خرید و فروخت جس طرح زبان کے
ذریعہ ہو سکتی ہے اسی طرح بوقت ضرورت مراسلت اور خط و کتابت کے ذریعہ بھی
کی جا سکتی ہے،بشرطیکہ بیچی جانے والی چیزاور اس کی قیمت تحریر کے ذریعہ
مناسب طورپر متعین کردی جائے اور معاملہ میں ایسا ابہام باقی نہ رہے کہ
آئندہ نزاع کا اندیشہ رہ جائے، البتہ ضروری ہے کہ اس صورت میں خریدی اور
بیچی جانے والی چیز سونے چاندی کے قبیل سے نہ ہویا دونوں کی جنس ایک نہ
ہوکہ ہم جنس چیزوں کی خریدوفروخت میں سامان اورقیمت پرایک ہی مجلس میںقبضہ
ہوجانا ضرور ی ہے۔
تحریر کے ذریعہ خریدوفروخت کی بابت علامہ شامی(رح) کا بیان ہے:
’’ اور خریدوفروخت کا معاملہ فریقین کی جانب سے تحریری شکل میں ہو سکتا ہے
تو اگر خرید نے والے نے یہ لکھ دیا کہ میں نے اتنے میں تیرے فلاں غلام کو
خرید لیا اور بیچنے والے نے بھی تحریری شکل میں اپنی رضامندی کا اظہار کر
دیا تو اس معاملہ پر بیع کا اطلاق ہوگا۔‘‘﴿ردالمحتار:۴،۲۱۵ ﴾
جس طرح تحریر کے ذریعہ خریدوفروخت درست ہے اسی طرح ٹیلی فون کا حکم بھی
ہوگا، اس لئے کہ تحریر اور ٹیلی فون دونوں میں قریبی مماثلت اور یکسانیت
پائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اسی طرح فیکس کے ذریعہ بھی خریدو فروخت کا
معاملہ جائز ہوگا، فی زمانہ فون، فیکس اور مراسلت کے ذریعہ بیرون ملک اور
اندرون ملک ایک شہرسے دوسرے شہرجوخریدو فروخت کی جاتی ہے وہ جائز و درست
ہے۔
نمک لگائے ہوئے چمڑےکی خرید و فروخت
بحمداللہ چمڑے کی تجارت میں آج بھی مسلمانوں کا بہتر تناسب ہے، چمڑااگر
ایسے جانور سے حاصل کیاگیا ہو جس کو شرعی طورپرذبح کیاتھا تب کوئی قباحت
نہیں،ایسے چمڑے پاک اورقابل خریدو فروخت ہیں، لیکن اگر مردار کے چمڑے ہوں
تو گوشت کی طرح یہ چمڑے بھی ناپاک ہیں اور ان کی خرید و فروخت جائز نہیں،
مسلمان تاجران چرم کے لئے یہ پہلو ہندوستان کے ماحول میں خاصا دشوار
ہے،کیونکہ ایک کثیر تعداد مشرکین کے ذبیحوں سے حاصل ہونے والے چمڑوں کی
ہوتی ہے اس لئے مسلمان تاجران چرم کو چاہئے کہ ایسے چمڑوں کو اولاً ان کے
مالک سے کچھ اجرت لے کر نمک لگادیں اور پھر انہیںخریدکرلیں،کیونکہ مردارکے
چمڑے بھی دباغت سے پاک ہو جاتے ہیں اور دباغت کے لئے نمک کا لگانا کافی ہے،
دار قطنی(رح) نے حضرت عائشہ(رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ö نے فرمایا:
’’مردہ جانوروں کے ایسے چمڑوں سے فائدہ اٹھائو جن کو مٹی،راکھ ،نمک یاکسی
اور شے سے دباغت دے دی جائے بشرطیکہ اس سے اس کے باقی رہنے کی صلاحیت بڑھ
جائے۔‘‘
چنانچہ فقہائ لکھتے ہیں:
’’ دباغت ایسے عمل کا نام ہے کہ پانی لگنے کے بعد چمڑا دوبارہ خراب نہ ہو،
دباغت کی دو قسم ہے، دباغت حقیقی، دباغت حکمی، دباغت حقیقی کا مطلب یہ ہے
کہ ایسی چیز سے دباغت دی جائے جس کی کوئی قیمت ہو،جیسے شب،قرظ،عفص،انارکے
چھلکے ، درخت کی کھال،نمک یا اسی طرح کی دوسری چیزوں سے دباغت کے عمل کو
انجام دیا جائے۔‘‘ ﴿ البحر الر ا ئق:۱،۹۹﴾
سرکاری راشن زیادہ قیمت میں فروخت کرنا
حکومت عوام کو کم قیمت میں بعض اشیائ ضروریہ کی فراہمی کے لئے راشننگ نظام
قائم کرتی ہے اور مخصوص ڈیلروں کو یہ سامان حوالہ کرتی ہے،تاکہ عوام وہاں
سے یہ اشیائ خرید کر سکیں، اخلاقی انحطاط اورزوا ل اس درجہ ہوچکا ہے کہ
تجار اس قسم کی اشیائ بچانے کی کوشش کرتے ہیں یاتو حق داروں کو کسی بہانہ
سے محروم کرتے ہیں ، یاکسی نے اپنا راشن نہیں لیا تو اس سے فائدہ اٹھاتے
ہیں اور غیر قانونی راستہ سے اسی کو زیادہ قیمت میں فروخت کر دیتے ہیں۔
یہ صورت قطعاًجائز نہیں کیونکہ اس صورت میں ڈیلرز محض حکومت کے وکیل ہیں،
اصل فروخت کنندہ حکومت ہے، لہٰذاحکومت نے جب ایک قیمت متعین کردی ہے کہ اس
سے زیادہ میں فروخت نہ کیا جائے اور یہ بھی متعین کر دیا ہے کہ کن اشخاص کے
ہاتھ کتنا فروخت کیا جائے، تو اب ڈیلرز قانوناً اور شرعاً اس کے پابند ہیں،
نہ اس کی خلافت ورزی جائز ہے اور نہ اس سے حاصل ہونے والا نفع حلال۔
صرف نمونہ دکھاکر خریدوفروخت
کارخانوں میں جو اشیائ بنائی جاتی ہیں، وہ چو نکہ مشین یا بنے ہوئے فریم پر
بنتی ہیں، اس لئے ان کی مصنوعات کو فروخت کرتے ہوئے نمونہ دکھانے پر اکتفا
کر دیا جاتا ہے اور خریدار اسی کو دیکھ کر سامان کا آرڈر دیتا ہے، فقہائ نے
خریدار کو، اگر ا س نے سامان نہ دیکھا تھا، سامان دیکھنے کے بعد اس معاملہ
کے ردکر دینے کا اختیار دیا ہے،جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’خیار رئو یت‘‘ کہا
جاتا ہے،موجودہ حالات میں سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مصنوعات کو دیکھنے کے بعد
جو اسی نمونہ پر بنی ہوئی ہوں خریدار کے لئے اس معاملہ سے دستبردار ہوجانے
کا اختیار حاصل ہوگا؟ اگر واقعی خریدار کو یہ اختیار دیا جائے تو مال تیار
کرنے والے کو خاصی دقت اور نقصان کا سامنا ہوگا۔
فقہائ کے یہاں اس سلسلہ میں یہ صراحت ملتی ہے کہ نمونہ کو دیکھ لینا پورے
مال کودیکھ لینے کے درجہ میں ہے اور خریدار کے لئے اس سے دستبردار ہونے کی
گنجائش نہیں﴿الاشباہ والنظائرلابن نجیم:ص۹۷﴾
ہدایہ میں ہے:
’’خریدوفروخت کی جانے والی اشیائ کے افراد میں اگر قدرو قیمت کا قابل لحاظ
فرق نہ ہو جیسے ناپی تولی جانے والی چیزیں، اور اس کی علامت یہ ہے کہ ان کا
نمونہ پیش کیا جائے تو ایک کو دیکھ لینا کفایت کر جائے گا لیکن اگر بقیہ
دیکھے ہوئے نمونہ کے مقابلہ میں کمتر نکل گئے تو ایسی صورت میں معاملہ کو
رد کر دینے کا اختیار حاصل ہو گا۔‘‘﴿ج۳ص۶۳﴾
پس اگر نمونہ کے مطابق مال ہو تو خریدار اس کو رد نہیں کر سکتا اور اگر
سامان نمونہ سے کمتر درجہ کا ہے تو عیب کی بنائ پر واپس کر سکتا ہے۔
گارنٹی کے ساتھ فروخت
اپنی مصنوعات کو فروغ دینے اور گاہکوں کی ترغیب کے لئے آج کل یہ صورت مروّج
ہے کہ خریدار کو ایک مدت تک سامان کی صلاح و مرمت کا تیقن دیا جاتا ہے،یہ
مسئلہ اس لئے اہم ہے کہ شریعت نے خرید و فروخت میں کسی اضافی شرط کو جائز
قرار نہیں دیا ہے، اسی کا تقاضایہ ہے کہ اس قسم کی گارنٹی کی وجہ سے یہ
معاملہ ناجائز قرار پائے، لیکن فقہائ کے نزدیک شریعت کی اس ممانعت کا منشائ
امکانی نزاع کا دروازہ بند کرنا ہے اور جو شرطیں معروف و مروج ہو جاتی ہیں،
وہ نزاع کا باعث نہیں بنتی ہیں لہٰذا ایسی شرطوں کو جائز اور قابل عمل قرار
دیا گیا ہے صاحب ہدایہ ایسی شرطوں کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الاان یکون متعارفا۔‘‘
’’لیکن اگر وہ مروّج ہوتو جائز ہے۔‘‘﴿ج۱ص۲۴۴﴾
پس مصنوعات کے ساتھ گارنٹی دینا اور اس سے فائدہ اُٹھانا دونوں ہی جائز
ہیں۔
ریشم اور شہد کے کیڑوں کی خریدوفروخت
کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض بھی اس زمانہ میں’’متاع خریدوفروخت‘‘ بن گئے
ہیں، ان کی پرورش بھی کی جاتی ہے اور ان کے ذریعہ ریشم،شہد اور بعض ادویہ
حاصل کی جاتی ہیں، ریشم کے کیڑے،شہد کی مکھیاں اور سانپ اس سلسلہ میں خصوصی
طور پر قابل ذکر ہیں، ابتدائً فقہائ نے ان کی خریدوفروخت کو منع کیا تھا کہ
بہ ظاہر یہ نفع آورنہ تھے اور جن اشیائ میں نفع پہنچانے کی صلاحیت نہ ہووہ
نہ مال ہیں اور نہ ان کی خریدوفروخت کا کوئی فائدہ ہے، لیکن جوں جوں اس طرح
کی اشیائ قابل انتفاع ہونے لگیں اور ان سے معاشی مفاد متعلق ہوتاگیا، فقہائ
نے ان کی خریدوفروخت کی بھی اجازت دے دی، اس سلسلہ میں فقہائ کی تصریحات
موجود ہیں:
’’اور ریشم کے کیڑوں کو بیچنا جائز ہے اور اس کیڑے کے بیضہ یعنی بیج کی بھی
فروخت ہو سکتی ہے، بیضہ سے مراد وہ خول ہے جس میں ریشم کے کیڑے پرورش پاتے
ہیں، گرفت میں لائی ہوئی شہد کی مکھی کی خرید وفروخت بھی جائزہے، یہ امام
محمد(رح) کا مسلک ہے ائمہ ثلاثہ(رح) کا بھی یہی مذہب اور اسی پر فتویٰ
ہے۔‘‘﴿درمختار:۴،۴۲۱﴾
’’سانپوں کی خریدوفروخت جائز ہے جبکہ ان سے ادویہ تیار کی جاتی ہوں نیز
بحری و بری جانوروں میں سے جن کی کھال اور ہڈی قابل انتفاع ہے ان کی خریدو
فروخت بھی درست ہے۔‘‘﴿ردالمحتار:۴،۴۲۱﴾
اس لئے فی زمانہ جن کار آمد حشرات کی خریدوفروخت مروّج ہو جائے ان کی
خریدوفروخت جائز ہے۔ |