت و اکرام و خاص
مرتبہ حاصل تھا اور اسی دور میں حضرت امیرمعاویہ ؓ کو کاتب وحی کادرجہ
عطاہوا خلفائے راشدین نے خطاطی کی تعلیم کو ہر ایک کیلئے لازمی قراردیا ان
کے بعد امویوںاور عباسیوںنے بھی اس فن کے فروغ کیلئے بے انتہا کوششیں کیں
712ءمیں راجہ داہر کی قید میں موجود ایک مسلمان بیٹی ناہید کی اپنے خون سے
لکھی گئی پکارپر لبیک کہتے ہوئے جب نوجوان مجاہد محمدبن قاسم ؒ برصغیر آیا
تو اپنے ساتھ یہ عظیم ثقافتی ورثہ بھی لایا اس طرح محمدبن قاسم کی آمد نے
برصغیر میں اسلام کی ضیاپاشیوں کے ساتھ ساتھ اس عظیم فن کو بھی خوب فروغ
دیاجس کا اندازہ ہمیں آج بھی برصغیر پاک و ہند میں موجود قدیم تاریخی
عمارتوں ،محلات اور مساجد اوراُن میں کی گئی بے مثل ونایاب خطاطی کودیکھ کر
بخوبی ہوسکتا ہے پاکستان میں فن خطاطی کو فروغ دینے میں عظیم خطاط صادقین
کا نمایاں کردار ہے جنہیں ان کی بہترین خطاطی اوراس حوالے سے اپنی خدمات کے
عوض حکومت نے تمغہ ءامتیاز،صدارتی ایوارڈ اور ستارہ امتیاز سے نوازااس کے
علاوہ انہوں نے دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا اور پاکستان کا نام
روشن کیا اس طرح وہ پاکستان بھر میں فن خطاطی کے حوالے سے ایک رول ماڈل بن
گئے اور بہت بڑا طبقہ فن خطاطی کی طرف مائل ہوا اور آج پاکستان کے بے شمار
خطاط اس فن کے حوالے سے اپنی خدمات سرانجام دے کر اس فن کو زندہ رکھے ہوئے
ہیں جن میں شاہ خالدگولڈمیڈلسٹ،موجدِ خطِ رعنا ابنِ کلیم احسن نظامی،راشد
سیال،عرفان احمد خان،خالد یوسفی،الٰہی بخش،حافظ محمدانجم ،مقصود علی لاشاری
،رانا ریاض احمداور محمدکاشف خان نمایاں ہیں۔ دیپالپور جو کہ ایک انتہائی
قدیم اور تاریخی شہر ہے اس کی سرزمین خطاطی کے حوالے سے بھی زرخیز رہی ہے
اور مختلف وقتوں میں یہاں اچھے خطاط پیدا ہوتے رہے ہیں جن میں حاجی محمد
عارف مرحوم اور حاجی محمداقبال صاحب نے اس حوالے سے دیپالپور میں ایک خاص
نام کمایا لیکن بدقسمتی سے اس فن کو منظم طریقے سے فروغ دینے اور نئی نسل
میں اس فن کو پروان چڑھانے کیلئے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں لیکن
مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب مجھے معلوم ہوا کہ دیپالپور میں انجمن فروغ
فن خطاطی کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کردیا گیا ہے اس سلسلے میں منعقدہ
پہلے اجلاس میں مجھے بھی مدعو کیا گیاجہاں دیپالپور کے نئے و پرانے خطاط جن
میں محترم حاجی محمداقبال،دیپالپور کے عظیم خطاط حاجی محمدعارف کے فرزند
جاوید عارف،شوکت علی،حافظ محمدیٰسین،ظفراقبال،سعیدسلطانی،محمدامین فریدی
نمایاں تھے کو ایک چھت تلے جمع اور اُن کے عزائم دیکھ کربہت مسرت ہوئی
خصوصاََ اس انجمن کے روح رواں عابدطاہرناز جوایک عرصے سے اس دن کیلئے
کوششیں کررہے تھے ان کی خوشی دیدنی تھی اجلاس میں شامل پچاس کے قریب
دیپالپور کے تمام خطاط اور پینٹرز نے یہ عہد کیا کہ وہ ابتدائی طور
پردیپالپور میں فن خطاطی کیلئے ہنگامی پروگرام تشکیل دیں گے اس کے بعد
آہستہ آہستہ اس کا دائرہ کاربتدریج بڑھادیں گے ہمارا مشن عظیم ہے اور ہم اس
کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کردیں گے ۔ اجلاس کی خاص بات حاجی محمداقبال
صاحب کانصیحت آموز خطاب تھا جنہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ
خطاطی روزی کمانے کیلئے نہ کریں وہ تو آپ کو ہر صورت مل کرہی رہے گی بلکہ
اس کو ایک عظیم مقصد اوراسلامی ثقافت کو زندہ رکھنے کی نیت سے کریں اس سے
آپ کو روزی بھی ملے گی اور اس فن کی ترویج میں بھی آپ کا حصہ پڑے گاجو کہ
وقت کی اہم ضرورت ہے اجلاس کے آخر میں انجمن کی کامیابی و ترقی کیلئے دعاکی
گئی ۔ |