پہلا مسئلہ: کیااذان سے پہلے
صلوٰۃ و سلام پڑھنا شرک ہے ؟
اسکا حل پڑھیں:
جناب اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام پڑھنے کو شرک کہنا عجیب حماقت ہے کہ شرک کا
اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام سے کیا تعلق ۔ درود و سلام پڑھنے کا حکم تو خود
لاشریک لہ ذات نے دیا ہے تو کیا یہ شرک کا حکم دیا ہوگا۔
شرک کا معنی ہے کہ '' ذات و صفات میں کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرح ماننا ۔
یعنی واجب الوجود مستقل بالذات یا لائق عبادت سمجھنا ۔'' اس مفہوم کو سامنے
رکھتے ہوئے دیکھیں کہ درودوسلام پڑھنے والا فعل اور شرک میں کیا نسبت ہے ۔
درود پڑھنے والا تو اپنے منہ سے کہہ رہا ہے الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول
اللہ یعنی میں حضور پر نور ؐ پر اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے درود پڑھتا
ہوں ۔ معبود ہونے کی حیثیت سے نہیں۔ لہٰذا اس بات کو شرک کہنا صریح حہالت
اور حدیثِ رسول ؐ کی مخالفت ہے چنانچہ سرکار ؐ نے فرمایا واﷲ ما اخاف علیکم
ان تشرکوا بعدی ولکنی اخاف علیکم ان تنافسوا فیھا '' خدا کی قسم مجھے تم پر
اس کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ تم
دنیا میں پڑجاؤ گے۔'' ( بخاری جلد٢ ص ٩٥١ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امت
محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام شرک میں مبتلانہ ہوگی ۔ اب دیکھیں کہ
امت مسلمہ کی اکثریت درود و سلام پڑھنے والی ہے اگر یہ اس وجہ سے مشرک ہے
تو کیا یہ فرمانِ نبوی کی تکذیب نہیں ؟ یقینا ہے تو معلوم ہوا کہ شرک کا
فتوی لگانے والے ہی غلط ہیں۔
جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں بسند جید موجود ہے سرکار ؐ نے فرمایا ان مما
اخاف علیکم رجل قرء القراٰن حتی اذا رؤیت بہجتہ علیہ وکان رداء ہ الاسلام
اعتراہ الا ما شاء اﷲانسلخ منہ ونبذہ وراء ہ وسعی علی جارہ بالسیف ورماہ
بالشرک قال قلت یا نبی اﷲ ایھما اولی بالشرک المرمی او الرامی قال بل
الرامی ۔
'' بے شک مجھے تم پر ایسے آدمی کا خوف ہے جو قرآن پڑھے حتی کہ اسکی رونق اس
پر ظاہر ہوجائے ۔ اور اس کا اوڑھنا بچھونا اسلام ہوجائے ۔ جب تک اللہ چاہے
اسکی یہ حالت برقرار رکھے ۔ پھر اس سے یہ حالت چھن جائے اور وہ اسلام کو پس
پشت پھینک دے اور اپنے پڑوسی پر تلوار کھینچ لے اورشرک کے فتوے لگائے ۔
راوی نے عرض کی یارسول اللہ شرک کا فتوی لگانے والا شرک کے زیادہ قریب ہے
یا جس پر لگایا گیا ؟ حضور پر نور ؐ نے فرمایا '' شرک کا فتوی لگانے والا
'' ۔ (تفسیر ابن کثیر ج٢ ص ٢٧١ )
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ یہ شرک کا فتوی غلط و باطل ہے ۔ جبکہ درود و
سلام پڑھنا مستحسن و مستحب ہے قرآن کا فرمان ہے : '' ان اﷲ وملئکتہ یصلون
علی النبی یا ایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما '' [ سورۃ الاحزاب
اٰیۃ نمبر ٥٦ ] بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے
والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ [ ترجمہئ
کنزالایمان ]
یہ آیت مبارکہ مطلق ہے ۔ اس میں کوئی قید نہیں کہ اذان سے پہلے یا بعد درود
نہ بھیجو بلکہ جب بھی درود پڑھیں اس آیت پر عمل ہوجائے گا۔ اذان کے بعد
درود پڑھنے کا تو حدیث میں امر ہے چنانچہ مسلم شریف میںہے عن عبد اﷲابن
عمرو ابن العاص انہ سمع النبی ؐ یقول اذا سمعتم الموذن فقولوا مثل مایقول
ثم صلوا علی فانہ من صلی علی صلوٰۃ صلی اﷲ علیہ بھا عشرا ثم سلوا اﷲلی
الوسیلۃ فانھا منزلۃ فی الجنۃ لا تنبغی الا لعبد من عباد اﷲ وارجو ان اکون
انا وھو فمن سأل اﷲ لی الوسیلۃ حلت علیہ الشفاعۃ '' حضرت عبد اللہ بن عمرو
ابن العاص سے مروی ہے کہ آپ نے نبی کریم ؐ کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جب تم اذان
سنو تو جو موذن کہتا ہے تم بھی وہی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو اسلئے کہ جو
مجھ پر درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اس کے بدلے میں دس مرتبہ درود
بھیجتا ہے پھر میرے لئے وسیلہ مانگوں کہ وسیلہ جنت میں ایک مرتبہ ہے ۔ جو
اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک کو ملے گا۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی
ہوںجو اللہ سے میرے لئے وسیلہ مانگے اس پر میری شفاعت حلال ہے۔
( مسلم شریف جلد ١ص١٦٦ )
اذان کے وقت درود و سلام پڑھنا بزرگان دین کے کلام سے بھی ثابتہے چنانچہ
مطالع المسرا ت میں ہے ، عقب اجابۃ الموذن و عند الاقامۃ '' درود و سلام
پڑھنا مستحب ہے اذا ن کا جواب دینے کے بعد اور اقامت کے وقت '' ( مطالع
المسرات ص ٢٥ ) نیز شفا شریف میں ہے ومن مواطن الصلوۃ علیہ عند ذکرہ و سماع
اسمہ او کتابتہ او عند الاذان '' اور سرکار ؐ پر درود پڑھنے کی جگہوں میں
سے ہے آپ ؐ کے ذکر کے وقت اور آپ ؐ کا نام مبارک سننے کے وقت اور لکھنے کے
وقت اور اذان کے وقت '' ( شفاء شریف جلد ٢ ص ٥٢ )
آیت و حدیث و اقوال بزرگان دین سے اذان کے وقت درود و سلام پڑھنا ثابت
ہوگیا جو اس کے خلاف کا دعوی کرتا ہے اس پر دلیل دینا لازم ہے ۔
دوسرا مسئلہ۔: کیا نماز کے دوارن یعنی ستیں ادا کرنے کے بعد فرائض سے پہلے
صلوٰۃ و سلام یا دردو شریف پڑھنا گناہ ہے؟
اسکا حل پڑھیں:
نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا اور درود و سلام پڑھنا مستحب و مستحسن
ہے جبکہ کسی نمازی یا سونے والے یا قرآن کی تلاوت کرنے والے کو تکلیف نہ ہو
۔ اور یہ ذکر کرنا حدیث سے ثابت ہے چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں بخاری و مسلم کے
حوالے سے حدیث ہے عن ابن عباس قال کنت اعرف انقضاء صلٰوۃ النبی ؐ بالتکبیر
'' حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی فرمایا میں نبی
کریم ؐ کی نمازکا اختتام تکبیر سے پہچانتا تھا۔ '' قاضی عیاض علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں کہ بچپن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما مسجد میں نماز کے لئے نہیں
آتے بلکہ باہر ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے تھے تو نماز کے بعد اتنی
آواز سے سرکار ؐ تکبیر کہتے کہ باہر آواز جاتی متفق علیہ۔ ( مشکوٰۃ ص ٨٨ )
مسلم شریف میں ہے ، ان رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان
علی عھد النبی ؐ '' بے شک فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا نبی کریم
ؐ کے زمانے میں رائج تھا ۔ '' (مسلم جلد اول باب الذکر بعد الصلوٰۃ ) یہی
حدیث مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ٣ ص٣٩ پر بھی ہے اسی طرح مسلم شریف کے مذکورہ
باب میں ایک وظیفہ کے بارے میں حدیث ہے کان رسول اﷲ ؐ اذا سلم من صلوٰتہ
یقول بصوتہ الاعلی '' رسول اللہ ؐ جب نماز سے سلام پھیرتے تو بلند آواز سے
ذکر کرتے۔'' ( مسلم شریف )
دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی نے بھی اپنے فتاوی رشیدیہ ص ٢٥٢ دو
جگہ ذکر بالجہر کو جائز لکھا ہے لہٰذا حدیث و قول ِ مخالف سے اس کا جواز
ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ |