سچ بولنامنع ہے

قارئین :آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیابات ہوئی کہ سچ بولنا منع ہے ۔آپ کالم پڑھنا شروع کیجیے ۔اقتباسی عبارت کے بعدپھر میں آپ سے عرض کروں گاکہ میں نے یہ کیوں لکھا۔۔۔

محترم قارئین کرام:
استمداد باللہ ،اور مومن یا مشرک ،ان دونوں کالم پر بعض حضرات نے کچھ اعتراضات وارد فرمائے تھے
جن میں ایک یہ تھا کہ آپ صحابہ کرام سے استمدادکا ثبوت پیش کریں۔
دوسرا یہ تھا کہ انبیاء علیہ السلام و اولیاء کرام کی حیات کا ثبوت پیش کریں۔
تیسرا یہ تھا کہ آپ اولیاء اللہ و انبیاء علیہ السلام سے استمداد کا ثبوت پیش کریں۔
چوتھا اور اہم مسئلہ جس کی وضاحت لازم ہے وہ ہے یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ کا مصداق حقیقی کون ہے؟

تو انشاء اللہ صحابہ کرام کے افعال سے بھی ہم اس کالم میں استمداد ثابت کریں گے۔انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی حیات کا ثبوت بھی پیش کریں گے جس سے آپ لوگوں پر یہ آشکار ہوجائیگا کہ ہم ان حضرات کی حیات کے قائل کیوں ہیں۔اور تیسرا انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ سے استمداد کا ثبوت بھی پیش کریں گے۔۔اور ساتھ ساتھ غوث اعظم اور غوث الثقلین جیسے القابات کا ثبوت بھی قول مخالف سے پیس کیا جائیگا۔اور یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ آیت کے مصداق پر بھی کلام ہوگا۔۔اللہ ہمیں حق سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ ۔۔

سب سے پہلےمندجہ ذیل آیت کے متعلق جانتے ہیں۔
بعض مفسرین بالخصوص مودودی صاحب نے اپنے زعم میںوَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَo
کا مصداق انبیاء و اولیائ،شہدا اور صالحین کو ثابت کرکے لکھاہے کہ'' جن کو غالی معتقدین داتا،مشکل کشا،فریاد رس،غریب نواز،گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قراردے کر اپنی حاجت روائی کے لئے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔

گویا کہ انکے نذدیک کسی صالح انسان کو داتا،مشکل کشا اوور فریاد رس کہنا اس آیت کی رو سے ممنوع اور ناجائز ہے۔ہم ان القاب میں سے صرف فریاد رس کے متعلق گفتگو کررہے ہیں اور فریاد رس کو عربی میں غوث کہتے ہیں ۔اوران بعض مفسرین اور مودودی صاحب کے مسلم بزرگوں نے حضرت عبد القادر جیلانی قدس سرہ کو غوث اعظم اور غوث الثقلین کہا ہے۔آئیے آپ کو چند فروح پیش کرتے ہوئے قول مخالف سے ہی جواب دیتے ہیں۔

شیخ اسماعیل دہلوی متوفی١٢٤٦ھ لکھتے ہیں۔۔
بے سمجھ طالب جب معرفت ذات کے مقام کو پہنچتے ہیںاور سلوک متعارف کو ختم کر لیتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہم بھی حضرت غوث اعظم اور حضرت خواجہ بزرگ نائب رسول اللہ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت قطب الاقطاب حضرت خواجہ بختیار کاکی اور پیشوائے شریعت و طریقت حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند اور حضرت امام ربانی قیوم زمانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی وغیرہم قدس اللہ اسراہم اجمعین جیسے بڑے اولیاء اللہ کے ہم پایہ اور پم مقام ہوگئے۔(صراط مستقیم فارسی ص١٣٢صراط مستقیم اردو ٢٢٥)
اس عبارت میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہا گیا۔اور دیگر کو مختلف القابات سے نوازا گیا!!!!

نیز شیخ اسماعیل دہلوی،سید احمد بریلوی کی روحانی تربیت کے متعلق لکھتے ہیں:
جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کی روح مقدس آپ کے متوجہ حال ہوئیں اور قریباعرصہ ایک ماہ تک آپ کے حق میں ہردو روح مقدس کے مابین فی الجملہ تنازع رہا کیونکہ ہر ایک ان دونوں عالی مقام اماموں مےں سے اس کا امر تقاضا کرتا تھا کہ آپ کو بتمامہ اپنی طرف جذب کرلے تاآنکہ تنازع کازمانہ گزرنے اور شرکت پر صلح کے واقع ہونے کے بعد ایک دن ہر دو مقدس روحیں آپ کو جلوہ گر ہوئیں اور تقریباً ایک پہر کے عرصہ تک وہ دونوں امام آپ کے نفس نفیس پر توجہ قوی اور پر زور اثر ڈالتے رہے، پس اسی ایک پہر میں ہر دو طریقہ کی نسبت آپ کو نصیب ہوئی۔ ــ(صراط مستقیم (اردو) ص٢٨٣، مطبوعہ لاہور، صراط مستقیم (فارسی) ص ١٦٦، طبع لاہور)۔

ان عبارات میں حضرت عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو غوث اعظم اور غوث الثقلین کہا ہے یعنی سب سے بڑے فریاد رس اور جن وانس کے فریاد رس، نیز دوسرے اقتباس سے یہ ظاہرہوگیا کہ حضرت غوث اعظم اور خواجہ بہاء الدین جو اولیاء اور صالحین امت میں سے ہیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کی تطہیر ، تزکیہ اور ان کی تربیت بھی کرتے ہیں، بعض مفسرین اورمودودیصاحب کے متعلق ہم نے لکھا تھا کہ یہ لکھنے والے مودودی صاحب کے مسلم برزگ ہیں، سو ملاحظہ فرمائیں۔

شاہ عبدالعزیز اور شیخ اسماعیل دہلوی کا مودودی صاحب کے نزدیک حجت ہونا:
ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ۔۔، شیخ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی صاحبان کے متعلق لکھتے ہیں:
یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب نگاہوں کے سامنے روشن کرکے رکھ گئے تھے۔ سید صاحب کے خطوط اور ملفوظات اور شاہ اسمٰعیل شہید کی منصب امامت، عبقات، تقویۃ الایمان اور دوسری تحریریں دیکھئے ، دونوں جگہ وہی شاہ ولی اللہ صاحب کی زبان بولتی نظر آتی ہے۔ شاہ صاحب نے عملاً جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ حدیث اور قرآن کی تعلیم اور اپنی شخصیت کی تاثیر سے صحیح الخیال اور صالح لوگوں کی ایک کثیر تعداد پیداکردی، پھر ان کے چاروں صاحبزادوں نے، خصوصاً شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس حلقہ کو بہت زیادہ وسیع کیا، یہاں تک کہ ہزارہا ایسے آدمی ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے جن کے اندر شاہ صاحب کے خیالات نفوذ کیے ہوئے تھے، جن کے دماغوں میں اسلام کی صحیح تصویر آچکی تھی اور جو اپنے علم وفضل اور اپنی عمدہ سیرت کی وجہ سے عام لوگوں میں شاہ صاحب اوران کے حلقے کا اثر قائم ہونے کا ذریعہ بن گئے اس چیز نے اس تحریک کے لئے گویا زمین تیار کردی جو بالاآخر شاہ صاحب ہی کے حلقے سے ، بلکہ یوں کہئے کہ ان کے گھر سے اٹھنے والی تھی۔ (تجدید واحیاء دین ص١٢٥۔١٢٤، مطبوعہ لاہور، ١٩٥٥ئ)

بہرحال ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے مسلم بزرگ شاہ اسماعیل صاحب کی تحریر سے ثابت ہوگیا کہ اولیاء اللہ زندہ ہوتے ہیں اور اس جہاں میں تصرف بھی کرتے ہیں جیسا کہ حضرت غوث اعظم اور خواجہ بہاء الدین رحمہما اللہ نے احمد بریلوی پر تصرف فرمایا اور ان کو اپنی نسبتوں سے نوازا۔
قارئین حضرات :آپ نے پڑھ لیا نا یہاں تک ۔۔۔

اب آئیے انبیاء علیہم السلام سے حاجت روائی یعنی استمداد کے بارے میں پڑھتے ہیں اور وہ بھی دورخلافت میں یعنی صحابہ کے دور میں۔۔ صحابہ و تابعین نے حضور نبی اکرم، شفیع امم، رسول مہتشم، نبی مکرم اللہ کے پیارے امت کے سہارے رب کے محبوب دانا ئے غیوب ،منزہ عن العیوب ،مالک رقاب امم ،فخرعرب و عجم ،والی ئ کون و مکاں سیاح افلاک ولامکاں،سید انس وجاں ،سرخیل زماں،سرور لالہ رُخاں،نیّرتابہ ابد، سر نشینِ محواشاں،شاہ خوباں،شہنشاہ عالمین،تتمہ دوراں،مہدی دوراں،مسیح دوراں،سرخیل زھراجمالہ،جلوہ صبح ازل،نور ذات لم یزل،باعث تکوین عالم،فخرآدم وبنی آدم، نیّر بطحا،رازدارِما اَوْھا،شاھدِ ماطغی،ٰطاھر
الم نشرح، ماصوم اٰمنہ، شفیع مذنبین ،احمد مجتبیٰ،حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے حاجت روائی کی!۔

انبیاء علیہم السلام سے حاجت روائی:
بعض مفسرین اور مودودی صاحب نے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام سے حاجت روائی کو اس آیت کے تحت کافروں کا فعل قرار دیا ہے، ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور خلافت میں صحابہ اور تابعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجت روائی کی ہے لہٰذا انبیاء علیہم السلام سے حاجت روائی کرنا صحابہ اور تابعین کی سنت اور ان کی اقتداء ہے، کافروں اور مشرکوں کا فعل نہیں ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر مسلمان جانتا مانتا ہے یہ وہ ہی عمر ہیں جن کے متعلق نبی کریم ؐ نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے( او کما قال علیہ السلام)آئیے حضرت عمر کے زمانے کی ایک روایت پڑھتے ہیں۔۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک سال قحط پڑ گیا تو حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر حاضرہوئے اور عرض کیا: اپنی امت کے لیے بارش کی دعاکیجئے۔(دیکھئے !بقول آپ کے مردے سے استمداد بھی اور دعا بھی!!!)

حافظ ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
مالک الدار، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھی، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آگیا، ایک شخص ( حضرت بلال بن حارث مزنی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر گئے اور عرض کی: یارسول اللہ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہورہے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے پاس جاؤ، ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینابارش ہوگی، اور ان سے کہوتم پر سوجھ بوجھ لازم ہے، تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے، پھروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: اے اللہ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصننف ابن ابی شیبہ ج١٢، ص ٣٢، البدایہ والنہایہ ج ٥ص١٦٧، الکامل فی التاریخ ج٢ص٣٩٠۔٣٨٩)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ( فتح الباری ج٢ ص ٤٩٦، ٤٩٥، طبع لاہور)۔

جناب:کچھ سمجھ آئی لگتاہے کچھ اور بھی جانناچاہتے ہیں :تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے اب آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لے چلتے ہیں یہ وہ ہی عثمان ہیں جنکا لقب ذوالنورین ہے۔!!!

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہئ خلافت میں صحابہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا:
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے۔ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی، اس نے حضرت عثمان بن حنیف سے اس بات کی شکایت کی۔ حضرت عثمان نے اس سے کہا: تم وضو خانہ جاکر وضو کرو، پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نمازپڑھو، پھر یہ کہو'' اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے'' اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں۔ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا۔ دربان نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا تمہارا کیا کام ہے؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا، حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا: تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا: جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا، پھر وہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے، حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی۔ حضرت عثمان بن حنیف نے کہا : بخدا ! میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی بات نہیں کی، لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا، آپ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی نابینائی کی آپ سے شکایت کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر صبر کرو گے؟ اس نے کہا: یارسول اللہ ! مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم وضو خانے جاؤ اور وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھو، پھر ان کلمات سے دعا کرو، حضرت عثمان بن حنیف نے کہا: ابھی ہم الگ نہےں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص آیا در آنحالیکہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
(المعجم الصغیر ج١ ص ١٨٤، ١٩٨٣ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٨١١)

حافظ منذری، حافظ الہیشمی اور شیخ ابن تیمہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(الترغیب والترہیب ج١ ص ٤٧٦۔ ٤٤٧، مجع الزوائدج٢ص٢٧٩، فتاویٰ ابن تیمیہ ج١ ص ١٩٥، ١٩٤) ۔

اس حدیث کو باغور پڑھیں وسیلہ بھی ہے،حاجت روائی بھی ہے،اور دعا بھی ہے(اور جو نبی کو مردہ گمان کرتے ہیں وہ بھی دیکھ لیں حضرت عثمان کا فعل !کہ نبی رحمت ؐ کے وسیلے سے دعا کی ترغیب دی )
نوٹ اسکی مزید تفصیل کے لئے تبیان القرآن جلد١ صفحہ 188تا209کا تفصیلی مطالعہ فرمائیں۔
اب آئیے اولیاء اللہ سے حاجت روائی کے متعلق جانتے ہیں۔

اولیاء اللہ سے حاجت روائی:
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی ١٢٣٩ھ بھی مودودی صاحب اور ان بعض مفسرین کے مسلم بزرگ اور حجت ہیں لہٰذا ہم اولیاء اللہ سے حاجت روائی کے جواز پر ان کی عبارت نقل کررہے ہیں، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
ازاولیاء مدفونین ودیگر صلحا مومنین انتقاع واستفادہجاری۔۔۔ترجمہ۔۔۔وصال پانے والے اولیاء اور دیگر صلحاء مومنین سےاستفادہ اور استعانت جاری وساری ہے۔

است وآنہا ا افادہ واعانت نیز مصتور بخلاف مردہ ہائے سوختہ ۔۔۔۔۔۔ اور ان اولیاء وصلحاء سے افادہ اور امداد بھی متصور ہے۔ بخلاف ان مُردوں کے جن
کہ این چیز ہا اصلاً نسبت بآنہادر اہل مذہب آنہا نیز واقع نیست۔۔۔۔۔۔کو جلادیا جاتا ہے کیونکہ ان سے یہ امور ان کے مذہب میں بھی جائز نہیں ہیں۔
(تفسیر عزیزی پ٣٠ص ٥٠، مطبوعہ افغانستان)۔

نیز شاہ صاحب لکھتے ہیں:
ترجمہ: وہ خاص اولیاء اللہ جنہوں نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے وفات کے بعد بھی دنیا میں تصرف کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور ان کا امور اخروی میں مستغرق ہونا بسبب وسعت ادراک کے دنیا کی طرف توجہ کرنے سے مانع نہیں ہوتا۔ اویسی سلسلہ کی حضرات اپنے باطنی کمالات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور حاجت مندان سے حاجت طلب کرتے ہیں اور مراد پاتے ہیں اور ان کی زبان حال اس وقت یوں گویا ہوتی ہے کہ اگر تم بدن سے میری طرف بڑھوگے تو میں روح سے تمہاری طرف پیش قدمی کروں گا۔ (تفسیر عزیزی پ٣٠ص١١٣، مطبوعہ افغانستان)۔

مودودی صاحب کی تفسیر کے رد میں بحث طویل ہوگئی لیکن ہم یہ چاہتے تھے کہ اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے اور یہ واضح ہوجائے کہ والذین یدعون من دون ا، اور اموات غیراحیاء کا مصداق انبیاء علیہم السلام، اولیاء اکرام اور شہداء اور صالحین نہیں، اس کا مصداق صرف بت ہیں اور اس سلسلہ میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے تمام شبہات کا جواب ہو ۔
والذین یدعون من دون اللہ ۔۔میں یدعون کا صحیح ترجمہ عبادت کرنا ہے پکارنا نہیں:
ابو الا علیٰ مودودی صاحب اور بعض مترجم حضرات نے یدعون کا ترجمہ پکارتے ہیں کیا ہے جبکہ ایسے مواقع پر یدعون کا صحیح ترجمہ ہے۔ عبادت کرتے ہیں۔
حضرات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
وآنانکہ مے پر ستند کافراں ایشاں رابجز خدانمے آفرید ندچیزے راوخووشان آفریدہ مے شوند:
اشرف علی تھانوی صاحب اسکا ترجمہ لکھتے ہیں:
اور جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود ہی مخلوق ہیں:
سید محمود آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
والالھۃ الذین تعبدونھم ایھا الکفار۔۔۔۔۔ترجمہ:اور وہ معبود جن کی تم عبادت کرتے ہو اے کفار!
(روح المعانی)

دراصل بعض مترجم حضرات اور مودودی صاحب نے اس آیت کا ترجمہ پکارتے ہیں۔اس لئے کیا ہے کہ اس آیت کو ان مسلمانوں پرچسپاں کر سکیں جو اپنی مہمات میں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو پکارتے ہیں۔کیونکہ اگر وہ اس آیت کا معنی'' عبادت کرتے'' کرتے تو اس آیت کو مسلمانوں پر چسپاں نہیں کر پاتے کیونکہ وہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی بہر حال عبادت نہیں کرتے۔
والذین یدعون من دون اللہ ۔۔کا مصداق اصنام اور بت ہیں۔انبیاء و اولیاء نہیں۔:

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔۔اللہ تعالی فرماتا ہے :اور تمھارے وہ بت جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو،اے لوگوں یہ معبود کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے۔۔۔۔
قتادہ بیان کرتے ہیں کہ یہ بت جن کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت جاتی ہے مردہ ہیں ان میں روحیں نہیںہیں۔۔۔
(جامع البیان)

امام عبد الرحمن بن محمدبن ادریس رازی لکھتے ہیں:
قتادہ نے کہا یہ بت ہیں جن کی الل کے سوا عبادت کی جاتی ہے مردہ ہیں ان میں روحیں نہیں ہیں۔
(تفسیر امام ابن ابی حاتم)
امام عبد الرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی لکھتے ہیں
اموات غیر احیاء اس سے مراد اصنام(بت)ہیں
نیز ومایشعرون۔۔کی تفسیر میں لکھتے ہیںکہ اس میں دو قول ہیں
(١)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔اس سے مراد اصنام(بت)ہیں ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حشر میں اصنام کو بھی اٹھائے گا ان کے ساتھ روحیں ہونگی اور ان کے ساتھ ان کے شیاطین ہونگے۔۔۔۔۔
(٢)مقاتل نے کہا ومایشعرون سے مراد کفار ہیں وہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائیگا۔۔
(زاد المیسر ج ٤)
امام ٖفخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی لکھتے ہیں:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصنام (بتوں)کی کئی صفات بیان فرمائی ہیں۔۔
(تفسیر کبیر ج ٧)
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی رقمطراز ہیں:
اموات غیر احیاء سے مراد اصنام (بت)ہیںان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ سنتے اور دیکھتے ہیں۔یعنی وہ جمادات ہیں۔۔۔
(الجامع الاحکام القرآن)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی فرماتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ یہ اصنام (بت)جن کی کفار اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود پیدا کئے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اتعبدون ماتنحنون۔۔۔۔کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو جن کوتم خود تراشتے ہو۔
(تفسیر ابن کثیر ج٢)
شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی نے بھی فتح القدیر میں اموات غیر احیاء کا مصداق اصنام(بتوں )کو ٹھرایا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ تمام معتمد اور قدیم مفسرین نے والذین یدعون کا مصداق بتوں کو قرار دیا ہے اور جن حضرات نے اسکا مصداق انبیاء واولیاء شہدا و صالحین کو قرار دیا ہے یہ غلط اور اپنے ذہن کی اختراع ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ خوارج بدترین مخلوق ہیں جو آیات کافروں کے متعلق نازل ہوتی ہیں وہ انکو مومنین پر چسپاں کرتے ہیں(صحیح بخاری)
اور بعض مفسر حضرات اور مودودی صاحب نے جو آیات بتوں کے متعلق نازل ہوئی ہے اسکو انبیاء ،اولیائ،شہدا ،صالحین پر منطبق کیا ہے العیاذ باللہ۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔

انبیاء ، اولیائ، شہداء اور صالحین کی حیات کا ثبوت:
مودودی صاحب لکھتے ہیں:اب لامحالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اﷲ سے مراد وہ انبیائ، اولیائ، شہدائ، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں۔
مودودی صاحب کا شہداء کو اموات غیراحیاء میں شامل کرنا صراحتاً قرآن عظیم کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے:
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوٰتٌ بَلْ اَحْیَآء ٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ o
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے۔ (البقرہ:١٥٤)
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوٰتًا بَلْ اَحْیَآء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ o
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ گمان (بھی) مت کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیاجاتا ہے۔ (آل عمران: ١٦٩)

اور انبیاء علیہم السلام بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں کیوںکہ جن کی صرف موت فی سبیل اللہ ہے جب وہ زندہ ہیں تو جن کی موت اور حیات دونوں فی سبیل اللہ ہے تو وہ تو بطریق اولیٰ زندہ ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o
آپ کہیے کہ میری نماز اور میرا حج وقربانی، اور میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (سورۃ الانعام: ١٦٢)

اور خصوصیت کے ساتھ قبر میں انبیاء علہیم السلام کی حیات پر یہ حدیث دلیل ہے:
اوس بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اسی دن لوگ بے ہوش ہوں گے، تن اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیوں تمہارا درود مجھ پر پیش کیاجاتا ہے۔ صحابہ نے کہا: آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیاجائے گا، حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ ہوچکا ہوگا! آپ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم کو کھانا حرام فرمادیا ہے۔
(سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٩٠٤٧، سنن النسائی رقم الحدیث: ١٣٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨٥، ١٦٣٦)
حافظ ابن کثیر شافعی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی نے انبیاء علیہم السلام کی حیات کی تصریح کی ہے۔

حافظ عماالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ھ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عاصیوں اور گناہ گاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ ہوجائے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ کے پاس آکر استغفار کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کریں کہ آپ بھی ان کے لیے درخواست کریں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پائیں گے۔ مفسرین کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ ان میں الشیخ ابو منصور الصباغ بھی ہیں، انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں عتبی کی یہ مشہور حکایت لکھی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی نے آکر کہا: السلام علیک یا رسول اللہ، میں نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد سنا ہے: ولو انھم اذظلمو اانفسھم جاء و ک۔ الآیہ۔ اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں اور اپنے گناہ پر
اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے والا ہوں، پھر اس نے دو اشعار پڑھے:
اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں.....................
جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے
میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں
اسی میں عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف وکرم ہے

پھر وہ اعرابی چلا گیا، عتبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی، میں نے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا: اے عتبی! اس اعرابی کے پاس جاکر اس کو خوشخبری دو کہ اللہ نے اس کی مغفرت کردی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر ج١ ص ٥٨٩، الجامع لاحکام القرآن ج٥ ص ٢٦٥، البحر الحمیط ج ٣ ص ٦٩٤، مدارک التنزیل علیٰ ہامش الخازن ج١ ص ٣٩٩)

نوٹ :تفسیر ابن کثیر کو راجح و اعلیٰ مفسر ماننے والے حضرات اس پر ضرور غو کریں!!!

مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیا وی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے، اس کے بعد مفتی صاحب نے بھی عتبی کی مذکورہ الصدر حکایت بیان کی۔ (معارف القرآن ج٢ ص ٤٦٠، ٤٥٩، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی)۔

ان آیات، احادیث اور ایسے علماء کی تصریحات سے، جن کی ثقاہت مودودی صاحب اور ان بعض مفسرین کے نزدیک بھی مسلم ہے، یہ ثابت ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام اور شہداء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں، اور رہے اولیاء کرام اور صالحین سو وہ بھی اپنی قبروں میں برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو قبروں میں ثواب ہوتا ہے ۔ اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ انبیاء ، شہدائ، اولیاء اور صالحین کو اموات غیر احیاء کا مصداق قرار دینا باطل ہے، اموات غیر احیاء کا مصداق صرف بت ہیں جن میں حیات کی کوئی رمق نہیں ہے۔اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام حیات ہیں اور ان سے استمداد کرناجائز ہے۔
اب محترم قارئین :میں آپ ہی سے پوچھتاہوں کہ راہ ہدایت پرچلنے کاگُر کسی انسٹیٹوٹ میں سکھایاجاتاہے یا یہ رب تعالی کی عطاو توفیق ہے!!! تو یقینا آپ کا جواب ہوگاکہ یہ توفیق من اللہ ہے ۔میں نے نہایت عرق ریزی سے آپ تک خالصتا علم دین کی نیت سے یہ سب پیش کیا لیکن ایک طبقہ ہے کہ وہ ماننے کوتیارہی نہیں ۔ان کے سامنے حقائق رکھیں تو وہ ایسی عبث و بے معنٰی اعتراض کا دروازہ کھولتاہے کہ پڑھنا والا ،سمجھنے والا جان جاتاہے کہ یہ احمقوں کی دنیا کے وہ مکین ہیں جہاں سچ بولنا منع ہے ۔لیکن کیا کروں ہمارے دین نے ،ہمارے مذہب نے سچ بولنے کی عادت ڈالی ہے جو ہماری فطرت میں شامل ہے اور ااپ جانتے ہیں فطرت کبھی بدلتی نہیں ۔اگر چہ یہاں سچ بولنا منع ہے ۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.