ملک میں نئے صوبوں کی سیاست
کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ 22 مئی کو کراچی میں عوامی تحریک کی
محبت سندھ ریلی پر فائرنگ کر کے تین خواتین سمیت 11 افراد موت کی نیند
سلادیے گئے جس کے بعد سندھیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ قبل ازیں مہاجر
صوبے کے حق میں ریلی نکالی گئی تھی تو اس تحریک کے مخالفین نے اسے پر امن
طور پر جانے دیا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں مہاجروں اور سندھیوں کو ایک دوسرے کے مد
مقابل لاکھڑا کردیا گیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیندہ کسی بھی وقت
خدانخواستہ لسانی بنیادوں پر خونریز فسادات شروع ہوسکتے ہیں۔ یہ منظر نامہ
قوم کے لیے کسی بھی طرح خوش کن نہیںہوسکتا ۔ جمعہ کے روز بھی لاڑکانہ میں
عوامی تحریک کی جانب سے محبت سندھ ریلی نکالی گئی، جس میں پاکستان مسلم لیگ
ن سمیت پی پی بھٹو، جسقم، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ نیشنل پارٹی اور دیگر
جماعتوں کے کارکنان نے شرکت کی۔ ایاز لطیف پلیجو نے جلسہ عام سے اپنے خطاب
میں کہا کہ کراچی میں محبت سندھ ریلی پر فائرنگ کرنے والے وفاقی وزیر داخلہ
عبدالرحمن ملک کے تنخواہ دار تھے، انہوں نے کہا کہ مہاجر صوبہ کسی بھی صورت
بننے نہیں دیں گے۔ جب کہ صدر آصف علی زرداری بھی کراچی میں موجود ہیں، جو
اس ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بلاول ہاؤس کراچی میں امن
و امان کی صورت حال پر بلائے گئے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں
ریلی پر حملہ کرنے والوںکا تعین کرکے انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔
پورے ملک کے حالات دن بدن دگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں، لیکن ہمارے حکمران
نئے صوبوں پر اپنی سیاسی دکان چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک و ملت کا
شیرازہ بکھر جائے تو خیر ہے۔ لوگ ظلم کی چکی میں پستے ہیں تو پستے رہیں۔
معصوم پھولوں جیسے بچے یتیم ہوں تو ہوتے رہیں۔ عفت مآب بہنیں بیوہ ہوں تو
ہوتی رہیں۔ کسی کی امیدوں کا مرکز، کسی کے بڑھاپے کا سہارا، کسی غریب
خاندان کے واحد کفیل کا چراغ حیات گل ہوجائے تو ہو، راہنمایان قوم کو کوئی
فرق تو بہر حال، نہیں پڑتا۔
صرف کراچی کی صورت حال کا جائزہ لیں، جہاں کے باسی پی پی اور حکمران اتحاد
میں شامل جماعتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ شہر قائدمیں ہر دن خوں
ریزی کی ایک نئی داستان رقم کرتا گزر رہا ہے، درندگی اور قتل و غارت کی
انتہا ہوچکی۔ ” اشرف المخلوقات“کوکیڑے مکوڑوں کی طرح روندا جارہا ہے۔ یوں
محسوس ہوتا ہے کہ اب کی بار لسانی بنیادوں پر پورے عروس البلاد کو خون میں
نہلانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی گئی ہے ، جس پر عمل درآمد شروع ہوگیا
ہے۔
وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر کو اس کے رہنے والوں کے لیے آگ و خون کی وادی
بنادیا گیا ہے۔ گزشتہ 4 ماہ کے دوران 650 سے زاید افراد موت کے گھاٹ اتارے
جاچکے ہیں۔ لیاری میں ہونے والے حالیہ آپریشن کے بعد بدامنی نے پورے شہر کو
اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا
تھا، لیکن آج اس شہر میں زندگیوں کے دیے بجھنا، معمول بن چکا ہے۔ عوام امن
و آشتی کے لیے ترس رہے ہیں۔ پورا شہر ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہے۔ قدم قدم
پراجل رقصاں ہے ، لیکن حکمرانوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس صورت حال پر
چپ سادھ لی ہے۔ کوئی بھی لاقانونیت کے اس سلسلے کو روکنے اور اس کے آگے بند
باندھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے پر تیار نہیں۔ کوئی بھی عوام کے ساتھ
مخلص نہیں ہے۔ کسی کو بھی اس ملک سے کوئی غرض نہیں۔ کوئی بھی پاکستان کی
بات نہیں کررہا۔ اجتماعیت کو ہم نے بھلادیا۔ سب اپنی اپنی قومیت کی بات
کررہے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کہیں نظر نہیں آتے، کوئی بھی اپنے
ذاتی، سیاسی ، علاقائی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم
کے لیے نہیں سوچ رہا۔ ہمارے حکمران اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور
اسے طول دینے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں۔ عوام اور ان کے مسائل کے حل کے
لیے، کسی بھی سطح پرکچھ بھی نہیں کیا جارہا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں پاکستان کو بچانے
کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اختلاف و انتشار نہیں، قوم کو متحد کرنے
پر اپنی توانائیاں صرف کریں۔ ملک کی سا لمیت اور بقا کے لیے سر جوڑ کر
بیٹھیں اور ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو عوام کے مفادات کی عکاسی کرتی
ہوں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
ہماری مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بین الاقوامی، اور خصوصاً ہمارے خطے
کے حالات کے تناظر میں تو قومی اتحاد واتفاق کے بغیر ہمارے لیے اپنی آزادی
کا تحفظ بھی مشکل ہوجائے گا۔
اگر ہماری سیاسی جماعتیں لسانی بنیادوں پر اپنی سیاست چمکاتی رہیں تو اس کا
نتیجہ خاکم بدہن ملک ٹوٹنے کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ لیکن افسوس تو
اس بات کا ہے کہ حکمرانوں میں خوفِ خدا نہیں رہا۔ وہ اقتدار کے نشے میںبد
مست ہوچکے ہیں اور یہ نشہ ایسا ہے جو اس وقت اترے گا، جب اللہ تبارک و
تعالیٰ کی بارگاہ میں ان ظالم حکمرانوں کا احتساب ہوگا لیکن تب انہیں کچھ
حاصل نہیں ہوگا۔ |