بڑے بدمعاش کا حصہ

لیجیے، جس بات یقینی خدشہ تھا وہی پھر ہونے کو ہے۔ بجٹ سر پر ہے۔ طرح طرح کی توقعات ہیں جو وابستہ کی گئی ہیں اور متنوع خدشات ہیں جو لاحق ہوگئے ہیں۔ بجٹ ہر سال ہی آتا ہے تو پھر توقعات کیوں اور خدشات کیسے؟ یہ سوال مرزا تنقید بیگ کے ذہن میں بھی اُبھرا اور ایسا اُبھرا کہ وہ کسی کو دل کا حال سُنانے کے لیے بے تاب بلکہ اُتاولے ہوگئے۔

مرزا کا کہنا یہ ہے کہ ہر سال بجٹ پیش کرنا اب محض رسمی کارروائی ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ بجٹ کا انتظار کرتے تھے کیونکہ جو کچھ ملنا ہوتا تھا اور جو کچھ چھن جانے کا خدشہ لاحق ہوتا تھا وہ سب کچھ بجٹ کی حدود میں ہوتا تھا۔ بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی لوگوں کے چہرے ذرا سے تمتما اُٹھتے تھے یا پھر بُجھ سے جاتے تھے۔ زمانہ خیر سے ایسا بدلا ہے کہ سال میں ایک بار جم کر بیٹھنے اور دل تھامنے کے عمل سے نجات مل گئی ہے۔
مُشکِلیں مُجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں
کہ مصداق اب سال بھر تواتر کے ساتھ بجٹ وارد ہوتے رہتے ہیں اور جس چیز کو مہنگا ہونا ہوتا ہے وہ مہنگی ہوکر رہتی ہے اِس لیے باضابطہ بجٹ کا وہ مقام، درجہ اور تقدس نہیں رہا! مرزا کے خیال میں اب سال میں ایک بار وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے سال بھر تو چھوٹے بدمعاش (چھوٹے، غیر رسمی بجٹ) بھتہ خوری کرتے رہتے ہیں اور سال میں ایک مرتبہ بڑا بدمعاش (یعنی باضابطہ، رسمی اور وفاقی نوعیت کا بجٹ) آکر اپنا حصہ مانگتا ہے! ہم نے مرزا سے استدعا کی کہ مثال اگر دینا ہی ہے تو بدمعاشوں وغیرہ سے مت دیجیے۔ کہنے لگے ”زمانے کا چلن ایسا ہوگیا ہے کہ ہر اچھے اور بُرے معاملے کی مثال اب بدمعاشی اور بھتہ خوری وغیرہ ہی کے ذریعے دی جاسکتی ہے!“ ہم نے وضاحت طلب کی تو فرمایا ”فی زمانہ اگر کِسی کی بدنصیبی اُسے کہیں کا نہ رکھے تو ہم کہیں گے اُسے ڈاکوؤں نے لوٹ کر برباد کردیا۔ اور اگر کِسی کی خوش نصیبی کو بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ اُس کی ڈکیتوں سے دوستی ہوگئی!“

ہر سال بجٹ پیش کرنے کا اہتمام اِضافی مشقت سا لگتا ہے۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ ہر چیز یومیہ یا ہفتہ وار بنیاد پر مہنگی ہوتی جاتی ہے۔ سال بھر یہ عمل جاری رہتا ہے۔ کون سی چیز ہے جس کا نرخ دو تین ماہ بھی برقرار رہ پاتا ہے؟ جب سبھی کچھ ”مارکیٹ فورسز“ کے حوالے کردیا گیا ہے تو پھر بجٹ کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے کی ضرورت ہی کیا رہی ہے؟ بجٹ میں اب تو صرف یہ دیکھنا باقی رہتا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے!
سچ یہ ہے کہ فی زمانہ بجٹ تقریر سُن کر غریب یہ محسوس کرتے ہیں کہ
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دُعا دیتا ہوں رہزن کو!

حالات کی چکی میں پسنے والے اور زندگی کی جنگ میں ہارے ہوئے لوگ بجٹ کے بعد یہ سوچ کر سُکون کا سانس لیتے ہیں کہ حکومت نے کم از کم اِتنا تو کیا کہ اُن کے تن پر کپڑے رہنے دیئے! بجٹ سے پہلے دس پندرہ دن پری بجٹ سیمنار کے نام پر لافٹر شو منعقد کرکے عوام کو تھوڑا بہت ہنسانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بجٹ کے نام پر بُغدا چلائے جانے پر کچھ خاص تکلیف محسوس نہ کریں!

غریبوں کی زندگی میں صرف خدشات نہیں ہوتے، چند ایک خوش فہمیاں بھی ہوتی ہیں۔ بقول کرشن بہاری نُور
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹوٹے خُدا کرے
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دِکھائی دے!

بجٹ کے آنے سے غریب کی نیند بھی ٹوٹ جاتی ہے اور آنکھوں میں بسا ہوا دریا بھی سُوکھ جاتا ہے! یہ ہے بجٹ کا سب سے نقصان دہ پہلو۔ ہم نے مرزا سے کہا کہ انتخابات سر پر ہیں تو حکومت کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گی تاکہ ووٹ بینک بڑھے۔ یہ سُن کر وہ مشتعل سے ہوگئے۔ پُھنکارتے ہوئے لہجے میں فرمایا ”بجٹ اور بچھو میں کوئی فرق نہیں۔ بچھو آپ سے پیار کرے یا نفرت، اُس کی فطرت میں ڈنک مارنا لکھا ہے۔ وہ تو ڈنک ہی مارے گا!“ ہم نے عرض کیا کہ بجٹ کو بدمعاشوں اور بچھو وغیرہ سے تشبیہ دینا کیا فرض کردیا گیا ہے۔ کمال شفقت سے فرمانے لگے ”سرجری کے ذریعے ذرا غریبوں کی آنکھیں فٹ کرواؤ تو حالات کی اصلیت دکھائی دے گی اور اندازہ ہوگا کہ زندگی بسر کرنا ہوتا کیا ہے۔ غریبوں کے لیے صبح کو شام اور شام کو صبح کرنا اب جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں! الیکشن سر پر ہے تو چند ایک اقدامات سے غریبوں کو بہلانا ہی ہے۔ ہر حکومت الیکشن والے سال میں یہی کرتی ہے۔ مگر خیر، عوام کو بھی تیار ہی رہنا چاہیے کہ حکومتیں ایک ہاتھ سے کچھ دیتی ہیں تو دوسرے ہاتھ سے لے بھی لیا کرتی ہیں۔ مگر ہاں، ایک بات کا اطمینان ضرور ہے۔“

ہم نے کہا یہ تو مسرت کی بات ہے کہ اِس گئے گزرے دور میں آپ کو کسی بات کا تو اطمینان ہے۔ مرزا بولے ”جمہوری حکومت نے چار برسوں میں اِتنا خون نچوڑا ہے کہ اب جسم میں کچھ رہا ہی نہیں۔ اطمینان اِس بات کا ہے کہ اِس بار خون نچوڑا نہیں جاسکے گا۔ ہڈیاں رہ گئیں اور وہ بھی گودے کے بغیر، سو حاضر ہیں۔ شوق سے دانت گاڑیے!“ ہم نے کہا یہ تو بڑے ظلم کی بات ہے کہ جسم میں خون بھی نہ چھوڑا جائے۔ مرزا چہک کر بولے ”نہیں نہیں، ابھی ہوا کیا ہے۔ حکومت کو مدت پوری کرنے دیجیے تاکہ غریبوں کی مدت بھی ختم ہو جائے! اب کے تو یہ غضب ہوا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کے نام پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا فرق ہی ختم ہوگیا ہے۔ مفاہمتی سیاست وہ چُھری ہے جس سے عوام کو چار برسوں کے دوران قدم قدم پر ذبح کیا گیا ہے۔ اور کبھی کبھی تو ذبیحہ بھی نہیں ہوا، جھٹکا فرمایا گیا ہے! حکومت کو پانچ برس کے لیے جو دیا گیا ہے اُس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ ہماری اِس مہربانی سے کئی ممالک کا مالیاتی نظام پنپ گیا ہے! عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور پھر وعدوں کی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھاکر اِس طرح رخصت کیا جاتا ہے وہ کسی اسٹیشن پر رکتی نہیں پائی جاتی!“

مرزا کی باتیں سُن کر ہم بھی پریشان ہو اُٹھے ہیں۔ ہماری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ حکومت سے کیا اور کیسے استدعا کریں۔ بس دعا ہے کہ بجٹ ایسا ہو کہ غریبوں کے ہونٹوں کو تھوڑی سی مُسکان، دِل کو سُکون اور دِماغ کو راحت نصیب ہو۔ ہر معاملے میں تنگ دامنی کا احساس ختم ہونے کی کوئی تو راہ نکلے۔ بجٹ میں کچھ تو ایسا کہ غریبوں کے دل ذرا کِھل اُٹھیں، چہرے تمتمائیں۔ ضروری تو نہیں کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ والی بات ہر جگہ دُرست ثابت کرنے کی کوشش کی جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484280 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More