آج میں نے جس موضوع کولیکرقلم
اُٹھائی ہے وہ ہے ”بے روزگاری کاحل ہنرمندی میں مضمر“۔آج کل ریاست جموں
وکشمیرکی عوام اورسرکارکوبے روزگاری کے مسئلہ نے خاصاپریشان
کررکھاہے۔بیسویں صدی کی آٹھویں اورنویں دہائی سے متعلق بڑوں سے سُناہے کہ
اُس وقت ہرکسی کوبغیرمشقت کے نوکری گھربیٹھے ہی مل جاتی تھی ۔اگرکوئی صحت
مند نوجوان پولیس یافوج کوکہیں مل جاتاتووہیں سے اُس کواپنے ساتھ شامل
کرلیاجاتا۔اوراگرکوئی پانچویںیااس سے زیادہ پڑھالکھامل جاتاتومحکمہ تعلیم
یامحکمہ مال میں بھرتی کرلیاجاتا۔پھرآہستہ آہستہ ریاستی نوجوانوں میں تعلیم
کے تئیں رجحان بڑھناشروع ہوااوردیکھتے ہی دیکھتے ریاست کے طول وعرض سے
طلباءکی بھاری تعدادسکولوں سے نکل کرکالجوں تک پہنچنے لگی اورپھرجامعات سے
ڈگریاں حاصل کرنے کے بعدانہیں ملازمت کے مواقعے ملنے لگے ۔نوجوانوں کے
تعلیم کے تئیں رجحان میں پیداہوئے اضافہ کا نتیجہ یہ نکلاکہ ریاست میں اعلیٰ
تعلیم یافتہ طلباءکی تعدادروز بروزبڑھنے لگی اورپھرعام سی ملازمت یعنی درجہ
چہارم کی اسامی کے لیے بھی ایم۔اے،بی۔ایڈ، نیٹ۔پی ایچ ڈی اورایم فل
اسنادیافتہ نوجوانوں کوقطاروں میں کھڑاہونے کی نوبت آگئی۔کہنے کامطلب صاف
ہے کہ جہاںبیسویں صدی کی آٹھویں یانویں دہائی میں ہرکسی کوسرکاری ملازم
ہونے کا موقعہ بہ آسانی مل جاتاتھاوہیں آج اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اوراعلیٰ
درجہ کی ڈگریاں واسنادرکھنے کے باوجودریاست کے نوجوانوں کوسرکاری نوکری
ملنامشکل نظرآرہی ہے۔پہلے جہاں ریاستی حکمران کہتے تھے کہ دسویں کرو،
بارہویں کروتوسرکاری ملازمت کاموقعہ ملے گاوہیں آج سیاسی لیڈران نے اعلیٰ
تعلیم یافتہ نوجوانوں کوعام سی ملازمت کےلئے قطاروں میںکھڑادیکھ کربے
روزگاری کے مسئلہ پرتشویش جتاناشروع کردی ہے اوریہ بیان جاری کرناشروع
کردیاکہ خودروزگاریونٹوں کوقائم کرواوراس کےلے سرکارمختلف سکیموں کے تحت
خودروزگاریونٹ قائم کرنے کےلئے قرضہ فراہم کرے گی ۔ریاستی سرکارکی جانب سے
نوجوانوں کی فلاح وبہبودکےلئے اورخصوصی طورپرخودروزگاریونٹوں کے قیام کےلئے
شروع کی گئی اسکیموں کافائدہ راقم کے اندازے کے مطابق بہت کم لوگوں کوپہنچ
رہاہے ۔میں اس بحث میں نہیں پڑناچاہتاکہ سرکاری سکیموں کافائدہ نوجوانوں تک
کیوں نہیں پہنچ پارہاہے بہرحال نوجوانوں کومیں یہ بتاناچاہتاہوں کہ ایک
جملہ کواچھی طرح سے ذہن نشین کرلوکہ ”بے روزگاری کاحل ہنری مندی میں
مضمر“ہے۔وہ کیسے؟، آخرہنرکس بلاکانام ہے؟یہ سوال توبہت سے ذہنوں میں
ہوگا۔میری نظرمیں ہنرکامطلب ہے کسی کام میں مہارت حاصل کرنا۔پینٹنگ بنانا،
اچھاکمپیوٹرچلانا، لوہارکاکام، اچھالکھنا، کھانے پینے کی چیزیں تیارکرنے،
مٹی کے کھلونے بنانے ، درزی کاکام جاننا، اچھاصحافی بننا،اچھاٹائپسٹ
ہوناودیگربے شمارایسے کام جنھیں انسان بطورپیشہ اپناکر
اپناکیئرئیربناسکتاہے اوریہی ہنرذریعہ معاش ہونے کے ساتھ ساتھ انسان
کومقبولیت کے دوام تک پہنچنے کابہترین ذریعہ بھی بن سکتاہے۔آج ہمارے سماج
میں بے شمارایسے نوجوان ہیں جن کے پاس تعلیمی قابلیت توہے لیکن پھربھی وہ
بے روزگارہیں۔ وہ کسی ہنرکوحاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔جس شخص کے پاس
اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنرہوگاتواُسے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے سے
کوئی نہیں روک پاتایعنی سونے پہ سہاگہ والی بات ہے۔
ایک ہنرجب انسان میں آجاتاہے تواُس میں مشکلات سے لڑنے کااعتمادآجاتاہے۔
کچھ لوگ ساری عمرڈگریوں کے حصول کی جدوجہدمیں رہتے ہیں لیکن اُنہیں ڈگری
حاصل کرنے کے بعدبھی ہنرنہ ہونے کے سبب خودکشی پرمجبورہوناپڑتاہے۔کم ہمت ،
کاہل اورمحنت سے دوربھاگنے والے بزدل کہلاتے ہیں اورجومحنت سے کام لیتے ہیں
اورہنرکواپنے اندرسمولیتے ہیں اُن میں بردباری ، خوداعتمادی اُن لوگوں کے
برعکس جومحنت سے دوربھاگتے ہیں سے زیادہ ہوتی ہے۔ہرنوجوان کوسمجھناچاہیئے
کہ اللہ تعالیٰ نے ہرکسی کوصلاحیتوں سے نوازاہے اوربیشترلوگوں میں یہ غلط
فہمی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔یہ ایک قسم کاڈرہوتاہے کہ میں کچھ نہیں
کرسکتا۔ اگرکوشش کرے تووہ بہت کچھ کرسکتاہے اورکئی مرتبہ توایسادیکھاگیاہے
کہ کچھ لوگ جوکچھ نہ کرنے کاڈرجواُن میں ہوتاہے کونکال کربڑے بڑے غیرمعمولی
کارنامے انجا م دے جاتے ہیں، اس لیے ہرنوجوان کوچاہیئے کہ وہ تعلیم کے ساتھ
ساتھ کسی ہنرکواپنائے اورہنرحاصل کرنے میں جوسختیاں آئیں اُن کوسختیاں
یازحمت نہ سمجھیں بلکہ ایک امتحان کے طورپرتسلیم کرے۔
اسی طرح ایک دفعہ کاواقعہ ہے کہ ایک لڑکے نے سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ
بجلی کاکام سیکھ لیا، جوبعدمیں اُس نے ملازمت نہ ملنے پرزندگی بھرکےلئے
بطورہنراستعمال کیااوراسی میں نام کمایا۔
بیٹاجب سکول سے لیٹ آتاتھاتوماں کہتی !
بیٹا تم روزانہ کالج سے لیٹ کیوں آتے ہو۔
ماں! میں کالج سے فارغ ہو کر بجلی کا کام سکھنے جاتا ہوں۔
ماں: تم یہ کیا فصول کام کر رہے ہو۔ ہم تم کو پڑھنے کے لیے تجھے کالج
بھیجتے ہیں اور تم کام سیکھ رہے ہو۔ کل سے تم صرف پڑھو گے کام نہیں سیکھو
گے۔
لیکن اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی سیکھنا جاری رکھا۔ وقت گزرتا گیا
اور وہ پڑھ کر فارغ ہوگیا۔اس نے ایم اے انگلش کیا ہوا تھا۔ اس کو امید تھی
کہ اس کو کوئی اچھی نوکری مل جائے گی۔وہ روز اپنی ڈگریاں لے کر کسی نہ کسی
دفتر جاتا رہتا۔لیکن اس کو کوئی کام نہیں ملا۔وہ بہت مایوس ہوا۔اور اس نے
آخر مجبور ہو کر بجلی کا کام شروع کر دیا۔اور اپنے گھر والوں کا کما کر
کھلانے پلانے لگا۔اور یہ سب کچھ ہنر سیکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔کیوں کہ اس
نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر بھی حاصل کیا ہوا تھا۔اس لیے وہ فاقہ کشی سے بچ
گیا لہذا ہم کو بھی چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر ضرور حاصل کریں۔ کیوں
کہ آج کل کے دور میں ہنر کے بغیر انسان کا زندگی بسر کرنا نا ممکن ہے۔ہنر
چاہے کیسا بھی کیوں نہ ہو۔ انسان کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ ہنر سے انسان
میں ایک خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ہنر سے انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ
ہوتا ہے۔اور وہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنتا ہے۔
کالم کے ابتدائی حصہ میں نے بات کی تھی ، ریاست جموں وکشمیرمیں ریاستی
سرکاراورنوجوانوں کےلئے بے روزگاردردسرجیسامسئلہ کی شکل میں اُبھرکرسامنے
آیاہے ۔ میں ذاتی رائے ہے کہ سرکارکوچاہیئے کہ جوسکیمیں نوجوانوں کی فلاح
وبہبوداورانہیں ہنرمندبنانے کےلئے شروع کی گئی ہیں اُنہیں زمینی سطح
پرلاگوکیاجائے۔نہ صرف سرکارکوبلکہ نوجوانوں کوبھی سمجھناچاہیئے کہ جب تک
ہنرمندریاست میں نہ ہوں گے تب بے روزگاری کامسئلہ حل نہیں ہوگا، ۔۔اوراس
جملہ پرغورکریں”بے روزگاری کاحل ہنرمندی میں مضمر“۔آخر میں میں اپنے تمام
دوستوں سے گزارش کروں گا کہ تعلیم کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور حاصل
کریںتاکہ ملکی وریاستی ترقی میں اپنارول اداکرنے کے قابل بناجاسکے۔ |