28مئی 1998ءکو 3 بجکر 16منٹ پر
جب پاکستان نے پہلی دفعہ چاغی بلوچستان میں اپنا کامیاب نیوکلئیر ٹیسٹ مکمل
کیا ۔ ایسا کیوں ہوا، اس کی کیا ضرورت تھی ، کیا ہم اس ایٹم بم کی وجہ سے
اپنے کردار و اہمیت کو بہتر کر سکے ؟
جب 98ءمیں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کہ خود کو ایٹمی قوت ثابت کروا یا
تھا تب ہم بچے تھے ،ہر طرف خوشی کا سماں تھا جس کی جھلک اس وقت سرحد پر
کھڑے فوجی سپاہیوں ،طالب علموں اور تمام عوام کیلئے جذباتی کیفیات پیدا
کرنے کا باعث تھا ،ہم سکول میں جاتے تو ہمارے اساتذہ بڑے فخر سے ہمیں یہ
بتاتے کہ اب پاکستان و کشمیر کی طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا
،اب ہم بھارت سے اپنے کشمیریوں کو بھی آزاد کروا لیں گے چونکہ اس وقت کارگل
سیکٹر پر دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی تھیں اور ملک بھر
میں جنگ چھڑنے کا قوی امکان موجود تھا ،اس لیے ہمیں یہ ایٹم بم کوئی ایسی
چیز معلوم ہو رہی تھی کہ جس سے ہم اپنے ہر ایک دشمن کو ڈرا دھمکا سکتے تھے
،ہمیں یہ باور کروایا جا رہا تھا کہ اب کوئی دشمن ملک ہماری طرف حقارت کی
نگاہ نہیں ڈال سکے گا ، صرف اپنا نہیں بم نہیں ہے بلکہ یہ بتایا جا رہا تھا
کہ یہ تو اسلامی بم ہے جو اسلام کے نام لیواﺅں کی حفاظت کرے گا ،جس خطہ میں
بھی مسلمانوں کو ہماری ضرورت پڑے گی ہم حاضر ہو جائیں گے۔ لیکن یہ کیا ہوا
۔۔!کچھ ہی وقت کے بعد صورت حال تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی ، پڑوسی ملک
بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کم نہ کیا بلکہ دن بدن اس میں بھی شدت
آتی ہی گئی جو آج بھی جاری و ساری ہے، امریکہ نے ہم سے اڈے لے کربرادر
اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کر دیا ،عراق کونیست و نابود کیا ،کئی بار
خود ہم پر چڑھ دوڑاتب سے ہماری ایک نہ چلنے دی گئی ،گو کہ ایٹم بم
ٹیکنالوجی ہمارے پاس آج بھی موجود ہے لیکن آخر ہمیں اتنا بے بس کیوں کر دیا
گیا کہ ہم ترقی کرنے کے بجائے دن بدن پیچھے کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں ،ہمارا
معاشی نظام بدتر کر دیا گیا ،آئی ایم ایف اور کیری لوگر نے ہمیں آج بھی
دبوچ رکھا ہے،ہماری اپنی سرحدوں پر حملے کر کہ درجنوں جوان شہید کر دیئے
جاتے ہیں،ہماری سرحدوں کے اندر غیر ملکی افواج داخل ہو کر بڑی کاروائی تک
کر جاتی ہیں، لیکن ہم بے بس۔۔آخر یہ جدید ٹیکنالوجی کس کام کی جب ہمارے
جذبات ہی مرجائیں۔۔! پڑوسی ملک پانی میں رکاوٹ ڈال کر ہماری زرخیز زمینوں
کو سہرا بنارہا ہے لیکن ہمارے اپنے اندرونی اختلافات ہی ختم ہونے میں نہیں
آرہے ۔اب دیکھتے ہیں اس پس منظر کی طرف جس کے تحت پاکستان نے ایٹم بنایا
تھا ۔
بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ڈرانے کی
کوششیں کی کہ وہ پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیں گے۔ اس دفاع کے لیے
پاکستان کے لیے ضروری ہو چکا تھا کہ وہ بھی ایٹمی طاقت بنے اور اپنے حریف
ملک کو بتا دے کہ وہ کسی سے کم نہیں پاکستان کے پاس بھی ایسے نیوکلئیر
ہتھیار موجود ہیں اور ایسے با صلاحیت لوگ موجود ہیں کہ جو ان نیوکلئیر
ہتھیاروں کو استعمال کر کے ملک کو ایٹمی طاقت بنا سکتے ہیں ۔
اس ایٹم بم کی اس وقت ضرورت یہ تھی کہ امریکہ ،اسرائیل ،بھارت اور دوسری
اسلام دشمن طاقتوں نے پاکستان کے وجود کو مٹانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی
تھیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہو چکا تھا کہ وہ اپنی حیثیت کو
برقرار رکھنے کیلئے اپنے دشمن کو ایسا وار کر کے دکھائے کہ وہ کسی سے کم
نہیں ہے اور جو بھی طاقتیں اس ملک پر میلی نگاہیں رکھے ہوئے ہیں ان کے لیے
وارننگ تھی کہ وہ پاکستان کو کسی بھی لحاظ سے کم نہ سمجھیں کیونکہ پاکستان
بھی اب ایک ایٹمی طاقت بن چکاتھا ۔ گو کہ ایٹمی بم بنا نے کا ہر گز یہ مطلب
نہیں کہ اس سے ناجائیز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے لیکن ملکی سالمیت کی
حفاظت کیلئے ایٹم بم ایک موثر ہتھیاربنا۔ اس ایٹمی دھماکے کا مقصد کوئی خون
خرابہ کرنا نہیں تھا اور نہ ہی کوئی فساد پھیلانا تھا بلکہ یہ صرف اسلام کی
سربلندی اور دین و ملک کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا۔
جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنا مسلمانوں کیلئے اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ
ہمار ے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ صفیں بندھے رکھو اور ہمیشہ تیار رہو ۔
دشمن کی حرکات کی خبر رکھو اور ان کے خلاف ہتھیار تیار رکھو اور ہر طرح کی
جنگی حکمت عملی اختیار کیے رکھو ۔ سو نبی پاکﷺ کے فرمان کو مدنظر رکھتے
ہوئے دشمنان اسلام کی حرکات کی جوابی حکمت عملی یہی تھی کہ انہیں اینٹ کا
جواب پتھر سے دیا جائے لیکن کیا آج یہ سوال نہیں اٹھتے کہ ایٹم بم کو بنے
14 سال ہو چکے لیکن کیا اس ایٹم بم کی وجہ سے پاکستان و کشمیر کے لوگ دنیا
کی ظلمت و بربریت سے بچ سکے ہیں؟کیا ہماری سرحدیں محفوظ ہیں ؟ اس وقت کی یہ
جدید ٹیکنالوجی تو ہم نے حاصل لی تھی لیکن کیا ہم اپنے عوام کیلئے مناسب
سہولیات کا انتظام کر سکے ہیں؟پاکستان و کشمیر کو موجودہ حالات و مسائل
دیکھ کہ ایک بڑا سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک طرف ملک کے پاس نام
نہاد جدید ٹیکنالوجی تو موجود ہے لیکن دوسری طرف ملک اندھیروں میں کیوں ڈوب
رہا ہے،لوڈ شیدنگ جیسے بڑے مسائل نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے ،لوگ اب
یہ تک کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایٹم بم سے مطلب نہیں ہے۔اے حکمرانو۔۔! بس ہمیں
ہمارے بنیادی حقوق ہی دے دو۔
جب ہم نے ایٹم بم بنایا تھا اس وقت اس کی قدر منزلت بہت زیادہ تھی اس کی
اہمیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان
اور ان کی ٹیم کی کمال مہارت ومہربانی کی وجہ سے ہم نے ایٹمی ٹیکنالوجی
حاصل کی تھی لیکن اب میرے خیال میں دنیا ٹیکنالوجی میں بہت آگے نکل چکی ہے
،اب ملکوں کو فوجی قوت سے فتح کرنے کا رواج کم ہو رہا ہے اب جدید سیٹلائیٹس
کے ذریعے ملکوں کی حفاظت کی جاتی ہے ، بڑی جنگیں لڑنے کے بجائے ڈرون حملوں
جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے ملکوں کی پالیسیاں تبدیل
کی جاتی ہیں ،دنیا گلوبل ویلج بننے کی وجہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل
ممالک بھی اب اپنے تھینک ٹینکس کے ذریعے دوسرے ملکوں کی پالیسیوںپر اثر
انداز ہونے کیلئے حکمت عملی بنا کر ان پر مختلف طریقوں سےحملہ آور ہو رہے
ہیں لیکن ہم شاید ابھی بھی خواب غفلت میں پڑے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ
اسلام کی سربلندی کیلئے اور ملک پاکستان و ریاست کشمیر کو اس کے اصولی حقوق
دلانے کیلئے ،عوام کو ریلیف دینے کیلئے مناسب حکمت عملی ترتیب دی جانی
چاہیے جس کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک و ریاست کی بھاگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں ہو
جو اسلام کی سربلندی کیلئے مخلص ہوں نہ کہ ایسے لوگ جو پاکستان بننے کے بعد
سے اب تک ذاتی مفادات کیلئے پیش پیش تھے وہی لوگ نئے روپ میں سامنے آجائیں
چونکہ تبدیلی کا وقت آتا ہوا نظر آرہا ہے اس لیے سب کو مل کر مخلصانہ طور
پرتبدیلی کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ |