مقاماتِ کار جہاں اور بھی ہیں

ایک صاحب پہلی بار پاکستان آئے۔ میزبان نے دو تین دن خوب سیر کرائی۔ پھر ایک دن وہ مہمان کو اپنے ساتھ دفتر لے گئے۔ وہاں تمام ساتھیوں سے ملایا۔ سب نے خوب آؤ بھگت کی۔ دفتر میں دن بھر رونق میلہ لگا رہا۔ دوسرے دن میزبان جب دفتر جانے کی تیاری کرنے لگے تو مہمان سے پھر چلنے کے لیے کہا۔ مہمان نے کہا ”کل والی پکنک خوب تھی۔ مگر یہ روز روز کی پکنک اچھی بات نہیں، آج آپ کام پر جائیے!“

جن لوگوں نے پاکستان میں دفاتر کا ماحول کبھی دیکھا ہی نہ ہو وہ پہلی نظر میں دھوکا کھا جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے سے یکسر ناواقف بہت سے لوگ جب یہاں کسی دفتر میں قدم رکھتے ہیں تو اُنہیں کام کی زیادتی سے اُکتائے ہوئے لوگوں کو کچھ وقت سُکون سے گزارنے کا موقع دینے کے لیے بنائے جانے والے خصوصی مراکز سمجھ بیٹھتے ہیں!

دُنیا بھر میں دفاتر کام کاج کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب تک تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ زمانے بھر کی نفسی پیچیدگیوں سے نجات پانے اور اچھے خاصے لمحات قدرے فرحت بخش انداز سے گزارنے کے لیے پوری ذہنی تیاری کے ساتھ دفتر کا رخ کرتے ہیں!

زندگی کا وہ کون سا بنیادی مسئلہ یا بحران ہے جو دفتر میں ڈسکس ہونے سے رہ جاتا ہے؟ کون سی گھریلو پریشانی ہے جسے لوگ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرکے ساتھیوں کو اُس کا تجزیہ کرنے کی دعوت نہیں دیتے؟ رات کو پرائم ٹائم کے ٹاک شوز میں جو کچھ سُنا اور دیکھا ہوتا ہے اُس پر سیر حاصل بحث کِس دفتر میں شجر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے؟ جس طرح مزدور کہیں سے کچرا لاکر کچرا کنڈی پر اُلٹ دیتے ہیں بالکل اُسی طرح لوگ دفتر میں داخل ہوتے ہی اپنی پرائیویٹ لائف کو ذہن سے نکال کر سب کے سامنے پھینکنے لگتے ہیں اور جب ڈھیر بڑا ہو جاتا ہے تو سب اِس میں سے اپنی اپنی پسند کے آئٹمز نکال کر بحث و تمحیص کا بازار گرم کرتے ہیں!

اگر آپ کو فطرت میں تمام مطلوب رنگ نہ ملیں تو دفاتر کا رُخ کیجیے کیونکہ دفاتر کے کلچر میں عجیب و غریب رنگ پائے جاتے ہیں! اور ہر رنگ اپنی جگہ قوس قزح کا حریف، بلکہ خود قوس قزح ہے!

اوقات کی تقسیم کچھ اِس طرح انجام دی جاتی ہے کہ دُنیا والے دیکھیں تو دانتوں تلے انگلیاں دبالیں، بلکہ کاٹ کھائیں! دفتر میں آمد کے بعد پہلا کام ہوتا ہے گزشتہ روز دفتر سے جانے کے بعد رونما ہونے والا کوئی ذاتی واقعہ بیان کرنا اور اِس حوالے سے دل کا بوجھ ہلکا کرکے تھوڑی بہت ہمدردی سمیٹنا۔ یہ عمل کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ تو کھینچ ہی لیتا ہے۔ یعنی اب لے دے کر ساڑھے پانچ گھنٹے رہ گئے ہیں کیونکہ سب پہلے ہی ایک گھنٹہ لیٹ پہنچتے ہیں۔ اِس کام سے فارغ ہوکر چند فائلوں پر طائرانہ سی نظر ڈال کر فائلوں کو کچھ اِس طرح رکھا جاتا ہے کہ اُن پر دوبارہ نظر نہ پڑے! جب آپ اِس عمل سے فارغ ہوچکتے ہیں تو قدرت آپ کے دماغ کو فرحت بخشنے کے لیے چائے بھجواتی ہے۔ چائے سے فارغ ہوکر کچھ دیر کام کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اور پھر معاملہ سوچنے ہی تک محدود رہتا ہے۔ تیز پتی والی گرما گرم کڑک چائے پینے کے بعد کِس کافر میں دم ہے کہ کام کے بارے میں سنجیدہ ہو!

کیف آور چائے پینے کے بعد جب دماغ قدرے بلندی پر ہوتا ہے تب ملک کے کسی بھی حصے سے اسلام آباد تک کا فاصلہ مِٹ سا جاتا ہے۔ اور جب فاصلے مِٹ جائیں تو کوئی بھی معاملہ دسترس سے باہر نہیں رہتا۔ دفتر کی مرکزی میز کے گرد بیٹھ کر تمام افراد اخبارات پر ایک نظر ڈال کر طے کرتے ہیں کہ کِس کِس سیاست دان کا تیا پانچا کرنا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر، پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتوں کے رہنما اور شوبز کی شخصیات فیورٹ موضوعات ہیں۔ اگر اِن کے بیانات پر سیر حاصل نکتہ چینی کے کچھ وقت بچ رہے تو دو چار کام کی باتیں بھی ہو ہی جاتی ہیں!

اخباری بیانات یا ٹی وی انٹرویوز پر بحث کے خاتمے تک دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکا ہوتا ہے۔ اب کھانے کے وقفے میں تو کام ہونے سے رہا! بھوک لگے تو کچھ نہ کچھ کھانا ہی پڑتا ہے مگر دوپہر کے کھانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ پیٹ بھرچکتا ہے تو جسم ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور آرام طلبی پر اُتر آتا ہے۔ اب دل چاہے کہ نہ چاہے، کِسی نہ کِسی شکل میں تھوڑا بہت قیلولہ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ آپ اِتنے سنگ دل تو کسی صورت نہیں ہوسکتے کہ اپنے جسم پر ظلم ڈھائیں اور آرام کے وقت اُسے کام پر لگائیں! اگر کمر سیدھی نہ کی جائے تو بہت سے کام ٹیڑھے ہو جاتے ہیں! کام کرنے والوں کا دفتر پر اِتنا حق تو ہوتا ہی ہے کہ کچھ دیر آرام کرنے کا موقع دیا جائے!

قیلولے کے بعد ایک بار پھر کچھ دیر تک دفتری اُمور کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ شاید کوئی ایسا کام نکل آئے جو کِسی نہ کِسی طور نمٹانے کے قابل ہو! مگر عموماً مایوسی ہی ہوتی ہے اور کام اگلے دن پر ٹالنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ایسا کام دکھائی ہی نہ دے جو کئے جانے کے قابل نہ ہو تو اِس میں کام کرنے والوں کا تو کوئی قصور نہیں۔ اب اگر کوئی کام اپنے آپ کو نہ کروانا چاہے تو کوئی کیا کرے!

قیلولے کے بعد دفتر کی انتظامیہ چائے سے نوازتی ہے۔ شام کی چائے کا اپنا ہی لطف ہے۔ چند ایک سر پھرے انجام کی پروا کئے بغیر شام کی چائے کے لیے گھر کا رُخ کرتے ہیں تاکہ ڈوبتے سُورج کا نظارا کرتے ہوئے اہل خانہ کے ساتھ پکوڑے کھائیں اور چائے کی چُسکیاں لیں! شام کی چائے کے بعد ”دفتری اُمور“ کی بساط لپیٹ کر گھر جانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ ایسے عالم میں کوئی کس طرح کام کرسکتا ہے؟ ہم وہ قوم ہیں جسے آنے والے کل پر پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین اِس قدر محکم ہے کہ آج کے کام کو کل پر ٹالتے رہنا ہمارا عادت بن چکا ہے! بہت سے لوگ، جو ظاہر ہے کہ عقل نہیں رکھتے، یہ سوچتے ہیں کہ آج کے کام کو کل پر ٹالنا کاہلی اور ہڈ حرامی ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر کسی بھی دفتر میں کام کرنے والے افراد سارے کام مکمل کرکے جایا کریں تو اگلے دن صبح دفتر پہنچنے پر کیا بُھٹّے بُھونیں گے! کوئی کام ہوگا تو کریں گے نا۔ جب کچھ نہیں ہوگا تو مزید ہڈ حرامی کا مظاہرہ کیا جائے گا! اچھا ہے کہ کچھ کام پینڈنگ میں رہے۔ لہو گرم رکھنے کا کوئی تو بہانہ ہو!

اب تک جن لوگوں نے پاکستان کے دفتری ماحول پر تحقیق کی ہے وہ اِس نکتے پر غور کرتے کرتے پاگل پن کی حد تک پہنچ گئے ہیں کہ جب سبھی موج مستی کے دریا میں غوطہ خوری کرتے رہتے ہیں تو پھر کام کس طرح ہوتا ہے! ہمیں حیرت ہے کہ اِس میں ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہ آسکے۔ ہر دفتر ایک بھرپور اور گھنے جنگل کے مانند ہوتا ہے جس میں طرح طرح کے جانور پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے سارے تو شیر اور چیتے نہیں ہوسکتے، چند ایک گدھے بھی ہوتے ہیں! بس یہی وہ گدھے ہیں جو دفتر کا کام کرتے ہیں اور ہڈ حرام شیروں اور بھیڑیوں کو بھرپور سُکون کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع فراہم کرتے ہیں!

دفتر کو ہم جنگل سے تشبیہہ دیں یا کسی اور چیز سے، ایک اچھی بات یہ ہے کہ کام کِسی نہ کِسی طور ہو ہی جاتا ہے! دفاتر میں کام کرنے والے بھی کِسی کام کو ہوتا ہوا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟ وہ مستعدی کے اِلزام سے بچنے کے لیے کام سے گریزاں رہتے ہیں۔ ثابت ہوا ہے کہ کوئی ایسی برتر ذات ہے جو ہمارے کام بر وقت اور عمدگی سے انجام کو پہنچاکر ہمارا بھرم رکھ لیتی ہے۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں جب کچھ سمجھ میں نہ آئے تو معاملات اللہ پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ ہمارے ہاں بیشتر دفاتر میں اللہ پر ایسا ہی بھرپور اور غیر متزلزل اعتماد کیا جاتا ہے۔ یعنی سب کچھ اللہ کے حوالے کرکے لوگ توکل کا اعلیٰ ترین درجہ دُنیا کےے سامنے لاتے رہتے ہیں!

اگر آپ کِسی دفتر میں کام کرتے ہیں اور کام بھی کرتے ہیں تو فوراً اپنے شب و روز کا جائزہ لیجیے۔ کام کرتے رہنے سے کہیں آپ ابنارمل تو نہیں ہوگئے۔ کام کرنے کے لیے دوسرے موجود ہیں۔ آپ قابل رشک انداز سے زندگی بسر کیجیے۔ کام کا تو کام ہے کِسی نہ کِسی طرح ہو جانا! دفتر میں کرنے کے لیے اور بہت کچھ ہے۔ اگر گپ شپ سے تھوڑی بہت فُرصت مل جائے تو کبھی کبھی ذرا سا کام بھی کرلیا کیجیے۔ یہ ہے دفتر میں کام کرنے کا مثالی طریقہ!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484344 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More