دوغلی پالیسی۔۔۔۔۔۔حل کیا ہے؟

حالیہ ممبئی بم دھماکوں کے بعد جب انڈین پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے پاکستان کو براہ راست بدنام اور ناکام ریاست کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی اس میں پاکستان غیر صحافتی اور غیر سفارتی زبان تو استعمال کی گئی تھی اور قریب تھا کہ دونوں ممالک ایک خوفناک جنگ کے دھانے پر پہنچتے لیکن پاکستانی میڈیا کی طرف سے بروقت اور برحق تجزیوں اور تبصروں کی بدولت یہ جنگ ٹل گئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈین حکومت اور میڈیا پاکستان کے خلاف جو شور اور واویلا کر رہے تھے اس میں کتنی سچائی ہے۔۔؟

جہاں سوال ہے اجمل قصاب کے پاکستانی نژاد ہونے کا تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اس کا تعلق پاکستانی پنجاب سے تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جماعت دعوہ جس میں لشکر طیبہ کے وہی لوگ سرکردہ ہیں جو ایک زمانے میں کشمیر جہاد اور انڈین پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث تھے۔ حافظ محمد سعید صاحب اور مولانا مسعود اظہر کے جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ موخرالزکر صاحب موصوف وہی ہیں جن کی رہائی کے لیے کھٹمنڈو(نیپال) سے ایک مسافر طیارے کو اغوا کیا گیا اور ایک عصاب شکن انتظار کے بعد طیارے میں سوار مسافروں کو مولانا کی بھارتی جیل سے رہائی کے عوض اغوا کاروں سے رہائی ملی۔ سو مولانا موصوف کو ایک جہادی یا جدید لغت کی رو سے دہشت گرد کہنے میں کوئی عزرلنگ نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح حضرت مولانا سید صلاح الدین صاحب جو مشترکہ جہادی کونسل کے سپریم کمانڈر بھی ہیں، انکو بھی ہم لاکھ چاہنے کے باوجود دنیا کے سامنے آزادی کے متوالے یا جہادی کے طور پر پیش نہیں کر سکتے۔

اب آتے ہیں پاک بھارت تعلقات کی طرف جو گزشتہ دور حکومت کی مخلصانہ کوششوں سے بڑی حد تک دوستانہ ہو چکے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ممبئی بم دھماکوں کے بعد بھارت نے پاکستانی حکومت کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دھانیوں کے باوجود پاکستانی حکومت پر اس اعتماد کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔۔۔؟

در اصل امریکہ، نیٹو، اور بھارت یہ جان چکے ہیں کہ پاکستانی حکومت مجاہدین (کشمیری یا افغانی) کے بارے میں دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی واضح مثال مولانا مسعود اظہر، حافظ محمد سعید اور (اس لسٹ میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا چاہوں گا) سید صلاح الدین (سپریم کمانڈر) کے خلاف واضح ایکشن لینے سے انکار ہے۔ در حقیقت درج بالا تمام صاحبان بلاواسطہ یا با لواسطہ طور پر کشمیر اور افغان ایشو پر جہادی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے نہ صرف خطے اور دنیا کے امن کو شدید نقصان پہنچا بلکہ اسلام کے خوبصورت امیج کو بھی شدید جھٹکا لگا۔ جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ معزز قارئین سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے کہ مجھے صرف ایک سوال کا جواب دیں کہ کیا واقعی القاعدہ اور طالبان کی احمقانہ حکمات عملی کی وجہ سے آج مسلمان دنیا بھر میں رسوا نہیں ہیں۔؟

پاک بھارت تعلقات بھی اس وقت تک معمول پر نہیں لئے جا سکتے جب تک کہ پاکستانی حکومت درج بالا لوگوں کے خلاف واضح اور سخت کاروائی نہیں کرتی۔ دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لشکر طیبہ، مشترکہ جہاد کونسل اور نام نہاد جہادی حضرت مولانا مسعود اظہر کے خلاف پاکستانی اعلی عدلیہ میں مقدمات قائم کیے جائیں کیونکہ صرف پابندی لگانے سے ہم دنیا اور بھارت کو مطمئین نہیں کر سکتے۔ 
Naveed Qamar
About the Author: Naveed Qamar Read More Articles by Naveed Qamar: 17 Articles with 15343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.