آفس آفس

فِطری علوم کے ماہرین بے چارے اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے سَو سَو جتن کیا کرتے ہیں۔ لیباریٹری میں ایک مخصوص ماحول پیدا کئے بغیر وہ کام نہیں کرسکتے۔ اُن کے تمام تجربات چند شرائط کے محتاج ہوتے ہیں۔ تحقیق کے لیے چند ”متعینات“ ناگزیر ہوتے ہیں۔ اور دوسری طرف بشری علوم کے ماہرین کو دیکھیے کہ پورے معاشرے ہی کو تجربہ گاہ کا درجہ دیکر جو جی میں آئے، مزے سے بَک دیتے ہیں! اور لُطف کی بات یہ ہے کہ اُن کی بیشتر آراءدُرست تسلیم کرلی جاتی ہیں! عمرانیات کے ماہرین اگر ایک ہی تجربہ ایک سے زائد مقامات پر کریں تو نتائج مختلف نکلتے ہیں۔ اور وہ یہ کہتے ہوئے صاف بچ نکلتے ہیں کہ ہر انسان مختلف ہوتا ہے اس لیے نتائج بھی مختلف ہی نکلنے ہیں! پانی کا فارمولا تو ہر مقام پر ایک ہی رہے گا، مگر یہ اُصول جذبات اور احساسات پر اطلاق پذیر نہیں ہوتا!

ترقی کرنے کے طریقے سُجھانے والے ماہرین بھی ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو ہنسی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ کوئی کہتا ہے کہ زیادہ کام کرنے سے ترقی ملتی ہے، کِسی کا خیال ہے کہ کم مگر معیاری کام کرنے سے آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے، کِسی کی رائے یہ ہے کہ زیادہ اور معیاری کام اگر تھوڑی بہت چاپلوسی کے بغیر کیا جائے تو بے سُود ثابت ہوتا ہے اور کِسی کی مستند رائے یہ ہے کہ جب چاپلوسی سے کام لیا جائے تو مزید کوئی کام کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی! اور اگر چاپلوسی کو کافی نہ سمجھتے ہوئے کچھ کام بھی کرلیا جائے تو غیر مطلوب نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے! جو لوگ ترقی سے متعلق لٹریچر پڑھتے ہیں وہ بے چارے پھر کوئی اور لٹریچر پڑھنے کے قابل نہیں رہتے۔ اور بالخصوص فکاہیہ ادب پڑھنے کی زحمت سے ہمیشہ کے لیے چُھوٹ جاتے ہیں!

مرزا تنقید بیگ کئی دن سے بہت پریشان ہیں۔ دفتر بھی نہیں جارہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ دفتر جائیں تو کام کس طرح کریں۔ پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ترقی کرنا ہے تو دفتر میں زیادہ سے زیادہ بولنا چاہیے۔ مرزا اِس لیے مخمصے میں مبتلا ہیں کہ وہ زندگی بھر باتیں ہی تو بناتے رہے ہیں، پھر ترقی کیوں نہیں ہو پائی! شاید مرزا کے اعلیٰ افسران اب تک ماہرین کی تحقیق سے آگاہ نہیں ہو پائے۔

ییل یونیورسٹی کے ماہرین کہتے ہیں کہ دفاتر میں جو لوگ زیادہ بولتے ہیں اُنہی کو کامیابی ملتی ہے۔ باس کو ایسے لوگ پسند ہیں جو اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بُخل سے کام نہ لیں۔ آپ سوچیں گے اِس تحقیق کی روشنی میں تو صرف خواتین بھرپور ترقی پاسکتی ہیں کیونکہ وہی بولنا جانتی اور بولتی ہیں۔ مگر (خواتین کے لیے) دل خراش حقیقت یہ ہے کہ ماہرین ترقی کے لیے انہیں خاموش رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں! یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے مچھلی سے کہا جائے کہ تیرنا بھول جائے! خواتین کو ترقی کے لیے دفتر میں خاموش رہنے کا مشورہ دینے کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ماہرین اُنہیں ترقی کرتی ہوئی دیکھنا ہی نہیں چاہتے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ دفتر میں خواتین ہوں اور بات نہ کریں؟ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ ماہرین اس قدر خواتین دشمن رویہ اختیار کرسکتے ہیں! ان پر تو حقوق نسواں سے متضاد رائے دینے کا مقدمہ دائر کیا جانا چاہیے!

مرزا دفتر میں دن بھر باتیں کیا کرتے تھے۔ زیادہ باتیں کرنے پر لوگ کل تک اُنہیں زنانہ مزاج رکھنے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ہم نے کئی بار سمجھایا تو اُنہوں نے تھوڑا خاموش رہنا سیکھ لیا۔ اب وہ بلا ضرورت بولنے سے گریز کرتے ہیں یعنی خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ماہرین کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ترقی کے لیے خاموش تو خواتین کو رہنا ہے۔ اگر مرزا ہمارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خاموش رہنے کی روش پر گامزن رہے تو پھر زنان پن کا طعنہ کَسا جائے گا! ماہرین کی تازہ ترین رائے پڑھ کر مرزا ہم سے ناراض ہیں کہ ترقی تو زیادہ بولنے سے ہوتی ہے اور ہم نے اُنہیں چُپ کرادیا ہے! اِن ماہرین کا کوئی علاج نہیں۔ اِن کی تحقیق دوستی کو بدگمانی کی نذر کرنے میں دیر نہیں لگاتی!

مرزا کا ایک اور تازہ مخمصہ یہ ہے کہ دفتر میں کام کس انداز سے کریں؟ بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر؟ برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف نے ایک رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ دفاتر میں جو لوگ زیادہ دیر بیٹھے رہتے ہیں ان کے خون میں لوتھڑے بننے کا عمل تیزی ہو جاتا ہے۔ مرزا نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے، سہمے سہمے سے ہیں۔ اگر دفتر میں زیادہ دیر بیٹھے رہتے ہیں تو خون میں لوتھڑے بننے کا خطرہ ہے اور اگر سیٹ سے بار بار اٹھتے ہیں تو باس کے ناراض ہو جانے کا احتمال ہے۔ ہم نے یہ کہتے ہوئے ان کی ڈھارس بندھائی کہ اگر وہ دفتر میں اپنی سیٹ سے بار بار اٹھیں گے تو تمام ساتھی اللہ کا شکر ادا کریں گے اور باس سے خود سفارش کریں گے کہ کوئی کارروائی نہ کی جائے! لوتھڑوں کے خدشے سے مرزا کے اُٹھ جانے پر اگر دفتر کے ساتھیوں کو کچھ دیر سکون کا سانس لینے کا موقع ملتا ہے تو اس کا مرزا کو ضرور اجر ملے گا!

تحقیق در تحقیق نے دفاتر کے کام کاج کو چُوں چُوں کا مربہ بناکر رکھ دیا ہے۔ دفاتر میں کام کرنے والے جب ماہرین کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں تو ایک نئے انداز کا روٹین معرض وجود میں آتا ہے۔ ماہرین کے مشورے اپنی جگہ اور باس کی مرضی اپنی جگہ۔ دفتر کی حدود میں تو باس ہی اصل محقق اور ماہر ہوتا ہے۔ اگر وہ کہے کہ سیٹ پر بیٹھے رہنا ہے، ہلنا نہیں ہے تو پھر خون میں لوتھڑے بنیں یا خون کا پانی ہو، بیٹھنا ہی پڑے گا۔ اور اگر باس فیلڈ میں دوڑا دے تو مجال ہے کہ کوئی دفتر میں بیٹھنے کا سوچ بھی لے!

ماہرین کو دفاتر میں ترقی کے طریقے اور اصول تجویز کرتے وقت کچھ وقت ہمارے دفاتر میں بھی گزار لینا چاہیے۔ اِس صورت میں اُن کے ذہن کے مزید دریچے وا ہوں گے اور وہ تحقیق کے لیے کئی نئے موضوعات حاصل کر پائیں گے۔ دُنیا بھر میں ماہرین لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دفتر میں خوش مزاجی اپنائیں اور کام کو بوجھ نہ سمجھیں۔ ہمارے ہاں، شالا نظر نہ لگے، لوگ دفتر میں خوش مزاجی کو اِس سلیقے سے اپناتے ہیں کہ کام کو کام ہی نہیں سمجھتے! خوش خوش آتے ہیں اور ہنستے گاتے جاتے ہیں۔ کام کیا کیا ہے وہ کم بخت کِسی نہ کِسی طرح ہو ہی جاتا ہے! بعض سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر تو ایسے بے باک ہیں کہ پکنک پوائنٹ کا منظر پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے!

ماہرین لاکھ تحقیق کریں مگر وہ کبھی اِس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کہ دفاتر ذہنی اُلجھنوں سے نجات پانے کے مراکز کے طور پر بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بیشتر افراد دفتر کو اپنی تمام نجی یا گھریلو اُلجھنوں کے بیان اور اُن سے گلو خلاصی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر کِسی سے گھریلو مسئلے پر بات کرنی ہو تو کِسی کُھلی، پرفضا مقام پر کرنی چاہیے۔ اور دفتر سے بڑھ کر پُرسُکون اور پُرفضاءجگہ کون سی ہوسکتی ہے؟

دُنیا والے اب تک دفتر میں ترقی کرنے یا ترقی پانے کے طریقوں پر غور کر رہی ہے اور ہم نے دفاتر کو کئی طرح کے اُمور کی انجام دہی کے مراکز میں تبدیل کردیا ہے۔ دفتری سیاست اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو تربیت کے لیے دفاتر میں جاب پر لگاتی ہیں!

دفتری اُمور پر بے سَر پیر کی تحقیق سے نجات پانے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ محققین کو پاکستانی دفاتر میں چند دن گزارنے پر مجبور کیا جائے تاکہ اُن کے دِماغ ٹِھکانے پر آ جائیں اور وہ تحقیق کے نام پر لوگوں کو پریشان کرنے سے توبہ کریں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484188 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More