زندہ ہیں تو سوئے ہوئے ہیں ۔۔۔مر یں گے تو جاگ جائیں گے

یہ تو معلوم تھا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت این آئی سی ایل سکینڈل کیس میں ہمارے” مخدوم گدی نشین و روحانی پیشوا “امین فہیم صاحب کے اکاﺅنٹ میں چالیس ملین روپے ”بطور نذرانہ یا رشوت“ جمع کرائے گئے۔مخدوم صاحب نے صاف انکار کردیا کہ انہیں کوئی معلوم نہیں کہ کس نے ان کے اکاﺅنٹ میں چالیس ملین روپے جمع کرا دئیے۔تاہم انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وہ یہ رقم فوری طورپہ واپس کر دیں گے۔ہمار ا خیال تھا کہ اب تک یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہو چکی ہو گی ۔ آج سپریم کورٹ میں دوران سماعت ایف آئی اے کے ڈائریکٹر معظم جاہ نے انکشاف کیا کہ ”اب تک ایک ارب روپے کی ریکوری ہو چکی ہے ۔نو افراد گرفتارکیے جا چکے ہیں۔ان کے چلان بھی ٹرائل کورٹ میں پیش کیے مگر جج نہ ہونے کی وجہ سے سماعت نہ ہوسکی۔جبکہ مخدوم امین فہیم سے رقم لینا ابھی باقی ہے کیونکہ انہوںنے سول کورٹ میں دعویٰ دائر کر رکھا ہے ۔“کتنی عجیب بات چار کڑور آپ کے اکاﺅنٹ میں چلے گئے اور آپ معلوم ہی نہیںکہ کس نے جمع کروائے۔کاش کوئی اس طرح کے اچھے لوگ ہمیں بھی مل جاتے ؟جو علم میں لائے بغیر اس طرح کروڑوں روپے اکاﺅنٹ میں جمع کرا دیتے۔عدالت کو رقم واپس کرنے کا یقین دلا کے سول کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کر دیا۔

سول کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کروڑوں روپے ہضم کر لیں۔۔ ۔تاریخوں پہ تاریخیں ڈلتی رہیں۔۔۔ سالوں نہیں بلکہ عشروں تک اور نسلوں تک کیس چلتے رہیں۔نو افراد تو بد عنوانی کے الزام میں گرفتار ہیں مگر مخدوم صاحب بدستور عزت و احترام سے وزارت تجارت کے منصب پر فائز ہیں۔ اگرچہ عدالت نے ایف آئی اے کو مخدوم صاحب کے خلاف مناسب کاروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت 7جون تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ دیکھئے مناسب کاروائی کیا ہوتی ہے ؟

مخدوم امین فہیم صاحب پیر ہیں فقیر نہیں۔خانقاہیں جب سے گدی نشینی میں بدلی ہیں پیر بھی دینے والے نہیں لینے والے بن گئے ہیں۔2011کے سیلاب میں مخدوم صاحب کا علاقہ زیر آب تھا ۔لوگوں کی زندگیوں کوقریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا ۔ مرجھائے ہو ئے ،بیمار ، پژمردہ اور مایوس چہرے ابھی بھی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ مخدوم صاحب اُن دنوںمیں بھی اسلام آبادکے فارم ہاﺅس میں پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔اگر وہ چاہیں تو ان کے پاس ”خدا“ یا مریدوں کا دیا ہوا اتنا مال ہے جس سے وہ اپنے علاقے میں سکول، ہسپتال اور اس طرح کی دیگر بنیادی انسانی ضرورتوں کا بھر پور اہتمام کر سکتے ہیں۔یہ محض مخدوم امین فہیم کا مسئلہ نہیں یہاں ہر کوئی بغیر خدمت کے مخدوم بنا ہوا ہے ۔

عیاشی میں مسلسل زندگی گزارتے گزارتے احساس انسانیت ویسے ہی مر جاتا ہے۔مجھے ایسے موقعوں کے لیے اکثر یہ قول یاد آجاتا ہے کہ ” زندہ ہیں تو سوئے ہوئے ہیں ۔مر یں گے تو جاگ جائیں گے۔“پھر سمجھ آئے گی کہ کاش لینے کی بجائے دینے والے ہوتے۔۔ ۔مگر اب پچھتائے کیا حوت جب چڑیا جگ گئیں کھیت۔۔۔ہمارے آس پاس ہر چیز قانون فطرت پر عمل کر رہی ہوتی ہے اگر کوئی نہیں کرتا تو وہ انسان ہے ۔ہر چیز دوسروں کو نفع بخشی میں مصروف ہے ۔کاش ہم مرنے سے پہلے جاگ جائیں ۔
Syed Abid Gillani
About the Author: Syed Abid Gillani Read More Articles by Syed Abid Gillani: 24 Articles with 20378 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.