تحریر : محمد اسلم لودھی
کراچی میں مہاجر صوبہ تحریک کے خلاف نکالے جانے والے جلوس پر اندھا دھند
فائرنگ سے 17 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ بظاہر یہ جلوس سندھ
کی محبت میں نکالا جارہا تھااور اس کا مقصد یہ تھا کہ سندھ دھرتی کو تقسیم
نہیں کیاجاسکتا ۔ میں سمجھتا یہ واقعہ ایک بھیانک اور ہولناک انجام کا آغاز
ہے دوسرے لفظوں میں حکمرانوں نے صوبوں کی تقسیم کی آڑ میں ایک ایسا مکروہ
کھیل صرف اپنے مفادات کے لیے شروع کیا ہے جو قومی سا لمیت کی بنیادوں کو
کھوکھلا کر کے رکھ دے گا وہ پاکستانی جو پہلے بھائی بھائی کی طرح اکھٹے رہ
رہے تھے ان کے دلوں میں نفرت اور انتقام کے ایسے بھیانک آلاﺅ روشن کردیئے
گئے ہیں جن کو بجھانا شاید اب کسی کے بس میں بھی نہیں رہے گا ۔ پنجاب کو
تقسیم کرنے کے جنون میں مبتلا پیپلز پارٹی کے حکمران کچھ اس قدر پرجوش تھے
جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے لیکن پنجاب کو زیادہ
سے زیادہ نقصان پہنچانے کی حرکت نہ صرف ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے
مترادف ہے بلکہ خود حکمرانوں کو بھی زندہ درگور کردے گی ۔ایم کیو ایم والوں
نے پنجاب اسمبلی سے قرار داد منظور ہوتے ہی مہاجر صوبے کا طوفان کچھ اس طرح
کھڑا کردیا ہے کہ کراچی میں کے در و دیوار بھی مہاجر صوبے کی بازگشت سے
محفوظ نہیں رہے ۔ مہاجر صوبے کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پہلے بھی
جناح پور کے نام سے یہ معاملہ سر اٹھاتا رہا ہے جس کو دبانے کے لیے فوجی
آپریشن کرنے پڑے تھے ۔ ایم کیو ایم کی جیب میں ہمیشہ دو لفافے ہوتے ہیں ایک
بلیک میلنگ کا اور دوسرا مفادات حاصل کرنے کا ۔ اقتدار کسی کے پاس بھی ہو
وہ بلیک میل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوجاتے ہیں کہ کراچی کا 75 فیصد علاقہ
ان کے آہنی شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے جہاں رہنے والے اگر چاہیں تو اس آہنی
شکنجے کو توڑ نہیں سکتے کیونکہ ایم کیو ایم نے کراچی کی حدتک عسکری تنظیم
کی شکل اختیار کررکھی ہے جس میں داخل ہونے کا راستہ تو ہے لیکن نکلنے کا
راستہ سیدھا قبرستان جاتا ہے ۔ جبکہ دوسرے حصے پر عوامی نیشنل پارٹی نے
قبضہ کر رکھاہے ہزاروں کی تعداد میں جرائم پیشہ افراد اس کی چھتری کے نیچے
سہراب گوٹھ اور دیگر علاقوں میں بھاری اسلحے کے ساتھ موجود ہیں ۔یہی وجہ ہے
کہ کراچی یہ رستہ ہوا زخم بنتا جارہا ہے ۔ حالیہ آپریشن کے دوران پولیس اور
رینجر کو جس قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اس بات کی سچائی کے لیے
کافی ہے ۔ حکمران خوش تھے کہ دو یا تین ٹکڑوں میں تقسیم کرکے پنجاب سے اپنا
انتقام لے لیا ہے لیکن انتقام کی یہ آگ نہ صرف سندھ ، بلکہ خیبر پختون خواہ
اور قبائلی علاقوں تک بھی جا پہنچے گی اس کا کسی کو بھی یقین نہیں تھا اب
صورت حال یہ بن چکی ہے کہ سندھ کے ساتھ ساتھ پختون خواہ کو بھی تقسیم سے
بچایا نہیں جاسکتا اور قبائلی ایجنسیوں کو الگ صوبے کی شکل دینی ہی پڑے گی
۔کیونکہ امریکہ اور پاکستان کی جانب سے ہونے والی تمام تر زیادتیوں کے
باوجود قبائلی عمائدین اور عوام پاکستان کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے الگ
صوبہ قبائلستان سے کم پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور میں سمجھتا ہوں
یہ ان کا حق بھی ہے جو اب تک بنیادی سہولتوں اور بنیادی حقوق سے محروم چلے
آرہے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی قرار داد پر
پیپلز پارٹی کے جن نمائندوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں اب تقسیم در تقسیم
کا یہ عمل نفرتوں کا روپ دھار سندھ کی دھلیز پر بھی پہنچ چکا ہے اور طاقت
سے صوبوں کے تقسیم کے اس عمل کو روکا گیا تو سندھی ، پٹھانوں پنجابیوں اور
مہاجروںکے مابین نہ ختم ہونے والے اختلافات کی خلیج دن بدن بڑھتی ہی جائے
گی جو خدانخواستہ پاکستان کے لیے نیک شکون نہیں ہوگی۔ صوبوں کی تقسیم کا
شوشہ چھوڑنے کی بجائے عوام کے بنیادی مسائل حل کئے جاتے تو زیادہ اچھا تھا
لیکن حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں صرف تخت لاہور کی
دشمنی اور شریف برادران کی مقبولیت کو ختم کرنے کا جنون انہیں سکون
نہیںلینے دیتا ۔ ان کے ایسے ہی غیر دانشمندانہ اقدامات کی بدولت آج نہ صرف
پنجاب بلکہ سندھ اور خیبر پختون خواہ بھی تقسیم در تقسیم کے مرحلے تک پہنچ
چکے ہیں ۔ چوہے کی طرح آنکھیں بند کرنے سے خطرات نہیں ٹلتے بلکہ بھیانک
نتائج کا سامناکرنے کے لیے پوری پاکستانی قوم کو تیار رہنا ہوگا ۔صوبہ
پرستی کا زہر ہو یا قوم پرستی کی آگ ، قومی سا لمیت کو تنکوں کی طرح بکھر
کر رکھ دے گی ۔ |