کچّے پن کا پکّا پن

باقاعدگی اور تواتر سے گانے والے بعض فنکاروں کو سُن کر اندازہ ہوتا ہے کہ سُر اور تال کا ملاپ کرائے بغیر بھی گایا جاسکتا ہے! واسو کے حوالے سے بھرپور شہرت پانے والے پاپ سنگر شہزاد رائے کا فرمان ہے کہ موسیقی ایسا فن ہے جسے سیکھنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں! بعض گانے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ثابت قدمی کی مہربانی سے، بے سُرا پن ضرور پُختہ ہوتا جاتا ہے! اگر آپ کِسی گانے والے کے بارے میں سوچیں کہ وہ بے سُرا ہی گائے گا اور پھر وہ واقعی بے سُرا گائے تو سُکون کا سانس لیجیے کہ اِس دنیا میں کوئی ہے جو آپ کی ”توقع“ پر پُورا اُترا!

نصیب نصیب کی بات ہے کہ قدرت نے آپ کو سیاسی گائیکی کے معاملے میں بھی محروم نہیں رکھا! ہمارے بیشتر سیاسی گویّے بھی ایسے ہی ہیں۔ بے سُرا گاتے گاتے ”فن“ میں ایسے طاق ہوچکے ہیں کہ اب جب بھی گاتے ہیں، اپنی بگڑی ہوئی فریکوئنسی سے کچھ نہ کچھ توڑ ہی دیتے ہیں! اور تان تو خیر کِسی نہ کِسی خرابی ہی پر توڑتے ہیں! یہ وہ پتیلیاں ہیں جنہیں گوشت کے گلنے سے پہلے ہی چولھے سے اُتار لیا گیا ہے!
دنیا کو پتہ ہی نہیں تھا کہ جمہوریت کیا ہے۔ حکومت کی مہربانی ہے کہ چار برس کے دوران سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر ایسا راگ الاپا کہ بچہ بچہ جان گیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے! دُنیا کی حسرت ہی رہی کہ جمہوریت کا انتقامی روپ دیکھے مگر ہم نے تو دیکھ اور بُھگت بھی لیا! (اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ اِس پر ہم نے کبھی غرور نہیں کیا!) جمہوریت کے انتقام والا راگ ایسے تواتر اور بے سُرے پن سے الاپا گیا ہے کہ اب تو اِس پر تن من لُٹانے کو جی چاہتا ہے۔ دَھن لُٹانے کی زحمت اُٹھانے سے ہم بچالیے گئے ہیں کہ وہ پہلے ہی لُوٹا جاچکا ہے! بقول غالب
نہ لُٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دُعا دیتا ہوں رہزن کو!

سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا مُقدر زیادہ خراب ہے یا حکومت کے وزارت بدوش مُنشیوں کی زبان زیادہ کالی ہے۔ جب بھی کسی وزیر نے اپنے محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کا دعوٰی کیا ہے، طرح طرح کی خرابیاں بڑھی ہیں اور عوام کا مزید ناک میں دم ہوا ہے۔

وعدہ خلافی اور وعدہ فراموشی کے موضوع پر کہے جانے والے اشعار سے اُردو شاعری بھری پڑی ہے۔ قدیم اور جدید دور کے شعراءنے اِس موضوع کو حتی المقدور یعنی ذہنی استطاعت مزاجی استقامت کے مطابق پامال کیا ہے مگر مارچ 2008 میں پیپلز پارٹی کو چوتھی بار اقتدار ملنے کے بعد سے معاملہ یہ ہے کہ وعدہ خلافی سے متعلق اُردو کے تمام کلاسیکی اور جدید اشعار پھیکے سے پڑگئے ہیں اور وعدہ خلافی بُھگتنے والوں کی کیفیت کماحقہ بیان کرنے سے قاصر ہیں! تجریدی آرٹ کی طرح اگر تجریدی انداز کی شاعری کی جائے تو شاید پیپلز پارٹی کے رواں عہدِ حکومت کو کچھ بیان کیا جاسکے!

راجہ پرویز اشرف پانی و بجلی کے وزیر تھے تب برقی رَو میں کم اور اُن کے بیانات میں فلکچوئیشن زیادہ پائی جاتی تھی! موصوف کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن دینے کا ہوکا تھا۔ لوڈ شیڈنگ بھی ایسی ڈھیٹ تھی کہ اُن کی ہر ڈیڈ لائن کو غُچّہ دے گئی۔ ڈیڈ لائنز دیتے دیتے پرویز اشرف تھک گئے اور بالآخر اُنہیں کہنا پڑا کہ لوڈ شیڈنگ کسی ڈیڈ لائن کی محتاج نہیں بلکہ اِس سے بہت اُوپر کی چیز ہے! اب اگر کوئی ان سے لوڈ شیڈنگ کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کو کہے تو خاموشی کے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں!

اگر آپ خامی کی پُختگی مزید مُلاحظہ فرمانا چاہیں تو وفاقی وزیر داخلہ باہیں پسارے آپ کے سامنے ہیں۔ اللہ نظر بد سے بچائے، موصوف کو ایسی خوبی ودیعت ہوئی ہے کہ اِدھر کچھ کہتے ہیں اور اُدھر سبھی کچھ اُن کے بیان کے برعکس ہو جاتا ہے یا ہونے لگتا ہے! حد تو یہ ہے کہ ہوا بھی اُن کے خلاف بہنے لگتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کبھی خُشک سالی کے دوران دریا کے پاس کھڑے ہوکر رحمٰن ملک کہیں کہ دریا میں پانی نام کی کوئی چیز نہیں تو انتقاماً دریا بھی بہنے نکلے گا! اِس کیفیت کو حکیم مومن خاں مومن کی زبانی سُنیے۔
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر کو دُشمنی ہے اثر کو دُعا کے ساتھ!

ملک کی سلامتی نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے جو کچھ رحمٰن ملک فرمائیں گے اُس کی مخالف سمت ہی میں سفر کرے گی! جب جب اُنہوں نے دہشت گردوں پر قابو پانے کی بات کی ہے، کچھ ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کے لیے ہنسی پر قابو پانا ناممکن سا ہوگیا ہے! اپنی ہر بات کو کِسی نہ کِسی طور ثابت کرنے کی عادت کے معاملے میں بھی وہ ایسے پُختہ ہوگئے ہیں کہ قتل و غارت کے سلسلے کو گرل فرینڈ کے جھگڑے کی دہلیز تک پہنچاکر دم لیتے ہیں!

رحمٰن ملک معرفتِ نفسی کی اُس منزل میں ہیں جہاں اُن پر کسی بھی درجے کی نُکتہ چینی اثر انداز نہیں ہوتی اور وہ ما فی الضمیر خاصے پُرلُطف انداز سے بیان کئے جاتے ہیں! اچھے فنکار کی یہی پہچان ہے کہ ہوٹنگ کی پروا نہ کرے اور اپنا آئٹم مکمل کرنے کے بعد ہی مائک چھوڑے! رحمٰن ملک اگر ادب کی دنیا میں ہوتے تو صفِ اول کے نقاد اور فلیپ رائٹر ہوتے! یہ دونوں کام اب ڈِھٹائی نُما مستقل مزاجی اور مزاح نوازی کے ساتھ کئے جاتے ہیں!

بہتر تعلقات اور مزید امداد کی استدعا گوش گزار کرنے کے لیے بڑی طاقتوں کے در پر لاؤ لشکر کے ساتھ حاضری بھی ایک ایسی نا پُختگی ہے جو اب خطرناک حد تک پُختہ ہوگئی ہے! دُنیا حیران ہے یہ کیسے لوگ ہیں جو امداد مانگنے کے لیے بھی دو دو طیاروں میں سوار ہوکر آتے ہیں اور ”مذاکرات“ (یعنی استدعا و التماس) کو بالائے طاق رکھ کر سیر سپاٹے کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں! اب ترقی یافتہ ممالک کو کون سمجھائے کہ جب ہر معاملے میں کچّے پن کا پکّا پن حد سے گزرتا ہے تو ایسی ہی پُرمزاح شخصیات جنم لیتی ہیں اور ایسے ہی پُرلُطف واقعات رُونما ہوتے ہیں۔ دُنیا میں دم ہے تو ذرا کچّے پن کا ایسا پکّا پن پیدا تو کرکے دِکھائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525307 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More