احمق (عربی ادب سے ماخوذ چند واقعات)

دیہاتی کی دعا
اصمعی کہتے ہیں:میں نے ایک دیہاتی کوبیت اللہ شریف کے پردوں سے چمٹاہوا اور یہ کہتے ہوئے دیکھا:
اللھم امتنی میتۃ ابی خارجہ
’’اے اللہ! مجھے ابو خارجہ جیسی موت عطا فرما‘‘
میں نے اس سے کہا:’’ اللہ تیرا بھلا کرے، ابوخارجہ کی موت کیسے ہوئی؟‘‘اس نے کہا:’’ اس نے خوب کھایا یہاں تک کہ اس کا پیٹ بھر گیااور خوب پیا، پھر سورج کی تپش میں سو گیا اور ماہِ شعبان میں سیراب ہو کر دھوپ سینکتے ہوئے چل بسا‘‘۔﴿التکریتی: طرائف الاطبائ، ص ۴۳۱﴾

بیوقوف لڑکا
ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا:’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں نیک اولاد و عطا فرمائی‘‘ بیوی نے کہا:’’ہاں! اللہ کا شکر ہے، اس نے اُس جیسی نیک اولاد کسی اور کو عطا نہیں فرمائی ‘‘ پھر دونوں نے اپنے بچے کو بلایا۔
باپ نے اس سے پوچھا:’’بیٹا! سمندر کس نے کھودا ہے؟
’’موسیٰ بن عمران نے‘‘ بچے نے جواب دیا
’’اسے ہموار کس نے کیا؟’’باپ نے پوچھا
’’محمد بن حجاج نے‘‘ بچے نے﴿نہایت سنجیدگی سے ﴾ جواب دیا
یہ سننا تھا کہ بیوی نے اپنی قمیص چاک کردی،بال کھول ڈالے اور رونے لگی، شوہرنے پوچھا :’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے جواب دیا:لا یعیش ابنی مع ھذاالذکائِ!
میرا بچہ ایسی ذہانت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکے گا۔ ﴿الحوفی:الفکا ہ،۱ /۳۱﴾

میں تُو تو میں کون.؟
مشہور بیوقوفوں میں’’ھَبَنَّقَہ‘‘ کا نام بھی آتا ہے، اس کی حماقت کا قصہ یہ ہے کہ اس نے کوڑی گھونگوں، ہڈیوں اور ٹھیکروں کا قلادہ﴿ہار﴾ گلے میں ڈال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں خود کو نہ بھول جائوں، ایک رات ہار اس کے گلے سے دوسرے کے گلے میں چلا گیا، صبح ہوئی تو اس نے دوسرے سے کہا:یااخی ان انت، فمن انا.؟
’’ بھائی صاحب!’’ میں‘‘ آپ ہوں تو’’میں‘‘ کون ہوں ؟ ‘‘﴿ابن لجوزی: اخبار الحمقائ والمغفلین،ص:۴۲﴾

ھَبَنَّقَہ کا فیصلہ
ھَبَنَّقَہ کی حماقتوں کے یہ قصے مشہور ہیں کہ ایک مرتبہ اس کا اونٹ گم ہو گیا،اس نے یہ اعلان کر دیا:’’ جس کو میرا اونٹ ملے وہ اس کاہے‘‘ کسی نے اس سے کہا:’’ تو آپ اعلان کیوں کرتے پھرتے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ وہ ملے گا کس کو .؟‘‘

اسی طرح بنو طفاوۃ اور بنوراسب کا ایک شخص کے متعلق جھگڑا ہوا، دونوں نے اس میں اپنی اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا، دونوں نے اس پر اتفاق کیا کہ جو سب سے پہلے ہمارے پاس آئے گاہم اس کے فیصلے پر راضی ہونگے﴿خوش قسمتی یا بدقسمتی سے﴾ سب سے پہلے ان کے پاس ھَبَنَّقَہ آئے، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو انہوں نے اپنا قصہ بیان کیا اور فیصلہ چاہا،ھَبَنَّقَہ نے کہا:’’ اس کا فیصلہ تو بالکل آسان ہے، اسے بصرہ کی نہر میں لے جا کر پھینک دو، اگر یہ مر کر پانی کی تہہ میں بیٹھ جائے تو بنوراسب کا ہے اور اگر اوپر تیرنے لگے تو طفاوۃ کاہے:‘‘﴿طفاوہ کامعنی عربی میں پانی کے اوپر اوپررہنااورراسب کے معنی پانی کی تہہ میں ہو نا ﴾ آدمی نے کہا:مجھے دوصورتوں میں سے کوئی صورت پسند نہیں اور نہ مجھے اس دیوان﴿عدالت﴾ کے فیصلہ کی ضرورت ہے۔ ﴿ الجا حظ:الحاسن والا ضداد، ص۷۶﴾

احمق باقل
﴿باقل زمانۂ جاہلیت میں عرب کے مشہورحمقائ میں سے ہیں،کلام پرقدرت نہ ہونے میں ان کی مثالیں دی جا تی ہیں﴾باقل نے گیارہ دراہم میں ایک بکری خریدی،رسی سے کھینچ کر وہ اسے لے جارہا تھا کہ کسی نے اس سے پوچھا ’’بکری کتنے میں خریدی؟‘‘ اس نے ہاتھ کھول کر انگلیاں پھیلا دیں اور زبان نکال لی،اس کا مقصد یہ بتلانا تھا کہ گیارہ دراہم میں خریدی ہے،لیکن اس کے انگلیاں کھولتے ہی بکری بھاگ کھڑی ہوئی اور گم ہوگئی، اس کے متعلق شاعر نے کہا ہے:
۱﴾لوگ باقل کو اس کی حماقتوں کی وجہ سے اس طرح ملامت کرتے ہیں جیسے حماقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی۔
۲﴾اس کے نہ بول سکنے کی وجہ سے اسے زیادہ ملامت نہ کرو کیونکہ بے وقوف کے لئے چپ رہنا ہی بہتر ہے۔
۳﴾ زبان نکالنااورانگلیاں پھیلانا ہمیں بولنے سے زیادہ پسند ہے۔﴿العطیری:ادبناالضاحک، ۵ ۳ ۲﴾
سخت دل، سخت جاں

صباح المُوَسْوسَ کا گذر ایک جماعت پر ہوا، وہ انہیں ’’بھلی جماعت‘‘ سمجھ کر ان کے پاس آیا، وہ تعداد میں سات تھے۔
’’ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ ایک سے پوچھا۔’’غلیظ‘‘﴿ سخت دل﴾ اس نے جواب دیا
’’ آپ کا نام .؟‘‘ دوسرے سے پوچھا ۔’’الخَشِن‘ ‘ ﴿ سخت کھردرا﴾ دوسرے نے جواب دیا
تیسرے نے اپنانام’’وَعِر‘‘ ﴿روکنے اور ہٹانے والا﴾بتایا،چوتھے نے اپنانام’’شداد‘‘﴿سخت مزاج﴾ بتا یا ،پا نچویں نے’’رَدَّاد‘‘﴿دھتکار نے والا﴾ بتایااور چھٹے نے’’ ظالم ‘‘ آخرصباح نے ساتویںسے پوچھا
اور آپ کا نام کیا ہے جناب!؟’’لاطم‘‘ ﴿تھپڑ مارنے والا﴾ اس نے جواب دیا
صباح نے پوچھا:’’ مالک﴿جہنم کے سب سے بڑے داروغے کا نام﴾ کہاں ہے؟‘‘
’’ارے دیوانے!’’کونسامالک؟‘‘جماعت نے جو ا ب دیا
صباح نے کہا:’’ کیا تم سب جہنم کے داروغے نہیں ہو؟‘‘ ﴿مطلب یہ کہ تم میں سے ہر ایک کے نام سے شدت ،سختی،وحشت اور دہشت معلوم ہوتی ہے جیسے تم سب جہنم کے داروغے ہو۔﴿ابن حبیب:عقلاالمجانین ص ۹۰۱﴾

قبیلہ قریش کا ایک احمق
ایسے لوگوں میں معاویہ بن مروان بن حکم بھی ہیں،وہ دمشق میں آٹا پیسنے والے کی دکان پر کھڑے اپنے بھائی عبد الملک کا انتظار کر رہے تھے، آٹاپیسنے والے کا گدھا چکی کے گرد گھوم رہا تھا، اس کے گلے میں گھنٹی بج رہی تھی، معاویہ نے چکی والے سے پوچھا:’’ گدھے کے گلے میں گھنٹی کیسی؟’’اس نے جواب دیا:’’ بسااوقات مجھے تھکا و ٹ ہوتی ہے یا اونگھ آجاتی ہے تب مجھے جلجل﴿گھنٹی ﴾ کی آواز سن کر معلوم ہو جاتا ہے کہ گدھا بھی سو گیا ہے، تو میں بیٹھے بیٹھے آواز لگاتا ہوں وہ چل پڑتا ہے، ‘‘ معاویہ نے کہا:’’ ذرا سوچ کر بتائیے ! اگر وہ کھڑے کھڑے سر ہلاتا رہے﴿ اور گھنٹی بجتی رہے﴾ تو کیا آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ ٹھہر گیا ہے﴿چل نہیں رہا؟﴾‘‘چکی کے مالک نے جواب دیا:’’ امیر المومنین﴿حاکم وقت، مراد معاویہ بن مروان بن حکم ہیں﴾ جیسی عقل گدھے کو کہاں؟‘‘﴿ ابن ابی الحدید: الشرح، ۸۱/۲۶۱﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166692 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More