ویسے تو خیر عوام سال بھر قربانی
کے بکروں کی طرح حلال ہوتے ہی رہتے ہیں مگر سال میں ایک بار بھرپور جھٹکا
کرنے سے قبل اُنہیں پریشانی اور خدشات سے بچانے کا سرکاری اور نجی سطح پر
تھوڑا بہت اہتمام ضرور کیا جاتا ہے۔ اِس اہتمام کو عرفِ عام میں ”پری بجٹ
سیمنار“ کہا جاتا ہے! جس طرح کِسی پیارے کے مرنے کی خبر تھوڑی سی احتیاط سے
سُنائی جاتی ہے تاکہ دِل کو دھچکا نہ لگے بالکل اُسی طرح پری بجٹ سیمنارز
میں اُن اقدامات کی جھلک دِکھائی جاتی ہے جو بجٹ میں شامل ہونے والے ہوتے
ہیں! صنعت کار، سرمایہ کار اور تاجر اِن سیمنارز میں حکومت کو مشوروں سے
نوازتے ہیں اور حکام وضاحتیں پیش کرتے ہیں، حکومتی کارکردگی بیان کرتے ہیں۔
عوام اِن سیمنارز کی رپورٹس اخبارات میں پڑھ کر محظوظ ہوتے ہیں یعنی جس
مقصد کے لیے یہ سیمنارز ہوتے ہیں وہ بخوبی حاصل ہوتا ہے!
وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے گزشتہ دنوں فیڈریشن آف چیمبرز آف
کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام کراچی کے فیڈریشن ہاؤس میں پری بجٹ
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ایسے شاندار نکات بیان فرمائے ہیں کہ معاشی اُمور
سے متعلق ان کی ذہانت پر بے اختیار فِدا ہونے کو جی چاہتا ہے۔ کئی بڑے اور
بُنیادی مسائل کا موصوف نے ایک ہی جھٹکے میں جھٹکا کردیا۔ اپنے خطاب میں
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے فرمایا کہ ملک میں بجلی کا کوئی بحران نہیں۔ طلب کے
مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے، اصل مسئلہ سَستی بجلی کی
فراہمی یقینی بنانے کا ہے۔ وزیر خزانہ کی اِس بات سے ہمیں یاد آیا کہ راجہ
پرویز اشرف جب پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر تھے تو میڈیا سے گفتگو میں اکثر
بجلی کے بحران کی تشریح کچھ اِس انداز سے فرمایا کرتے تھے : ”میں آپ کو
بتاتا ہوں بجلی کا بحران کیوں ہے۔ جب طلب زیادہ ہوتی ہے اور اُس کے مطابق
بجلی پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو رسد گھٹ جاتی ہے اِس لیے بجلی کا بحران
پیدا ہوتا ہے!“ اِس قدر جامع تشریح ہی کا یہ کمال تھا کہ لوگ اُن کے روبرو
بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی تازہ ترین ڈیڈ لائن پوچھنا بھول کر وسوسوں میں گھر
جاتے تھے کہ طلب پر رسد کو برتری کِس طور دِلائی جاسکے گی! کچھ کچھ ایسی ہی
بات وزیر خزانہ نے کہی ہے۔ ہمیں اب تک اندازہ ہی نہ تھا کہ ملک میں بجلی کا
بحران کیوں ہے۔ بھلا ہو صنعت کاروں اور تاجروں کا جنہوں نے سیمنار کا
اہتمام کیا اور وزیر خزانہ نے اُس میں تقریر فرماکر ہمیں اصل مسئلے سے آگاہ
کردیا۔ اب تک ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ حکومت کے لیے اصل مسئلہ بجلی پیدا
کرنا نہیں، بلکہ سَستی فراہم کرنے کا ہے۔ یہ بھی وزیر موصوف کی عنایت ہے کہ
ہمیں صرف مسئلے سے آگاہ کیا، حل تجویز نہیں کیا۔ اگر وہ حل تجویز کردیتے تو
پھر ہم کیا کرتے؟ تھوڑا بہت کام ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ اِس میں فائدہ ہمارا
یعنی عوام ہے۔ اگر حکومت ہمارے کِسی مسئلے کا حل سوچے گی تو اپنے حساب سے
سوچے گی۔ اور جب وہ حل سامنے آئے گا تو عوام شکایت کریں گے کہ یہ بات رہ
گئی، وہ بات رہ گئی۔ اگر عوام خود سوچیں گے تو ہر پہلو پر نظر رکھیں گے اور
کہیں سے کوئی کسر رہنے نہیں دیں گے۔ عوام کا سوچنا معاملات کو بہتر بنانے
کی طرف پہلا قدم ہے۔ سوچنا ایک بڑی فنی مہارت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں
سوچنے کی تربیت دینے والے ادارے قائم ہیں جو فیس کی مد میں خطیر رقم وصول
کرکے کورس کراتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ حکومت ہمیں
سوچنا سِکھا رہی ہے اور اِس کے چارجز بھی نہیں لے رہی! ایسی حکومت اللہ
ہمارے دُشمنوں کو بھی عطا فرمائے!
یہ بھی ہماری حکومت کا احسان ہے کہ جب غم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو تھوڑی بہت
خوشی کسی نہ کسی بہانے ہماری جھولی ڈال دیتی ہے۔ وفاقی کابینہ کے بیشتر
ارکان کو شاید خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے بیانات دیں،
ایسے نکات بیان کریں جو لوگوں کے دِل کا بوجھ ہلکا کرنے میں معاون ثابت ہوں!
وزیر خزانہ نے پری بجٹ سیمنار کو لافٹر شو میں تبدیل کرکے ثابت کردیا کہ
حکومت عوام کو ریلیف دینے کے معاملے میں سنجیدہ ہے! دوسری حکومتیں بجٹ میں
ریلیف دیتی ہیں، ہمارے ہاں حکومت نے بجٹ سے قبل ہی ریلیف بانٹنے کا کام
شروع کردیا ہے!
وزیر خزانہ نے انتہائی حیرت زدہ کردینے والی حقیقت بیان فرمائی کہ حکومت کے
پاس لاگت سے کم پر بجلی پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں! اِس نُکتے کی وضاحت
حکومت سے تعلق رکھنے والی کوئی ذہین شخصیت ہی کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے مزید فرمایا کہ وہ بہت جلد ایسے اقدامات کریں گے کہ
ٹیکس نہ دینے والوں کے ہوش اُڑ جائیں گے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اِس جملے سے
ہم قہقہہ، بلکہ قہقہے کِس طرح کشید نہ کریں؟ وزیر خزانہ ٹیکس ادا نہ کرنے
والوں کے ہوش اُڑانے کی بات کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف خود حکومت اُڑن چُھو
ہونے کی کیفیت سے دوچار دِکھائی دے رہی ہے! ہوش اگر زیادہ نہ ہون تو اُنہیں
اُڑانے میں مزا نہیں آتا۔ حکومت نے چار برسوں کے دوران ٹیکس نہ دینے والوں
کو شاید یہی سوچ کر پورا موقع دیا کہ ہوش اچھی طرح جمع کرلیں تاکہ اُنہیں
اُڑانے میں مزا آجائے! ٹیکس دینے سے صاف انکار کرنے والوں کا تو حکومت کچھ
نہیں بگاڑ سکتی اِس لیے بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی کے
مِصداق ٹیکس دینے پر کمر بستہ افراد کی گوشمالی کے لیے کمر کس لی جائے! خون
پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیکر قومی خزانہ بھرنے والوں ہی کو طرح طرح سے
بہلانے پُھسلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر بجٹ کے نام پر سارا نزلہ اُن
پر گرادیا جاتا ہے۔ اِس عمل کو ہم ”مَرے کو مارے شاہ مدار“ بھی قرار دے
سکتے ہیں!
خصوصی کرم کے زُمرے میں فرمایا گیا کہ جو لوگ پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں اُن
سے مزید ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ سیدھی سی بات ہے۔ گنّے کے پُھوس سے رَس
نکالنے کی کوشش حماقت ہی کہلائے گی! ایک مُژدہ یہ بھی سُنایا گیا کہ امیروں
اور غریبوں سے یکساں ٹیکس لیا جائے گا۔ ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ امیروں
کی جیب بھی غریبوں کی طرح خالی کرالی جائے گی یا جس طرح امیروں سے برائے
نام وصولی ہو رہی ہے اُسی طرح غریبوں کو بھی بخش دیا جائے گا تاکہ وہ سُکون
کا سانس لے سکیں!
وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں ایک عظیم نکتہ یہ بھی بیان کیا کہ عوام کو ہر
مہنگی چیز کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ جب کِسی صحافی نے مہنگائی
کے حوالے سے سوال کیا تو موصوف نے فرمایا کہ بکرے کا گوشت مہنگا ہے تو
غریبوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اُن کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ذرا طبع
کی روانی تو دیکھیے کہ وزیر خزانہ نے ایک عالمگیر حقیقت کِس قدر سادگی اور
آسانی سے بیان کردی! مُوسیقی کی اصطلاح میں اِسے سچّا سُر لگانا کہتے ہیں۔
اپنی تقریر میں اُنہوں نے ایسے ہی کئی اور سچّے سُر بھی لگائے! عوامی مسائل
کا حل سُجھاتے ہوئے اُن کی تقریر کی لذت صرف محسوس کرنے کی چیز ہے! ہمیں تو
محمد رفیع مرحوم یاد آگئے جو گاتے ہوئے پانچویں سپتک تک ایسی آسانی سے
پہنچتے تھے کہ سُننے والے آج بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ کچھ کچھ ایسی ہی آسانی
سے ہمارے محبوب وزیر خزانہ بھی سیاسی سُر منڈل میں پانچویں سپتک تک جا
پہنچتے ہیں اور کہیں کوئی سَکتہ محسوس نہیں ہوتا! عوام کو ایک ٹکٹ میں دو
مزے ملتے ہیں، تقریر کی تقریر اور نغمہ سرائی کی نغمہ سرائی!
حکومت بذلہ سنجی کے ذریعے عوام کو بجٹ سے قبل تھوڑی بہت روحانی ریلیف دینا
چاہتی ہے تو ہمیں اِس روش کا خیرمقدم کرنا چاہیے مگر بذلہ سنجی کی بھی ایک
حد ہونی چاہیے۔ عوام کِسی وزیر کو سُنتے ہیں تو اِس آس پر کہ شاید زندگی کو
آسان بنانے کا کوئی نُسخہ مل جائے، کوئی ایسا اعلان ہو جائے جس سے کچھ
بہبود کا اہتمام ممکن ہو! مگر اے وائے ناکامی کہ وزراءکی تقاریر محض لافٹر
شو کا منظر پیش کرنے تک محدود رہتی ہیں اور غریب اپنے مسائل پر قہقہے لگاتے
رہ جاتے ہیں! بُنیادی سوال یہ ہے کہ کیا صرف قہقہے غریبوں کا پیٹ بھرسکتے
ہیں؟ اگر ہاں، تو کب تک؟ اور کیا بات بات پر قہقہے نفسیاتی بدہضمی پیدا
نہیں کریں گے؟
بجٹ پیش کئے جانے تک پری بجٹ سیمنارز ہوتے رہیں گے، تجاویز کی شکل میں
لوگوں کا دِل بہلانے کی کوششیں کی جاتی رہیں گی، ممکنہ اقدامات کو قبول اور
برداشت کرنے کے لیے درکار ذہنی آمادگی پیدا کرنے پر زور دیا جائے گا۔ یہ
تماشا ایسا دِل کُشا ہے کہ لوگ ٹی وی چینلز کے لافٹر شو اور کامیڈی سرکس
دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے حکومتی شخصیات اور کاروباری برادری کے لوگوں کی
باتیں پڑھ کر ہنسنے ہنسانے کا اہتمام کرتے رہیں گے۔ |