’’ سمنون‘‘ دیوانہ اور ایک خلیفہ
ایک خلیفہ نے سمنون سے پوچھا:’’ آپ کواللہ تعالیٰ کی معرفت کس طرح حاصل
ہوئی؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:’’ چھ چیزوں پر عمل کرنے کے بعد مجھے یہ مقام
حاصل ہوا۔‘‘
﴿وہ چھ چیزیں درج ذیل ہیں﴾
۱.’’ میں نے اپنے زندہ’’نفس‘‘کو مار ڈالا۔‘‘
۲ .’’اپنے مردہ’’دل‘‘ کو زندہ کر لیا۔‘‘
۳.’’آنکھوں سے اوجھل’’ آخرت‘‘ کو میں نے اپنے نزدیک کر لیا۔‘‘
۴.’’سامنے پڑی’’دنیا‘‘ کو میں نے نظروں سے غائب کر دیا۔‘‘
۵.’’فنا ہو جانے والی’’مراد‘‘ کو میں نے باقی بنا دیا‘‘
۶.’’ اور باقی رہنے والی’’خواہش‘‘ کو فنا کر دیا۔‘‘
اور اب حالت یہ ہے کہ جن چیزوں سے تمہیں لگائو ہے مجھے ان سے وحشت ہوتی ہے
اور جن چیزوں سے تمہیں وحشت ہوتی ہے مجھے ان سے لگائو ہے اور پھر انہوں نے
یہ اشعار پڑھے۔
۱﴾میں نے اپنی تمام ترروح کو آپ کی رضا کے لئے سمیٹ لیا، اگر وہ آپ پہ فنا
نہ ہوتی تو﴿گناہوں سے﴾ باز نہ آتی۔
۲﴾وہ اپنے روئیں روئیں سے تجھ پر اس طرح روئی کہ کہاجانے لگاکہ رونے کی وجہ
سے ہی اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔
۳﴾ میں محبت کی ایک نظر اس پر ڈالتا ہوںاور باربار اسے کسی گناہ سے روکتا
ہوں تو وہ رک جاتی ہے﴿ اور گناہ سے باز آجاتی ہے﴾﴿ابن حبیب:عقلائ
المجانین،ص۵۰۱﴾
’’علیان‘‘ مجنون اور قاضی ابو یوسف (رح)
امام ابو یوسف(رح) فرماتے ہیں کہ میں کوفہ کے راستوں سے گزر رہا تھا، راستے
میں علیان دیوانہ ملا، اس نے مجھے دیکھا تو سلام کیا اور کہنے لگا:
علیان:’’ قاضی صاحب! ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے ‘ ‘
قاضی ابو یوسف(رح):’’بتائو! کیا مسئلہ ہے‘‘
علیان:’’ کیااللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ نہیں فر ما یا ؟
’’نہیں ہے کوئی چلنے والازمین میں اور نہ کوئی پرندہ جو اپنے پروں سے اُڑتا
ہے مگرہرایک امت ہے تمہاری طر ح ‘‘ ﴿الانعام﴾
قاضی ابو یوسف(رح):’’ بلاشبہ یہ اللہ کا فرمان ہے‘‘
علیان: کیا اللہ عزّوجلّ نے یہ نہیں فرمایا؟‘‘
’’ کوئی امت ایسی نہیں جس میں نذیر﴿عذاب الہٰی سے ڈرانے والا﴾ نہ گزرا
ہو‘‘﴿الفاطر﴾
قاضی ابو یوسف(رح):’’ کیوں نہیں‘‘
علیان:’’ تو پھر کتوں کا نذیر﴿ڈرانے والا﴾ کون ہے؟‘‘
قاضی ابو یوسف(رح):’’مجھے نہیں معلوم، آپ ہی بتادیں۔‘‘
علیان:’’ میں اس وقت تک ہرگز نہیں بتاؤں گا جب تک آپ مجھے ایک سیربھنا
ہواگوشت اور آدھا سیر فالودہ نہ کھلا دیں‘‘۔
قاضی ابو یوسف(رح) فرماتے ہیں میں نے مطلوبہ اشیالانے کا حکم دیااور اس کے
ساتھ میں مسجد میں آیا،اس نے گوشت اور فالودہ کھانا شروع کیا، جب کھا چکا
تو میں نے اس سے کہا:’’ جواب بتائو!‘‘ اس نے اپنی آستین سے پتھر نکال کر
کہا:’’ یہ ہے کتوں کانذیر۔‘‘﴿ابن حبیب:عقلائ المجانین،ص۹۷﴾
علیان اور ہادی
کہا جاتا ہے کہ عباسی خلیفہ موسیٰ الہادی نے بہلول اور علیان کو دربار میں
پیش کرنے کا حکم دیا،چنانچہ انہیں پیش کیا گیا،جب وہ دونوں خلیفہ کے سامنے
آئے تواس نے علیان سے کہا:’’ علیان نام رکھنے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ علیان نے
جواباً موسیٰ سے کہا:’’ موسیٰ اطبق نام رکھنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘﴿موسیٰ
أطبق‘‘نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اوپرکاہونٹ قدرے سکڑاہواتھاجس کی وجہ سے
ان کامنہ اکثروبیشترکھلارہتا،ان کے والدنے بچپن میں ان کواپنے نوکرکے
سپردکررکھاتھا،جب وہ ان کامنہ کھلادیکھتا تو کہتا : ’’موسیٰ أطبق‘‘
﴿موسیٰ!منہ بندکرو﴾اس سے ان کا نام ہی موسیٰ أطبق پڑگیا﴾س پر ہادی کو غصہ
آگیا،اس نے خدام سے کہا:’’ اس ذلیل انسان کی لات پکڑلو‘‘ علیان نے بہلول سے
کہا: تم اس کی ٹانگ اپنی طرف کھینچو،اس سے پہلے ہم دوتھے اب تین ہو گئے
ہیں۔﴿ابن حبیب: عقلائ المجانین،ص۱۹﴾
اپنے کھانے کے لئے اس نے مجھے مٹھائی دی
اصمعی(رح)کہتے ہیں کہ میں نے بہلول کو کھڑادیکھا،ان کے ہاتھ میں
خبیص﴿مٹھائی کی ایک قسم ہے﴾تھی، میں نے پوچھا: ’’آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘
بولے: خبیص‘‘ میں نے کہا: ’’ مجھے کھلائو‘‘ کہنے لگے:’’ یہ میری نہیں ہے‘‘
میں نے پوچھا :’’تو کس کی ہے؟ بولے’’ حمدونہ بنت الرشید کی،اس نے مجھے دی
ہے تاکہ میں اس کی خاطریہ کھا لو ں ‘ ‘ ﴿الصفدی: الوافی ۰۱/۹۰۳﴾
بہلول اور قاضی
کہاجاتا ہے کہ جب بہلول کے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے چھ سو درہم کا
ترکہ چھوڑا، قاضی نے حفاظت کی غرض سے درہم اپنی تحویل میں لے لئے، بہلول ان
کے پاس آئے اور کہا:’’ اللہ قاضی کو تندرست و سلامت رکھے- |