موجودہ زمانے میں جب ہم قرآن کی
انقلاب آفرینیوں کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتاہے۔کہ یہی
قرآن ٣٠ پاروں ،٧منزلوں،١١٤ سورتوں اور٦٦٦٦آیات والا کہ جس کی وجہ سے بادیہ
نشین جو خود راہ پر نہ تھے وہ سب کے پیشوا بن گئے۔ جو خود ظلمتوں میں تھے
اور وہ روشنی کے مینار بن گئے۔حرف نا آشنا معلم علم و حکمت بن گئے قبیلوں
کے حصار میں جکڑے ہوئے بین الاقوامی امت کے معمار بن گئے۔ جو خود گمراہ تھے
وہ ساری انسانیت کے راہنما بن گئے۔ جو آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے انہوں
نے دنیا کو امن وامان کا گہوارہ بنا دیا ۔جو شرک و کفر میں مبتلا تھے بے
گناہ بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے۔جو جوا کھیلتے تھے شراب نوشی کیا
کرتے تھے۔ وہ اس کتاب انقلاب کی وجہ سے سب سے مہذب اور شائستہ افراد بن گئے
انسانیت کے ہمدرد اور خیر خواہ بن گئے۔ جن کے ہاں کوئی قانون نہیں تھا
انہوں نے ساری دنیا کو قانون دیا معمولی آداب معاشرت سے ناواقف ایک عالمی
تہذیب کے بانی قرار پائے اتنا بڑا انقلاب سرچشمہ قرآن سے پھوٹا۔ورنہ کہاں
عربوں کی بدویتاور جاھلیت اور کہاں پیغام حکمت و ہدایت یہ سب فیض قرآن حکیم
تھا ۔حالانکہ اس وقت عرب میں کوئی کتاب دستیاب نہ تھی۔ یہ کتاب حکیم وہ بے
مثال کتاب ہے جوتحریف سے مبراء ہے۔ جو تمام کتب کا مجموعہ ہے ۔جو زبور کی
طرح مجموعہ مناجات بھی ہے۔ انجیل کی طرح ذخیرہ امثال بھی ہے۔اور تورات کی
طرح گنجینئہ شریعت بھی ہے۔ اس قرآن نے بے ہدایتوں کو ہدایت دی۔
جب کہیں دانشگاہ اور مکتب کا وجود نہ تھا الفاظ و حروف کی معمولی شد بد
رکھنے والے صرف دو درجن تھے لیکن جب رسول اللہ ؐ کی گود انور ان کی دانشگاہ
بنی اور قراآن حکیم ان کا نصاب تعلیم تو
جو خود نہ تھے راہ پر اوروں کے ھادی بن گئے
لیکن اب عالم اسلام میں ہزاروں کیا لاکھوں جامعات لاکھوں طلباء ،کروڑوں کتب،
نظم و تربیت کا جدید سائنسی سامان اور ابلاغ کے بہترین اور مؤثر ذرائع اس
سب کچھ کے باوجود
اندھیرا ہو رہا ہے بجلی کی روشنی میں
ظاہر ہے قصور قرآن کا نہیں ہمارا ہے کہ ہم نے اس کتاب لازوال کو کتاب ثواب
کے طور پر ہی لیا ہے ہم نے اسے صحیفئہ انقلاب کے طور پر نہیں دیکھا۔
قرآن حکیم کو جب تلک ـــ''صحیفئہ انقلاب ''کے طور پر جانا جاتا رھا تو لوگ
اپنی ذات سے لے کر پوری کائنات تک بے مثال انقلاب لے آئے ۔مگر جب سے ہم نے
اسے محض ''کتاب ثواب'' سمجھ لیا ۔تو سنہری جزدان ،نفیس طاقچے ،ریشمی غلاف
،پیدائش و تدفین کی رسوم میں اسکی تلاوت اور ہر تقریب کے آغاز میں دو چار
آیات کی قرات سے حصول برکت وثواب اس کا مصرف قرار دیا گیا۔ بلکہ میں اگر یہ
کہوںتو غلط نہ ہوگا۔ اب تو محافل و پروگرامزکا آغازرحمان کے نام سے ہوتا ہے
مگر درمیان میں شیطان کو راضی کیا جاتا ہے بہرحال رھا انقلاب تو انقلاب
معکوس مسلمانوں کی زندگی میں آگیا ہے۔یعنی ہر وہ برائی جو غیر قرآنی معاشرے
میں ہواکرتی تھی اب وہ قرآنی معاشرے میں موجود ہے ۔غیر قرآنی معاشرے والی
برائیاں اب قرآن کے ماننے والوں میں معاشرے کا مستقل شعار اور حصہ بن گئی
ہیں ۔
قرآن مجید فرقان حمید بلاشبہ کتاب ثواب ہے روحانی زندگی کی سرمستیاں اسکی
تلاوت اور قرات سے ہیں ۔مگر یہ صحیفئہ انقلاب بھی ہے ۔جس سے خود ھماری اور
پوری نسل انسانی کی تقدیر وابستہ ہے۔
لہذا ہمیں قرآنی تعلیمات پر غور کرنا ہوگا اس کے اسرار و رموز کو جاننا ہو
گا ہمیں قرآن کو صرف تقریبات اور گھر کی زینت کیلئے نہیں رکھنا چاہیئے بلکہ
اس میں موجود انقلاب افروز باتوں /قوانین کو جان کر اپنے اوپر لاگو کرنا
ہوگا۔تبھی ہم ترقی کی منازل طے کریں گے۔انشاء اللہ ہم جو دوسروں کے غلام بن
گئے ہیں (ہمارے اذہان ان کے قبضے میں ہیں)آزاد نہیں ہیں آزاد ہو جائیں گے۔
انشاء اللہ العزیز
اللہ ہمیں قرآن پڑھنے اسکو سمجھنے اور اسکے اسرار و رموز کو جاننے اور اسکی
تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے آمین ثم آمین۔ |