میرے اساتذہ

استاد کا لفظ سُنتے ہی باشعور ذہنوں میں ادب آداب کے غبارے پھوٹتے ہیں اور ہم جیسے اوسط اذہان میں خوف و ہراس کے مِلے جلے جذبات کا طلاطم خیز طوفان اُٹھتا ہے۔ آج حالت جیسی بھی ہو لیکن کل تک تو یہی پیشہ شیوہِ پیغمبری تھا۔

ہم اگر اپنی بات کریں تو جب سے یاداشت سنبھالی ، خود کو عورتوں کی آغوش میں پایا۔ آغوش صرف با محاورہ استعمال ہے مطلب گرلز سکول میں تعلیم حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ ہم فطرتاََ ڈرپوک اور اپنی جنس کی محفلوں میں بے چینی محسوس کرنے والے واقع ہوئے ہیں۔ دادا تو ایک مرتبہ بزور بوائز پرائمری سکول میں لے گئے ، لیکن اللہ بھلا کرے تین کلاسوں کے اکلوتے استاد صاحب کا کہ ایک بچے کوعین ہماری نظروں کے سامنے گدھے کی طرح پیٹ رہے تھے اور ہم پہ بروزِ اول ہی اس عقوبت خانے کا راز افشاں ہوگیا ۔ پھر آﺅ دیکھا نہ تاﺅ بھاگے اپنی لنکا کی راہ!، بھاگنے کے دوران ہم نے اپنا بستہ بھی چند جھاڑیوں کی نظر کیا تھا ۔ جو موجودہ تعلیم کے خلاف ہماری پہلی بغاوت قرار پائی۔ اب ہم تعلیم سے بیزار گھر میں پڑ ے رہے ، خیر اُس وقت روسو تک رسائی نہ تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اُس صاحب کے وچار بھی ہماری طرح تھے ۔ وہ بھی تعلیم کو وقت کی بربادی قرار دیتے تھے۔ کچھ منچلے تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ" تعلیم سے ہم آدھی زندگی ضائع کرکے یہ سیکھتے ہیں کہ باقی آدھی زندگی کس طرح ضائع کی جائے" ۔ سکول سے بھاگنے اور کتابیں جھاڑی بُرد کرنے کے بعد ہمارا بھی یہی فلسفہ تھا۔ مگر جب پڑوس کی آپا نے اپنے ساتھ سکول جانے کے لئے اصرار کیا ،تو ہم سے انکار نہ ہوسکا۔ اور ہمارے اکثر دوستوں کو معلوم ہے کہ ہم صنفِ نازک کو انکار آج بھی کفر کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہم نے اُنکا دل ٹوٹنے اور اپنا مستقبل مزید تاریک ہونے سے بچا لیا۔ اب یہ سکو ل ہمارے لئے بازیچہ اطفال ٹھہرا۔ یہی ہمارے لیے کنڈر گارڈن اور یہی مونٹیسوری تھا۔ کیونکہ جب سینکڑوں چندا اپنا جھرمٹ بنائیں اور وہاں ایک اکیلا تارا بیچ میں چمکے ، تو کافی خود اعتمادی محسوس کرتاہے۔ اکیلا بھی با محاورہ استعمال ہے ورنہ اس کلاس میں ہمارے جنس کی تعداد چار تھی۔اس سکول کی ہیڈمسڑیس ایک مجرد آپا تھی جسے ہم ۔۔۔ آپا جی کہتے تھے۔اُس بیچاری نے تمام عمر چائے اور کسی مرد کو منہ نہیں لگایا۔۔ہمارے کلاس کی مِس، مِس"ج" ہر سال ہماری کلاس کے ساتھ پاس ہوتی ، اور نئے نصاب سے جتنی تکا لیف اور اذیتیں ہمیں ہوتی اُتنی ہی پریشانیاں اُس بیچاری کے پَلے بھی پڑتیں۔۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے دا دا نا مرحوم کا کہ جو ریلوے کے ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر تھے، اور ریلوے ہی کی زبان میں ہمیں انگریزی پڑھاتے، البتہ سلوک کلاس فور سٹاف سا کرتے۔۔ مگر اُس وقت ہمارے نصاب میں بھی جھوٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، کیونکہ جب دادا جان" ناٹی چپاتی" پڑھاتے تو بیچارے یہ سمجھانے سے قاصر رہتے کہ روٹی بھاگ گئی تھی یا پرات۔۔ مگر کلاس میں پیاس کوّا ہمارے ذہن میں ساری عمر پیاسا ہی رہا۔۔ جب بھی کہا نی پڑھائی جاتی ہم بیچ کہانی سخت پیاس محسوس کرتے اور پھر پانی پینے کے لئے اُٹھ کر باہر چلے جاتے ، جب واپس آتے تو کوّا پانی پی چکا ہوتا۔۔ہماری مس " ج" نو بیاہتی دُلہن تھی اور اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے مس سے مِسزبنی تو کو ئی مبالعہ نہیں ہوگا کیونکہ جب ہم KG میں تھے تو مِس ہی تھی اور پھر چند چھٹیوں کے بعد مسز۔۔ بن گئی ، خیر اُس وقت ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ چند چھٹیاں بندے کا نام بھی بدل سکتی ہے۔ البتہ بعد میں پتہ چلا کہ بندی کے کام بھی بدل دیتی ہے۔۔ خیر ایک غیر مرد کے نام سے پکارے جانے پر ہمیں کافی بُرا لگتا کیونکہ وہ مِس ہماری تھی اور نام اور کا لگا لیا۔۔۔۔ او ر جب اُسکے نام کا دُم چَھلا چھٹی کے وقت اُسے لینے کے لیے آتا تو نجانے کیوں دل قتل کرنے کے لئے بے اختیار مچلتاہے۔

اب شومئی قسمت دیکھئے ہماری جونیر کلاس کو جو مِس نصیب ہوئی شکل سے پھلجہڑی تھی مگراتنی کٹور کہ بچے کو بھی بوسے کے قابل نہیں سمجھتی، ورنہ اپنی مِس نے توہمیں کئی مرتبہ شفقتِ استادانہ سے سرِ عام چوما تھا۔ اور کسی نے اُف تک نہیں کہا۔۔ مگر یہ نک چڑھی املی اور بھنے ہوئے چنے کھانے سے فرصت پاتی تو ہم جیسے بچوں سے پیار اور شفقت پر توجہ دیتی۔۔ مگر جب بھی گھر سے کھانا منگوانا ہوتا، تو قابِل ِ اعتماد بَس ہم ہی تھے۔۔ ۔ تحکمانہ لہجے میں بُلاکر کھانا لانے کے لئے روانہ کردیتی، اور خدا گواہ ہے کہ دو تین اُنگلیاں دال چاٹنے کے سوا کسی نے اُس کا ٹفن بھی کھولا ہو تو حرام ہے۔۔۔۔ اب ہماری طوطا چشمی دیکھیے کہ جب دوستانے بڑھنے لگے تو پڑوس کی آپا در خوردِ اعتناءنہ رہی اور ہم نے اپنی ایک الگ نگری بسالی۔۔ ہمارے سکول کے سامنے ایک اونچی ڈھیری تھی جس پر کلاس سے زیادہ بچے ہمہ وقت موجود رہتے۔۔ یہاں لوگ اپنے گھروں کا کوڑا اور بچے اپنے پیٹ کا بوجھ ڈالتے۔۔خیر اُستانیوں کے لئے جدید فلش موجود تھے، جو پاکستانی عوام کی زبان کی طرح ہمیشہ مقفل رہتے۔۔یہ بھی سچ ہے کہ کافی عرصے تک ہم بڑوں کو اِن جسمانی تقاضوں سے پاک سمجھتے رہے اور ان فلشوں کا مصرف سمجھ سے بالا ہی رہا۔۔اس سکول میں تضحیک کا نشانہ ہم سے سینئر کلاس کی مِس، مِس "ش" رہتی اپنی سیاہ جلد اور اُبھرے ہوئے دانتوں کی وجہ سے سارا سکول اُس پہ چُھپ چُھپ کے ہنستا تھا۔۔لیکن حد درجہ منکسر المزاج اور پیار کرنے والی تھی، وہ جس بچے سے بھی سرِ راہ پیار کرلیتی تو سارا دن کلاس میں اُس پر بھپتیاں کسی جاتی۔۔ایک دفعہ ہمیں چوما تو سارا دن روہانی سے صورت بنا کر کلاس فیلوز کی باتیں سُنیں اور چُھٹی کے وقت تک اپنا گال آستین سے صاف کرتے کرتے گلاب جامن بنا لیا۔۔ گال رگڑتے ہوئے اُن کی شان میں بھی مغلظات بکتے رہے مگر ، یہ سنی سنائی تھیں اور ان کے مطالب سے ہم قطعی طور پر نا آشنا تھے۔۔وہ بیچاری اتنی پارسا تھی کہ جب سکول کے سامنے بنے ہوئے بنگلے کا مالک عین سکول کے اوقات میں اوپر چڑھ کر بنگلے کا معائنہ کرتا ، اور اُستانیوں کی دید میں اپنے ایمان کی جڑ کاٹتاتویہ بیچاری بچوں کا گول دائرہ اپنے ارد گرد کھڑا کرتی اور خود کو دزدیدہ نگاہو ں سے بچاتی۔پھر جب ہماری ترقی چوتھی جماعت میں ہوئی تو بڑی آپا جی کو ہماری موجودگی ایک آنکھ نہ بھائی شاید یہ ہماری جنس سے اُنکی دیرینہ دُشمنی تھی یا سکول کی بچیوں کا حفظ ِ ماتقدم، مگر پہلے اُنھوں نے ایک اشارے سی بات کی ، کہ چوتھی کلاس کے لڑکے کسی مردانہ سکول میں داخلہ لے لیں ، جسے ہم اپنی مِس کی زبانی افواہ ہی سمجھے۔ ہماری شکل و صورت کی معصومیت اپنی جگہ مگر بڑی کلاس کا لیبل ہم پہ لگ چکا تھا۔۔اور پھر جب ہماری مِس نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ڈیڈلائن دی تو ہم سے (وہاں) رہا نہیں گیا۔۔اور پھر: وہی ہوتا ہے جو مِس کے رجسٹر میں لکھا ہوتا ہے۔۔۔ اور یوں ہم اس محفل سے نکل گئے۔۔۔

ہمارے ایک پڑوسی اُسی زمانے میں سپاہی کے اعزازی رینک کے ساتھ آرمی سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اور ایک پبلک سکول کھول کر پرنسپل بن گئے۔ایک جناح کیپ اور سٹک شاید اعزازی رینک کے ساتھ ملے تھے ہمہ وقت اُس کی شان میں اضافہ کرتے رہتے۔ گرلز سکول سے نکلنے کے بعد دادا نے اُنگلی سے پکڑ کر اُسی ریٹائر فوجی کے حوالے کیا، وہ تو اچھا ہوا کہ وہاں ہماری کلاس میں اُسی تناسب سے جنس مخالف تھیں جس تناسب سے اوّل الذکر سکول میں ہماری جنس تھی۔اور پھر اُن کی قربت میں باقی تعلیم حاصل کی۔۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لڑکیوں کو مرعوب کرنے کے لئے co-education میں لڑکے زیادہ جان مارتے ہیں ۔۔ ورنہ ہمارے تعلیمی کیرئیر کو دیکھ لیجئے۔۔ جب گرلز سکو ل میں تھے تو چوتھی تک فرسٹ ان کلا س اور فرسٹ اِن سکول آتے رہے ۔۔پبلک سکول میں گئے تو، بہترین دس میں شامِل رہے۔۔ مگر جب سے segregation والے تعلیمی نظام سے پالا پڑا ، تو تعلیمی کیرئیر پر پالا ہی پڑ گیا۔ پبلک سکول میں جابر اساتذہ ہمیں سزا دینے کے لئے ہی سکول آتے، ہر روز اسمبلی میں ہماری بے عزتی فرضِ عین سمجھی جاتی، جیسا کہ قومی اسمبلی میں آج کل وزیرِ ریلوے کی۔۔۔ ہم نے " کل کہاں تھے؟،کیوں غیر حاضر رہتے ہو؟" قسم کے سوالات کو دخل در معقولات ہی سمجھا، اور کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا ۔۔ایک استاد صاحب جو پبلک سکول میں انگلش کے علاوہ سب کچھ پڑھاتے اور سکول سے زیادہ بچوں کو ٹیوشن کا پابند بناتے ، ہم سے کافی چِڑتے تھے۔ کیونکہ ہم سکول کی طرح ٹیوشن سے بھی غیر حاضر رہتے، وہ صاحب سکول کی غیر حاضری تو سہہ جاتے مگر ٹیوشن سے غیر حاضری اپنے رزق پر لات سمجھتے اور پھر لاتوں سے ہمیں سمجھاتے مگر " باتوں کے بھوت لاتوں سے کب مانتے ہیں"۔ ہمارے علاقے میں فوج سے ریٹائرڈ سپاہیوں کو تعلیم یافتہ اور تجربہ کار مانا جاتااور پبلک سکول اُنھیں ہاتھوں ہاتھ لیتا۔۔ ایسے ہی ایک استاد صاحب جب اپنے افسروں کے سے لہجے میں ہمیں انگلش پڑھاتے تو الفاظ کا حشرکچھ یوں ہوتا: Scorpion (سورپیّن)، Knowledge (کونال ڈگ)، That (ٹِت) اور کبھی کبھی بے خیالی میں Cut کو (کُٹ)بھی کہہ دیتے۔وہ تو بھلا ہو اُن چند طلباءکا جن کے والدین پڑھے لکھے نکلے ۔۔اور پھر ہمارے اُستاد صاحب سکول سے بڑے بے آبرو ہو کر نکلے۔۔ اب کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک بچھو کی خاطر ایک مسلمان نے دوسرے کی روزی بند کردی ۔ بچھو کو خواہ کسی بھی نام سے پکاریں رہتا تو بچھو ہی ہے، اور ڈنک بھی اُسی کمینگی سے مارتا ہے۔۔ مگر ایک اور سپاہی صاحب اُن صاحب کے سچے جانشین ثابت ، خُدا گواہ ہے کہ کسی نے اُن کے مُنہ سے غلط تلفظ سُنا ہو۔ جب بھی سُنی ایک لمبی جمائی کی آہ ہ ہ۔۔ہا۔۔۔۔۔۔ سی آواز سُنی۔

روداد کچھ یوں ہے کہ جب اُستاد صاحب پڑھتے پڑھتے کسی مشکل لفظ کے آس پاس پہنچتے، تو ایک لمبی جمائی لے کر پُلِ صراط سے محفوظ گزر جاتے۔۔ اب اگر کوئی بدتمیز یہ سوال کر تا کہ سر یہ لفظ کیا تھا ۔۔ تو ایک گالی کے ساتھ کہتا ! پہلی دفعہ غور سے سنا کرو اتنا کورس پڑا ہے ،اگر الفاظ دھرائے جائیں تو آدھی کتاب بھی ختم نہیں ہوگی ۔۔ اُنکا مطلوب کچھ سکھانا نہیں بلکہ کتاب ختم کرنا تھا ۔۔ اور شاید آج کل حالات وہی ہیں صرف چہرے بدل گئے ہیں۔ اسی زمانے میں سکول والوں نے ایک آزاد منش استاد خُدا جانے کہاں سے معاشرتی علوم پڑھانے کے لئے ڈھونڈ لیا تھا جو، پاکستان کا جغرافیہ پَڑھانے کے بجائے صنفِ نازک کا موزوںجغرافیہ 36-24-36 ذہن نشین کراتے۔۔ خیر ہمیں اُس صاحب سے جتنی گنجینہئِ معلومات ہاتھ لگا عمر بھر کی شریر اور شریف زندگی گڑارنے کے لئے کافی ہے۔۔ کئی بچوں نے یہ گوہرِ نایاب قسم کی معلومات اپنے والدین تک بھی بہم پہنچائیں، جس پر کئی والدین سیخ پا ہوگئے۔۔ میری ناقص رائے کے مطابق اُن کے سیخ پا ہونے کی اصلی وجہ یہ تھی 36-24-36 کا ذوقِ سلیم تو ہمارا بھی نہیں ، آپ بچوں کا ذوق ہم سے بڑھا رہے ہیں!!۔۔ ورنہ وہ اُستاد صاحب تو بس وہی تعلیم دے رہے تھے جسکے بعد بچے والد کو خبطی سمجھتے ہیں (ذوق کے لحاظ سے)۔

ہمارے اسلامیات کے استاد صاحب جسے اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، کسی دینی مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ پڑھاتے اسلامیات تھے مگر دُشمنی اُردو سے روا رکھتے۔ زمین پر اکڑ اکڑ کر مت چلو کو وہ " زمین پر اُکھڑ اُکھڑ کر مت چلو" بیان کرتے ، اور آج تک ہماری زبان پر اُکھڑ اُکھڑ کر مت چلو چڑھا ہے۔۔ جنازے کی دُعا کان پکڑوا پکڑوا کر یاد کرائی ،مگر اصل مسئلہ بچوں کی نماز جنازہ کی دُعاﺅں میں پیش ہوتا۔۔ بڑے اتنے بڑے ہوکر بھی جنس کی قید دُعاﺅں میں روا نہیں رکھتے، مگر بچوں کو دیکھومرنے کے بعد بھی جنس کے لحاظ سے الگ دُعا۔۔جسے یومیہ پندرہ منٹ مُرغا بن کر بھی یاد نہیں کیا۔۔ہر اُستاد کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرکے سزا دیتے مگر اسلامیات والے مولوی صاحب شر کو کچلنے کے لئے یوںہی دو تین تھپڑ لگا لیتے۔۔

اصل دُرِ نایاب ہمارے اُردو کے اُستاد تھے ۔خُدا اُنھیں اپنی پینشن سے مزہ لینے کا موقع دے ۔اُنھوں نے ہر شعر کا اپنا ہی مطلب کشید کیا تھا۔۔جب فلسفی کو بحث کے اندر خُدا نہیں ملتا تو کچھ اس انداز سے پڑھاتے۔ "شاعر ۔۔اپنے اس شعر میں فرماتا ہے کہ : کئی فلسفی بیٹھے ڈور کو سلجھا رہے ہیں مگر اُنھیں خُدا نہیں مل رہا۔۔اگلا شعر کتاب سے لکھیں!" ہمارے ذہن میں اُس وقت ڈور کا صرف ایک ہی مصرف تھا اور وہ تھا پتنگ اُڑانا۔ڈور کے سلجھانے سے تو ہمیں ڈور ہی ملتی جسے اُنگلیوں پر لپیٹ کر پھر سے پتنگ اُڑانے کی کوشش کرتے۔اور خُدا کے ملنے نہ ملنے کا کیسا سوال!۔۔اب اگر کوئی قابل لڑکا اپنی قابلیت کے زُعم میں سوال کرتا کہ " سر یہ فلسفی کیا ہوتا ہے" تو اُستاد صاحب ناگواری سے جواب دیتے ۔۔مجھے دیکھو میرے جیسا انسان ہوتا ہے!۔۔ اور ہم آخری قطار سے اُس پر نظر ڈال کر دل میں ایک بد دُعا دیتے کہ تجھ جیسے بندے کا تو اللہ کرے کچھ نہ کچھ روز گم ہوتا رہے۔۔ اُستاد صاحب کا پڑھایا ہوا ہم نے جس جس امتحان میں لکھا منہ کی کھائی۔۔باتوں سے بات نکلی ہے تو ایک دوست " ن " صاحب کا ذکر بھی کرتے چلیں ،اُنھیں اللہ صحت اور ترقی نصیب کرے اُردو کے اُستاد ہیں ۔اور اُردو بھی سائنسی طریقے سے پڑھانے کے در پے ہیں۔مطلب پریکٹیکل میتھڈ سے ہے۔۔ اب غالب ، میر اور سودا کو وہ کس طرح پریکٹیکلی پڑھاتے ہیں ہماری سمجھ سے باہر ہے۔۔کیونکہ میڑک کے لڑکے لڑکیاں یہ اشعار اکیلے میں بھی پڑھتے ہوئے جھینپ جاتے ہیں ۔۔ بعض طالبات تو گھونگھٹ نکال کر گالوں پر حیا کی سُرخی بھی بکھیر لیتی ہیں۔ اور کچھ قبول صورت طالبات تو غلط فہمی کے باعث اسے خود پر قیاس کر لیتی ہیں۔۔اللہ معاف کرے کچھ اشعار تو ایسے ہیں کہ نوجوان نماز سے پہلے پڑھ یا سُن لیں تو احتیاطََ وضو نیا کرلیتے ہیں اور ہم جیسے نکمے تین کلیاں کرکے نماز پڑھ لیتے ہیں۔۔ اقبالؒ کے اشعار کے متعلق پھر بھی بندہ کہہ سکتا ہے کہ چند شکو ے اور خودی ہے جسے پریکٹیکلی اونچی چیز کی مثال دے کر سمجھایا جاسکتا ہے جیسے مینارِ پاکستان ۔۔جس سے اونچا مینار ہم جیسے پاکستانی پہلے مانتے نہیں اور اگر مان بھی لیں تو اسے بدعت اور اسلام کے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔۔ (جیسے ہمارے ایک استادصاحب کے بقول K-2 کی چوٹی ماﺅنٹ ایوریسٹ سے اونچی تھی مگر انگریزوں کی ملی بھگت سے نیچی ہوئی اور ہم آج تک انگریزوں پر لعنت ملامت کررہے ہیں) ۔۔اب "ن" صاحب احسان دانش کی "عنبریں زُلف جو بکھرکے تا کمر گئی تھی" حسرت کی " دوپہر کی دھوپ میں ننگے پاﺅں کوٹھے پر آنا" اس مشترکہ کلاس میں پریکٹیکلی سمجھائیں گے تو پیروں میںچھالے پڑیں نہ پڑیں نو بالغ بچے بچیوں کے دل کے پھپھولے ضرور پھوٹیں گے۔۔وہ تو اللہ بھلا کرے نصاب والوں کا کہ محسنکے" شاخ شاخ لچکتے ہوئے بدن" ،شیفتہ کا "شوقِ غلط کار، جو اُسے کسی کوچے میں لے گیا" ،فاضل کا "جسم جو ٹوٹ رہا تھا کیونکہ اُس نے کسی کو نیند کی حالت میں دیکھا تھا"اور فراز صاحب کے محبوب "کے کمر کے زاوے جسے پلنگ دیکھتے ہیں یا اُس کے محبوب کو در و دیوار نازیبا حالت میں دیکھتے ہیں" نصاب میں شامِل نہیں ہوئے ورنہ ہمارے پیارے دوست یہ تھیوریٹیکل باتیں کس طرح کلاس کے بیچوں بیچ پریکٹیکلی سمجھاتے۔ مطلب پوری کلاس سے ہے ایک دو کو تو استاد کسی بھی جگہ گھیر گھار کر سمجھا لے۔۔ یہ تو اچھا ہوا کہ نثر میں بھی ڈپٹی نظیر صاحب نے بات آسان کردی کیونکہ منٹو کے 'گوشت' اور عصمت کے ' لحاف ' تک بات پہنچتی تو دور تلک جاتی۔۔۔ خُدا نہ کرے کہ ہم " ن"صاحب کے بد خواہ ہوں، مگر کچھ باتیں بولنے اور پڑھنے میں اچھی محسوس ہوتی ہیں کرنے میں نہیں جیسے اُردو ادب۔۔۔

ٰجب ہم اس پبلک سکول سے ایک سرکاری سکول میں گئے(جانے کی وجہ ہماری نالائقی نہیں بلکہ سکول کا بند ہونا تھا، جو مندرجہ بالا باتوں سے صاف ظاہر ہے)،جس کے ماتھے پر ہائی بھی لکھا ہو ا تھا ، لیکن اس میں کوئی چیز بھی ہائی نہ تھی،صرف اسکا ہیڈ ماسٹر اپنے ہاتھ میں ایک قدِ آدم ڈنڈا رکھتا تھا جس سے وہ ہر ایک کو ہانکتا تھا۔ جن طلباءنے موجودہ ہیڈ ماسٹر سے پہلے والے ہیڈ ماسٹرصاحب کو دیکھا تھا،وہ ان کو فرشتہ کہتے۔ پر ہمیں تو عذاب کا فرشتہ ہی لگے۔۔ بقولِ طلباءپہلے والے ہیڈماسٹر صاحب نے ایک نادر شاہی حکم نکال کر سب لڑکوں کی ٹِنڈ کرائی تھی اور سکول کو زندان بنایا تھا مگر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اُنھیں کھلی چھٹی دے رکھی تھی، کہ وہ جس طرح چاہیں طلباءکو دِق کرتے رہیں۔۔ ہائی سکول میں میرے پسندیدہ مضامین نمازِ باجماعت اور ڈرل تھے ، باقی مضامین میں ہمارے ساتھ شوردوں والا سلوک کیا جاتا۔لیکن جب نماز کے لئے صف بچھائی جاتی تو شریر لڑکوں کو کوٹ کوٹ کر صفوں تک لایا جاتا۔۔(کون کہتا ہے کہ انسان تقدیر کا پابند نہیں دیکھیں نیکی بھی بزورِ بازو کرائی جاسکتی ہے) ، اور پھر " ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیڈماسٹر اور استاد" اور ہمیں آخری صف میں جگہ ملتی اور"وہ ایک سجدہ جسے ہم گراں سمجھتے تھے" رش کی وجہ سے کبھی کسی کے موزے،زمیں بوس صاحب کی قمیص کے دامن، کسی کے کاندھے سے لٹکتی ہوئی چادر، کسی کے پیر یا خالی ریت پر ادا کرتے۔۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے پی ۔ٹی ٹیچر کا جس نے صفوں کی تعدادمیں اضافہ کرنے کے لئے ہم سے چندہ اکھٹاکیا، اوراُنہی پیسوں میں سے سٹاف کے لئے ایک دری بھی لے لی جس پر استاد سردیوں میں لیٹ کر سن باتھ لیتے اور اخبار پڑھتے۔ ۔ ہائی سکول کے قاری صاحب کا مصرف استادوں کی ہفتہ وار لنچ پارٹی میں کھانا پکانا تھا۔۔کبھی کبھی آذان بھی دیتے جو ملاّ کی اذاں ہوتی۔

ہمارے سائنس کے استاد جس کی سائنس آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی ۔ وجہ صرف اتنی سی تھی کہ جب ہم سائنس روم جاتے تو وہ لکھو! ۔۔ کی ایک صدا بلند کرتے اور پھر وہ کتاب سے پڑھتے اور ہم لکھتے، کرسیوںکی چخ چخ اور صفحوں کی چرچراہٹ کے وجہ سے ہم کبھی ادھر دیکھتے کبھی اُدھر دیکھتے کوئی ہمارا ہاتھ ہٹا کر ہماری نوٹ بک کی طرف دیکھتا کسی کی نوٹ بک ہم دیکھتے۔۔ مگر خُدا گواہ ہے لکھائی کی سپیڈ تیز ہونے کے سوا ہمارے پلے کچھ نہ پڑا ۔۔کبھی کبھی یہ صاحب ہمیں کلاس میں کھڑا کرکے پورے چالیس منٹ تک سب و شتم جاری رکھتے اور وجہ صرف اتنی سی ہوتی کہ کل تم نے سلام کیوں نہیں کیا ،اب ہم بھی کہہ سکتے تھے کہ میرا سلام کونسی اکیس توپوں کی سلا می یا گارڈ آف آنر ہے جس سے تمہاری عزت افزائی ہوتی ہے ۔مگر وہ ہمیں مہذب بنانے پر بضد رہے ۔۔اور ہم غیر مہذب۔۔۔۔۔۔

ہمارے ریاضی کے استاد جسے اللہ غریقِ رحمت کرے ،پہلے ریاضی کا مطلب ہی نہیں سمجھایااور ہم عرصہ تک اُردو میں ریاضی کا مذکر اپنے بینچ فیلو ریاض کو سمجھتے رہے۔۔ مگر جب کچھ پتہ چلا کہ اس کا مذکر نہیں ہوتا یہ بنیوں کا کام ہے اور اس میں نر مادہ کے ملاپ کی ضرورت نہیں کوئی بھی اکیلے اپنی تعداد بڑھا سکتا ہے جیسے روپے اپنی تعداد سود در سود میں بڑھاتا ہے۔۔چند سیاست دانوں کی فیکٹریاں بھی اسی حساب سے دو سے چار اور چار سے آٹھ ہو رہی ہیں۔ تو اس اللہ کے بندے نے فرض کیا والے سوالات شروع کردے۔ استاد صاحب کے ہاتھ میں تو گائیڈ ہوتا اور وہ بالکل درست فرض کرتے جیسے x=11 اور y=17 ، مگر x,yکو دیکھ کر ہمیں فوراََ مخربِ اخلاق کلاس (بیالوجی )کے xyکا خیال آتا۔ اس کلاس میں سب لڑکے کافی دلچسپی لیتے اور استاد صاحب بھی کافی انہماک سے سمجھاتے جس طرح مولوی حضرات وہ ۔۔۔ مسائل چسکے لے لے کر سمجھاتے ہیں۔۔اس کلاس میں سارے قبیح افعا ل مینڈکوں کا حوالہ دے کر سمجھائے جاتے ہیںیعنی "سانپ بھی مَرا رہے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے" ہم تو اکثر شرم سے پانی پانی آخری بینچ پر بیٹھے رہتے جیسا مینڈکوں سے بھی بُرا کام کرانے میں ہمارا دخل ہو۔۔ مگر بعض ندیدے قسم کے لوگ خود زیرگی اور پار زیرگی میں بھی دھڑلے سے سوالات کرتے ۔اور مزے لیتے(مزے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اُس وقت نیٹ اور کیبل بچوں کی دسترس سے باہر تھے، بچوں کی کیا بات اچھے اچھے بڑے بھی ماضی کے قصوں سے جی بہلاتے)۔۔ خدا گواہ ہے کہ ہمارے سب سے زیادہ نمبر اسی مضمون میں آئے تھے،(بات دلچسپی کی ہوتی ہے اور کچھ نہیں) ۔۔ خیر جب ریاضی والے استاد صاحب سے ہم سوال کرتے کہ : سَرفرض تو بندہ x=8 بھی کرسکتا ہے اور y=55 بھی کرسکتا ہے یہ تو فرض ہے نا!! کوئی ضروری تو نہیں کہ ہر سوال کا بندے کو فرض یاد ہواور آپ کے ہاتھ میں تو گائیڈ ہے اس لئے درست جواب آرہے ہیں ۔۔ تو آگ بگولہ ہوجاتے اور چند مغلظات کے بعد کچھ یوں کہتے : جب گائیڈ والے کنجراتنی تعلیم اور ڈگریوں کے بعد x=11 فرض کرتے ہیں تو تمہیں کس جگہ خارش ہو رہی ہے کہ x کو اپنی مرضی سے فرض کرتے پھرو !۔۔ تمہارے باپ کی ریاضی تو نہیں ہے کہ جو جی چاہا فرض کرلیا!!۔۔اور ہم اپنا سا منہ لے کر چُپ ہو جاتے کیونکہ ریاضی واقعی میرے باپ کی نہیں تھی۔۔پھر اپنی ذاتی نا اہلیت اور اساتذہ کی محنت کی وجہ سے میڑک میں صرف 60 فیصد نمبر لے سکے جس میں مخربِ اخلاق کلاس کی وجہ سے اللہ نے لاج رکھ لی۔۔ کالج والوں نے منہ پُھلا کر داخلہ دیا، سکول اور کالج کی ٹیچنگ میں صرف اتنا فرق محسوس ہوا کہ کالج میں ہم اپنی مرضی سے کلاس میں جاتے اور سفید کپڑے پہنتے۔۔

یہاں پر کیمسٹری کے استاد صاحب حالیہ تبلیغی مہمات کے ایمان افروز واقعات سناتے جس میں ہیرو اور مُحسنِ اسلام کے فرائض وہ خود انجام دیتے۔کیمسٹری کا تو علم نہیں مگر تبلیغ کے چھ نمبر وہ روز ہر ایک سے منہ زبانی سنتے والدین نے کیمسٹری سیکھنے بھیجا تھا تو چھ نمبر رَٹ کر آگئے۔۔کالج میں ریاضی کا نام تبدیل ہوا تھا اور اب یہ میتھس بن گئی تھی۔ میتھس کی کلاس میں جب بھی داخل ہوتے ایک پیٹھ اور سر نظر آتا اور تختہ سیاہ پر 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتا ہوا ایک چاک(اب کوئی غلط فہم چاک سے پروین شاکر صاحبہ کے زخم اور جدید دُخترانِ قوم کے گریبان مراد نہ لے،کیونکہ کالج میں مرد اساتذہ پڑھاتے تھے)۔۔اس کے علا وہ نہ چہرہ دیکھا نہ استاد۔۔ گھر والوں نے بہتر مستقبل کے لئے ٹیوشن کا تکلف بھی رکھا مگر وہ ٹیوشن بھی ایک کلاس ہی تھی جس میں ہم صرف اثبات میں سر ہلاتے اور استاد صاحب کی بکریوں کی نئی زچگیوں کے بارے میں نت نئی معلومات حاصل کرتے جن کے راوی بذات ِ خود استاد صاحب ہوتے۔۔۔اور یوں B.A میں بھی اپنی نالائقی ، غیر حاضریوں اور اساتذہ کی انتھک محنت کی وجہ سے تھرڈ دویژن سے بال بال بچ گئے۔

تب سے اب تک استاد سے ناطہ توڑ کر کتاب سے جوڑ لیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ کسی بھی امتحان میں 70 فیصد سے کم نمبر نہیں آئے۔۔ جب میں اپنے ارد گر د تعلیمی نظام کو دیکھتا ہوں تو یہ فقر لاحق ہوتی ہے کہ کیا استاد تعلیم کے لئے ضروری ہے یا اچھا استاد؟۔اور اگر غالب نے کسی استاد سے تلمذ کیا ہوتا تو کیا اُسکا نیچرل رنگ برقرار رہتا(اُس کے استاد مُلا صمد کو بعض لو گ اُن کے ذہن کا اختراع کہتے ہیں)۔۔

جب اُستاد کے لفظ اور اُس میں چھپے ہوئے فلسفے کو دیکھتا ہوں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ کیا ہر ایرا غیرا جو تختہ سیاہ پر چاک سے چند لکیریں کھینچ لے وہ استاد ہوتا ہے یا وہ کچھ اور ہی سپرٹ ہے جو سکندر کو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ " اگر سکندر ڈوب بھی گیا تو لاکھوں پیدا ہوجائیں گے،مگر ارسطو ڈوب گیا تو لاکھوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو نہیں بنا سکتے" ۔۔ کیا وہ بھی روحانی باپ ہیں جو جسمانی باپ کے نوٹوں کے بغیر آپ کو روحانی فرزندی میں بھی قبول نہیں کرتے۔جہاں رشتہئِ فرزندی صرف چند سکوں کی اساس پر ہوتا ہے۔۔۔ خیر مذاح میں سنجیدگی کمینگی سی محسوس ہوتی ہے اس لئے سنجیدگی ختم کرئے ہیں ۔۔ مگر یہ کہنے میں ہم حق بجانب ہیں کہ ہماری دلپسند مِس خواہ کچھ بھی بن جائے ہمارا روحانی باپ نہیں بن سکتی۔اور روحانی ماں کی ترکیب کبھی اُردو میں پڑھی نہیں۔۔ہم تو بس اتناہی کہیں گے کہ وہ ہماری مِس ہی تھی، مِس ہی رہی اورہم نے اُنھیں بہت بہت مِس کیا ۔۔اللہ اُسے شاداں وفرحاںرکھے جس نے ہمیں تعلیم اور استانی سے محبت سکھائی ۔۔ تعلیم کے بعد صیغہ مونث اس لئے استعمال کیا کیونکہ اساتذہ ہماری نظروں میں ہمیشہ کانٹوں کی طرح کھٹکتے رہے۔
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 32408 views I am a realistic and open minded person. .. View More