استمداد اور صحابی کا عمل

کچھ روز پہلے میں نے دو کالم ایک استمداد اولیاء اور دوسرا استمداد اور صحیح حدیث کے نام سے اس امید پر تحریر کیا تھا کہ حق کے متلاشی اور اعتدال کو اختیار کرنے والے اور حق کا پرچار کرنے والے میری اس تحریر سے حق بات کو قبول کریں گے مگر میں ان حضرات کےکمنٹس پڑھنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب انسان انانیت و ضد کو اپنا لیتا ہے تو کبھی بھی وہ راہ حق کو نہیں پاسکتاہے ہمیشہ تاریک راستوں میں بھٹکتا رہے گا بہرحال میں اپنی گفتگو کو زیادہ طول نہیں دونگا اور نہ ہی کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہتاہوں اب اپنے اصل مدعاپر آتے ہیں ۔

سب سے پہلے یہ بات کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حقیقی مدد کرنے والا اللہ تعالٰی ہی ہے اور جو بندے خواہ زندہ ہو یا مردہ یہ مدد کرنے کے سبب ہیں حقیقۃ مدد نہیں کرتے اور جو لوگ انبیاء و صالحین سے مدد مانگتے ہیں ان کی ایک مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں ہمارے لئے دعا کریں تاکہ ہماری مشکل دور ہوجائے اسی کو استمداد یا وسیلہ کہتے ہیں ۔

ہمارے ساتھی نے ہم سے اس مسئلہ پر صحیح حدیث کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ صحابہ کا عمل ان کے لئے حجت ہے اس کے علاوہ وہ کسی ابن کثیر و ملا علی قاری و عبد الحق ودیگر کی بات کو نہیں مانتے نہ ہی یہ ان کے لئے حجت و دلیل ہیں ۔

اب ہم اپنے دوست سے کچھ سوالا ت کرنا چاہتے ہیں جو کہ ہمارے ذہن میں خلجان پیدا کررہے ہیں
0 میرے بھائی نے استمداد پر بطور ثبوت کی حدیث میں راوی حسان بن معروف کو ضعیف کہہ کر اس روایت کو ماننے سے انکار کردیا
1 اب ایک طرف تو ہمارے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ انکے لئے صرف صحابہ کا عمل حجت ہے لیکن بعد کو جب ضرورت پڑی تو ہیثیمی کی بات کو حجت مانتے ہوئے معروف بن حسان کو ضعیف کہا میرا سوال یہ ہے کہ ہیثیمی کیا صحابی ہے جو اس کی بات حجت ہے ؟
2 اگر صحابی نہیں تو اس کا قول حجت کیوں ہوا ؟
3 ایک طرف تو میرے دوست نے یہ کہا تھا کہ صحابہ کا عمل دیکھاؤ پھر جب حدیث پیش کی تو جناب یہ کہنے لگے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا قول ہے رسول اللہ کا نہیں چلو میں آپ کی بات مان لیتاہوں کہ ابن عبا س کا قول ہے کیونکہ میرے بھائی میں آپ سے اس پر بحث نہیں کر رہا ہے کہ یہ کس کا قول ہے تو چونکہ میرے بھائی نے یہ مان لیا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا قول ہے تو ٹھیک جب آپ کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا قول ہے تو آپ صحا بی کے اس قول پر ہی عمل کرلیں کہ صحابی کا عم ل تو حجت ہے نا ؟
4 کس صحابی نے احادیث کی اقسام بیان فرمائی ہیں ؟
5 کیا کسی صحابی نے کسی حدیث کو ضعیف کہا ہے ؟
6 اگر کسی صحابی نے کسی بھی حدیث کو ضعیف یا موضو ع نہیں کہا تو پھر آپ کے نزدیک تو صرف صحابہ کا عمل حجت ہے تو پھر کبھی بھی آپ کے نزدیک کوئی حدیث ضعیف اور موضوع نہیں ہوسکتی
7 راوی پر جو غیر صحابہ نے جرح کی ہے وہ بھی آپ کو قبول نہیں ہونی چاہیے کہ جب آپ نے اس راوی کو پایا ہی نہ اس سے کوئی ملاقات کی تو صرف غیر صحابی کا کہہ دینا کہ یہ مجہول الحال ہے یا منکر ہے حجت نہیں ہونا چاہیے ؟ نہ کسی غیر صحابی کی یہ بات قابل حجت ہونی چاہیے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ ضعیف
8 آپ نے قرون ثلاثہ کے عمل کو حجت جانا لہذا قرون ثلا ثہ کے بعد جو بھی احادیث کی اقسام بیان ہوئی اورفن رجال ایجاد ہوئے ان کا کوئی مقام نہیں ہونا چاہیے ؟
9 مزید یہ کہ میرے بھائی قرون ثلاثہ کے خیر ہونے کے قائل ہیں پھر کہتے ہیں کہ ہم اس اعرابی کی بات کو نہیں مانتے حالانکہ یہ بھی تو قرون ثلاثہ کا واقعہ ہے عجیب بات ہے
10 نیزگزشتہ کالم میں ذکر کردہ احاديث کو ضعیف فرمایا تو بھائی آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ میں نے وہاں دو حدیثیں بیان کی ہیں ایک میں معروف بن حسان ہے اور دوسری میں معروف بن حسان نہیں ہے اس کے روایوں کے بارے میں کے اس کے رجال ثقہ ہیں مگر زید نے عتبہ کو نہیں پایا ہے لہذا منقطع ہونے کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہوگئی اب آپ صاحب علم ہیں آپ کے علم ميں ہونا چاہیے کہ ضعیف حدیث اگر ایک سے زائد سندوں کے ساتھ ہوتو وہ حسن لغیرہ ہو جاتی ہے اور محدثین فرماتے ہیں کہ حسن لغیرہ قابل حجت ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی کی النکت علی کتاب ابن الصلاح اور حافظ ابن الصلاح کی علوم الحدیث کا مطالعہ کریں
11 نیز علماء کا عمل کرنے سے بھی ضعیف حدیث حسن کے مرتبہ کو پہنچ جاتی ہے

اس کی دلیل اما م ترمذی کا یہ فرمانا کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس سند کے علاوہ یہ حدیث کسی اور سند سے مروی نہیں اوراہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے ملا علی قاری علامہ نووی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے میرک سے نقل کیا ہے اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور امام ترمذی اہل علم کے عمل سے اس حدیث کی تقویت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں
مرقاۃ المفاتیح جلد ۲ ص ۹۸ امدادیہ ملتان

اس کے علاوہ امام نیشاپوری کا قول بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے اور امام ابن ہمام کے قول سے بھی یہ ہی مستنبط ہے

اور میں پہلے ہی ذکر چکا ہوں کہ امام نووی نے خود بھی جانور گم ہوجانے پر اس حدیث پر عمل کیا ہے اور فرمایا کہ یہ مجرب عمل ہے تو بھائی جن محدثین نے احادیث کی اصلا حات قائم کی اور جنہیں کئی ہزار احادیث زبانی یاد تھیں وہ تو عمل کر رہے ہیں اور جو ان کے بنائے اصول پڑھ رہے ہیں وہ ان احادیث کا انکار کر رہے ہیں کہ جن پر محدثين نے عمل کیا ہے اس کے علاوہ علماء و صلحاء کی ایک بہت ہی بڑی تعداد ہے جو اپنی کتابوں میں اس کو بطور سند کے زکر کرتی رہی اور اس بات پر عمل بھی کرتی رہی ہے اور آپ ہیں کہ ان سب صاحب علم و تقوی کا انکار بلکہ ان پر اعتراض کر رہے ہیں سوچنے کی بات ہے کہ کیا اتنے سارے مسلمان شرک میں مبتلاء چلے آرہے ہیں یہ محال بات ہے

میرے بھائی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس میں تو زندہ سے مدد کا ثبوت ہے تو بھائی ْآپ نے زندہ کی مدد کا تو اقرار کر لیا ہے اب یہ بتاو کہ اس طریق پر مدد کرنا کیا تحت الاسباب مدد کرنا ہے یا ما فو ق الاسباب مدد کرنا ہے ؟ اور یہ بھی کہ آپ نے کہا کہ اس حدیث میں وہاں صرف ملائکہ مراد مسلمان جن مراد ہیں حلانکہ اسی مقام رجال الغیب بھی فرمایا یعنی انسانوں سے مدد کا فرما یا ہے کہ جو پوشیدہ ہیں

نیز مسلاسن مردے سے مدد مانگنا کہاں پر ناجائز لکھا ہے اور بلا وجہ مسلمانوں پر یہ تہمت نہ لگائے گا کہ وہ مردہ کی عبادت کرتے ہیں پکارنا یہ عبادت کرنے کو لازم نہیں ہے آپ عبادت کی تعریف کو پہلے سمجھنے کی کوشش فرمائیں کسی کو معبود سمجھ کر پکارنا عبادت ہوتا ہے بہرحال آپ نے یہ کہا کہ صحابہ کا عمل پیش کرو تو میں مصنف ابن ابی شیبہ جو کہ امام بخاری کے استاد ہیں ان کی کتاب سے حدیث صحیح پیش کرتا ہوں

32665- حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ. مصنف ابن ابی شیبہ
مالک بن دینار جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخس کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے پھر وہ حضرت عمر کے پاس گئے اور ان کو خبر دی حضر ت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا کہ اے اللہ میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں کہ جس سے میں عاجز ہوں منف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 32665
اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے بھی روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت صحيح ہے البدایہ والنہایہ ج۷صفحہ۹۱ دار الفکر بیروت

اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس روایت کو صحیح فرمایا ہے اور فرمایا کہ وہ خواب دیکھنے والے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے
فتح الباری جلد ۲ صفحہ۴۹۵نشر الکتب اسلامیہ

اسی طرح امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ
حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے الہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عچمان میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی
المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر ۸۳۱۱
حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں
او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں
اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے
بلکہ امام تیمیہ نےکہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کو
فتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح فرمایا ہے میرے دوست حق واضح ہو گیا ہے اب اگر آپ ان احادیث کا رد پیش کرنا چاہتے ہیں تو صحابہ کے عمل سے رد پیش کیجیے گا کیونکہ آپ کے نزدیک تو صرف صحابہ کی بات و عمل ہی حجت ہے نیز میرے بھائی یہ مت کہنا کہ صحابہ یوں عمل کرتے تھے وغیرہ کیونکہ ایک عمل کرنے سے دوسرے عمل کی نفی نہیں ہوتی خا ص کر وہ عمل کہ جو کسی دوسرے صحابی سے منقول ہو

بہرحال میری اس بحث سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اولیا ء و صالحین سے ہی مانگنا چاہیے بلکہ مانگنا تو صرف اللہ تعالٰی ہی سے چاہیے ہاں ان حضرات کا وسیلہ پیش کیا جاسکتا ہے اور حضرات اولیاء کو مخاطب کر کے پکار نا جائز ضرور ہے مگر افضل نہیں ہے ان شا ء اللہ آئندہ آنے والے دنوں میں عوام کا جو غلط طریقہ ہے اس کے ازالہ کے لئے ایک مضمون ضرور لکھوں گا کہ کہ جس میں اللہ تعالٰی سے ہی مانگنے کی ہی ترغیب ہوگی ۔
Ali raza
About the Author: Ali raza Read More Articles by Ali raza: 10 Articles with 27553 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.