کاروبار میں برکت کا وظیفہ حصہ اول

 اس وقت پوری دنیا معاشی بحران کی لپیٹ میں ہیں ہے خاص کر مسلمان زبوں حالی کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے خالق کائنات رازق ارض وسما وات عزوجل کے پسندیدہ دین سے اپنا تعلق منقطع کرلیا ہے اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اصول و قواعد سے منہ موڑ کر دشمنان اسلام کے بنائے ہوئے قانون کو گلے لگا لیا ہے تو جب ایسے کرتوت ہونگے تو نتیجہ یہی آنا ہے حالانکہ اسلام ایک مکمل دین ہے اسلام نے زندگی گزارنے کے ہر شعبہ کو بیان فرمایا ہے کسی بھی گوشہ کو خالی نہیں چھوڑا جہاں عبادات کے طریقے بتلائے وہاں معاملات پر بھی روشنی ڈالی تاکہ اسلام کے ماننے والوں کے لئے کسی شعبہ میں تشنہ باقی نہ رہے مگر ہم نے تجارت و معاشیات میں یہود و نصاری کے بیان کردہ اصولوں کو اپنا زیور بنا لیا ہے آج مسلمان خرید و فروخت کے معاملہ میں سود ر،شوت ،دھوکہ دہی اور نہ جانے کتنے ہی خرافات میں مبتلاء ہے آج نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایماندار اور شریف انسان کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے بھی رشوت دینا لازمی ہوگیا ہے اور یہ سب بدعنوانیا ں ، جرائم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے روگردانی کا نتیجہ ہے آج مسلاان کاروبار میں برکت کے وظائف کرتا نظرآتا ہے مگر وہی مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تعلیمات کو نظر انداز کرتا دیکھائی دیتا ہے تو پھر صرف ان وظائف سے برکت کس طرح ممکن ہے
آج کئی مسلمانB.B.A M.B.A M.P.A کی ڈگریاں لیے موجود ہیں مگر انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے کیا آداب بیان فرمائے ہیں بیع باطل و فاسد کس بلاء کا نام ہے پھر بھی یہ لوگ اسلامی معاشرے میں پڑھے لکھے اور معزز سمجھے جاتے ہیں سرمایہ دار لوگ ان کے مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں تو پھر برکت کہاں سے آئے گی

محترم دوستوں
شریعت نے جس طرح عبادات کے آداب جائز وناجائز صورتیں بیان فرمائی ہیں اسی طرح تحصیل مال (تجارت)کے آداب اور جائز وناجائز صورتوں کو بھی بیان فرمایا ہے لہذا ہر پیشہ ور کو اپنے پیشے کے متعلق شرعی احکام کا علم ہونا چاہیے تاکہ اس کی کمائی میں حرام کی آمیزش نہ ہو اور یہ اسی وقت ممکن جب بندے کو جائز وناجائز کا علم ہو۔ کیونکہ مال حرام یہ برکت ختم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے اور مال حرام سے دیا گیا نہ کوئی صدقہ قبول اور نہ کوئی حج مبرور بلکہ سارا کا سارا ہی مردود ہے

کسب حرام پر وعیدیں وکسب حلال کے فضائل

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللَّہَ طَیِّبٌ لاَ یَقْبَلُ إِلاَّ طَیِّبًا وَإِنَّ اللَّہ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَبِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِینَ فَقَالَ(یَا أَیُّہَاالرُّسُلُ کُلُوامِنَِالطَّیِّبَات وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ)َوَقَالَ (یَا أَیُّہَا الَّذِین آمَنُواکُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ)ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ یَا رَب وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایااے لوگوں بیشک اﷲ پاک ہے اور پاک ہی کو دوست رکھتا ہے اور اﷲ تعالی نے مومنین کو بھی اسی کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا ۔ اس نے رسولو ں سے فرمایااے رسولوں !پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو بیشک میں جاننے والا ہوں جو تم کرتے ہو۔اور مومنین سے فرمایا اے ایمان والوں! کھاؤہماری دی ہوئی ستھری چیزیں۔پھر بیان فرمایا کہ ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے قبول ہو)وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر’’یارب یارب ‘‘کہتا ہے (دعا کرتا ہے)حالت یہ ہے کہ اس کھا ناحرام پینا حرام ،لباس حرام اور غذا حرام پھر اسکی دعا کیونکر قبول ہوگی(یعنی اگر دعا کے قبولیت چاہتے ہو تو حلال کھاؤ)
(الصحیح المسلم حدیث نمبر۲۳۹۳ دار الفکر بیروت)

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لاَ یُبَالِی الْمَرْءُ بِمَاأَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنْ حَلاَلٍ أَمْ مِنْ حَرَام
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا
کہ آدمی پرواہ بھی نہ کرئیگا کہ اس نے مال کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے
(الصحیح البخاری حدیث نمبر۲۰۸۳)

قَالَ رَسُولُ اللَّہﷺ أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّی تَسْتَوْفِیَ رِزْقَہَا وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْہَا فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ خُذُوامَا حَلَّ وَدَعُوا مَا حَرُمَ

نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ اے لوگوں اﷲ سے ڈرو اور رزق تلاش کرنے میں اعتدال اختیار کروبیشک کسی جان کواس وقت تک موت نہیں آئیگی جب تک کہ ااس کا رزق اس کو پورا نہ مل جائے اگرچہ کہ تاخیر سے ملے پس تم اﷲ سے ڈرو اوررزق تلاش کرنے میں اعتدال سے کام لو اور جو حلال ہو اسے لے لو اور حرام کو چھوڑ دو
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۲۲۷)

طَلَبُ کَسْبِ الْحَلاَلِ فَرِیضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیضَۃِ
حلال کمائی کی تلاش بھی فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے
السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر۱۲۰۳۰ دار الفکر بیروت)

مَا کَسَبَ الرَّجُلُ کَسْبًا أَطْیَبَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَی نَفْسِہِ وَأَہْلِہِ وَوَلَدِہِ وَخَادِمِہِ فَہُوَ صَدَقَۃٌ
آدمی کا سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر حاصل کرئے اور آدمی کا
اپنی جان پر ،اپنے گھروالوں پراپنی اولاد پر اوراپنے خادم پر مال خرچ کرنا صدقہ ہے
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۲۱۳۸دار الفکر بیروت)

وروی عن أنس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ التاجر الصدوق تحت ظل العرش یوم القیامۃ
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن
امانت دار،صداقت شعارتاجر عرش کے سائے تلے ہونگے۔
[الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۵ مکتبہ محمودیہ]

قال رسول اللہ ﷺالتاجر الأمین الصدوق المسلم مع الشہداء یوم القیامۃ
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ امانت دارسچامسلمان تاجر کل بروز قیامت شہداء کے ساتھ ہونگے ۔
[الترغیب والترہیب جلد ۲ صفحہ۳۶۵ مکتبہ محمودیہ]

سبحان اللہ رب العالمین جلالہ نے ہمارے لئے کتنی آسانی فرمادی کہ اپنے اہل و عیال کے لئے مال خرچ کریں تو وہ بھی صدقہ یعنی نیکی ہے اور امانت داری کے ساتھ تجارت کریں تو کل بروز قیامت جس مقام پر شہداء ہونگے سچے امین تاجر بھی وہیں ہونگے ۔
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 71709 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.