گُزشتہ سے پیوستہ
مولوی صاحب کے گھر میں ایک خاتون نے کامِل کو خَواتین کے درمیان دیکھ کر
اَمّاں سے کہا،، بہن اسے مَردوں میں بھیج دیں مولوی صاحب کے گھر میں اتنے
بڑے بچے نہیں آتے،، اماں نے ملتجی لہجے میں اُن خاتون سے کہا کہ اِسے رہنے
دیں۔ یہ میرے بغیر وہاں اکیلا نہیں بیٹھ پائے گا۔ تبھی نرگِس کی اماں نے
بھی کہا ۔بھئی رہنے بھی دو یتیم بچہ ہے۔ اور ابھی تو ہے بھی بہت چھوٹا سا،
کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ خاتون بضد تھیں کہ کامِل کو باہر بھیجا جانا
چاہیئے تبھی ایک دوسری خَاتون نے مداخلت کرتے ہُوئے اُس خاتون سے کہا،،
زُلیخا رہنے بھی دُو ،، یہ چھوٹا سا بچہ ہے۔ جس کے بیٹھنے پر بھائی جان کو
بھی کوئی اعتراض نہیں ہُوگا ۔ اَمّاں نے سرگوشی میں اپنے ساتھ بیٹھی ایک
خاتون سے استفسار کیا ۔ یہ دونوں کُون ہیں آج سے پہلے تو کبھی اِنہیں مُحلہ
میں نہیں دِیکھا ۔اُس خاتون نے آہستہ سے یہ کہتے ہُوئے سِپارہ اپنے ہاتھ
میں تھام لیا۔ کہ یہ دونوں ہی مولوی رمضان صاحب کی شادی شُدہ بِہنیں زُلیخا
اور سفینہ ہیں ایک جِہلم میں جبکہ دوسری سیالکوٹ میں بیاھی ہے ۔
دوسرے دِن کامل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسکول سے واپسی پر اُس نے مولوی
صاحب کی دونوں بِہنوں کو اَماں کیساتھ اپنے گھر میں بیٹھا دِیکھا۔ کامِل
سلام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اَب مزید پڑھیئے۔
کامِل تجسس کے عالم میں کپڑے بدل کر خاموشی سےکھڑکی کے کے نزدیک بیٹھ کر
اپنا بستہ سنوارنے میں لگ گیا۔ جبکہ اُسکے کان صحن میں بیٹھی مولوی صاحب کی
بِہنوں کی طرف ہی لگے تھے۔ اَمّاں نے کمرے میں آکر کامل کو پیار کرتے ہُوئے
ہاتھ مُنہ دُھو کرکھانا کھانے کیلئے کہا۔ کامل نے بہانہ بناتے ہُوئے کہہ
دِیا کہ راستہ میں چاچا ارشد نے کچوریاں دِلوا دی تھی۔ اِس وجہ سے ابھی
بھوک نہیں ہے کُچھ دیر بعد کھانا کھالُونگا۔ اَمّاں مطمئین ہُوکر دُوبارہ
مولوی صاحب کی بِہنوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
زیادہ تر اَماں سے سفینہ ہی گُفتگو کررہی تھی وہ اَمّاں کو بتا رہی تھی کہ
دریائے جہلم سے دس مِنٹ کی دوری پر اُنکا مکان ہے۔ وہ شائد اِس بات سے بے
خبر تھی کہ اَمَّاں کی جائے پیدائش بھی جہلم ہی ہے۔ اور شائد یہی وجہ تھی
کہ اَمَّاں بھی سفینہ سے کُرید کُرید کر جہلم کے حالات معلوم کررہی تھیں۔
کُچھ مِنٹوں میں ہی اَمَّاں سفینہ سے ایسے بے تکلف ہُوگئیں جیسے وہ اُسے
بچپن سے جانتی ہُوں جبکہ زُلیخا اب بھی ہَنوز خاموش ہی تھی کبھی کبھار ہُوں
ہاں کی البتہ آواز ضرور سُنائی دے جاتی جِس سے اُسکی موجودگی کا احساس پیدا
ہُوجاتا۔
آدھا گھنٹے کی باتیں سننے کے باوجود بھی کامِل کو کوئی ایسی بات نہیں
سُنائی دی۔ کہ جس میں کامل کی دِلچسپی کا کوئی سامان موجود ہُوتا۔ اُس نے
سوچا کہ ایسی باتیں سُننے سے بہتر ہے کہ کھانا ہی کھا لیا جائے اور ویسے
بھی اب کامل کو بھوک کا احساس شدت سے مِحسوس ہُورہا تھا۔ کہ اچانک سفینہ کی
آواز سُنائی دِی۔ وہ اَمَّاں سے گُزشتہ دِنوں چوروں کے گھر میں گُھس آنے کی
بابت دریافت کررہی تھی۔
اَمّاں نے بات کو ٹالنا چاہا۔ مگر شائد وہ مُکمل معلومات حاصِل کر کے ہی
آئی تھی۔ اُسے تُو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ چُور کُون تھے اور اَمَّاں کو
کئی دِن سے پریشان کررہے تھے۔ بلاآخر اَمَّاں نے مُختصر ہی سہی لیکن تمام
کہانی سفینہ کو سُناتے ہی بنی۔ سفینہ نے تمام واقعات سُننے کے بعد اَمّاں
سے کہا،، بِہن بُرا مت ماننا مگر سچ کہتی ہُوں۔ کہ ہمارے مُعاشرے میں لوگ
تنہا عورت بالخصوص بیوہ کو لُوٹ کا مال سمجھتے ہیں۔ وہ زمانہ نہیں رَہا جب
لوگ دوسروں کی بہن بیٹیوں کو بھی اپنی بچیوں کی طرح عزت دِیا کرتے تھے۔ اور
بہن نہ ہی اِس دھوکے میں رِہنا ۔کہ لوگ ہمیشہ ہی بَروقت تُمہاری امداد کو
پہنچتے رہیں گے۔۔۔!
پھر کیا کروں۔۔۔۔؟ کیا اِس معاشرے سے ڈر کر اپنے بچے سمیت دریا میں کُود
جاؤں،، یا کِسی رِیل گاڑی کے سامنے جا کر خُود کُشی کرلوں ۔۔۔! اَمَّاں نے
آبدیدہ ہُوکر سوال کیا۔
میرا کہنے کا یہ مطلب تُو نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ مسئلے کا حَل ہے۔ اور
خودکشی نہ صرف حرام عمل ہے۔ بلکہ یہ تُو بُزدل لوگوں کا طریقہ ہے۔ کہ ہمیشہ
آسانی کی زندگی جینا چاہتے ہیں اور جب مشکل پیش آتی ہے تب موت کو مُنہ
لگالیتے ہیں ۔ تُم دُوسرا نِکاح کیوں نہیں کرلیتیں۔ کیونکہ یہی شریعت کا
حُکم بھی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی تُو کئی بیواؤں سے نِکاح فرماکر
اپنی اُمت کو بتایا ہے کہ بیوہ کو بھی اپنے خاوند کے انتقال کے بعد ویسے ہی
جینے کا حق ہے۔ جیسا کہ ایک باکرہ کنواری لڑکی کو جینے کا حق حاصِل ہے۔
سفینہ نے اماں کو دِلاسہ دیتے ہُوئے کہا۔
مگر میں اپنے بچے پر کِسی سوتیلے باپ کا سایہ نہیں ڈالنا چاہتی۔ میری زندگی
کا مقصد بھی اب بس یہی ہے کہ اپنے کامل کو کامیاب انسان بناؤں ۔اسکے لئے
میں ہر ایک ظالم سے ٹکرا بھی سکتی ہُوں۔اور اِسکے حق کا تحفظ بھی بخوبی
کرسکتی ہُوں۔ لیکن کوئی میرے بچے کو اپنی ٹھوکروں میں رکھے میں ایک لمحے
کیلئے بھی اِسے برداشت نہیں کرپاؤنگی۔ اَمَّاں جذباتی لہجے میں بُولے چلی
جارہی تھیں۔
بہن یہ سوتیلے ، سگے، کا فرق وہی رکھتے ہیں جو جاہِل ہُوتے ہیں۔ ورنہ اسلام
تُو دوسرے مَذاہب کا بھی جب احترام سِکھاتاہے۔ تب کیسے ممکن ہے کہ ایک
مسلمان کے حقوق اُس سے سِوا نہ ہُونگے۔ اور کیا بیوی سے قرابت کے سبب بیوی
کے دوسرے شوھر کے بچوں کے حقوق اسلام نے نہیں رکھے ہُونگے۔۔۔؟ میں یہ کب
کہتی ہُوں کہ تُم کِسی بھی ایرے غیرے کیساتھ ہمیشہ کیلئے جانور کی طرح بندھ
جاؤ۔ مگر کیا اِس پُوری دُنیا میں ایک بھی ایسا شخص تُمہیں نظر نہیں آتا جو
اپنی دینی ذُمہ داریوں سے آگاہ ہُو۔جو صاحب اولاد بھی ہُو اور دوسروں کی
اولاد کا درد بھی محسوس کرسکتا ہُو۔ ۔۔۔۔؟
کم از کم میں تُو ایسے کِسی انسان کو نہیں جاتی۔ جِس پر اپنی اولاد کیلئے
اعتماد کرسکوں۔ اَمّاں نے اپنی جان چھڑاتے ہُوئے لاعِلمی کا اِظہار کرتے
ہوئے کہا۔
کیوں ہمارے بھائی صاحب تُمہیں نظر نہیں آتے۔۔۔؟ کیا اِس علاقے کے تمام ہی
لوگ اُنکی شرافت کے گُن نہیں گاتے۔۔۔؟ کیا اُنکی انسان دوستی کے تذکرے
مِثال دِے دیکر تمام شہر میں بیاں نہیں کئے جاتے۔۔۔ سفینہ کے سوالوں نے
اَمَّاں کو لاجواب کردِیا تھا۔ مگر وہ خاموشی سے اُٹھ کر کامل کیلئے کھانا
نِکالنے رسوئی گھر میں چلی آئی تھیں۔
اَمّاں جانتی تھیں کہ مولوی صاحب واقعتاً نہایت نفیس النفس اور علم پرور
انسان تھے۔ لیکن اُنہوں نے مولوی صاحب کی بیوی کے انتقال کے بعدکبھی اسطرح
سے مولوی صاحب کیلئے نہیں سُوچا تھا۔ اور وہ کامل کی وجہ سے کوئی رِسک
اُٹھانا ہی نہیں چاہتی تھیں لیکن اُنکی قائم کی ہُوئی خیالات کی مصنوعی فلک
بُوس دیوار میں شائد نقب لگ چُکی تھی۔ اور جُو کام چاچا ارشد اور اُنکی
بیوی نہ کرسکی وہ سفینہ کی ایک ہی مُلاقات کر گئی تھی ۔ سفینہ کو واقعی
گُفتگو کرنے کا ہُنر آتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کا مقدمہ اَمَّاں کی عدالت میں
بَخُوبی پیش کر نے میں کِسی حد تک کامیاب ہُوچُکی تھی۔
شام کو کامل نے اَمّاں سے پھر وہی سوال کیا تھا ،،کہ اَمّاں تم مولوی صاحب
سے شادی کررہی ہُو۔۔۔؟ لیکن آج نہ تُو کامل کے لہجے میں کوئی خُوف تھا اور
نہ ہی اَمّاں کے لہجے میں پہلے والی شِدّت تھی۔ شائد دونوں ہی وقت اور
حالات دیکھ کر اپنی اپنی رائے پر وقت کی ضرورت کو ترجیح دینے لگے تھے ۔
مولوی صاحب کی دوسری بہن زُلیخا تُو دوسرے دِن ہی سیالکوٹ کیلئے روانہ
ہُوگئی تھی لیکن سفینہ روزانہ ہی کسی نہ کِسی بہانے کامل کے گھر آنے لگی
تھی کبھی کبھار تُو سفینہ کے ساتھ اُسکی بھتیجی جِلباب بھی آجاتی۔ اور یُوں
دھیرے دھیرے سفینہ اپنی لگن اور اخلاص سے ایک دِن اَمّاں کو یہ باور کرانے
میں کامیاب ہُو ہی گئی کہ اُسے اِس ظالم سماج سے لڑنے کیلئے ایک مضبوط
سہارے کی ضرورت ہے ۔
کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ بھی اگر کِسی چٹان پر گِرے تُو اپنا راستہ بنا ہی
لیتا ہے۔ اور یہی شائد اَمّاں کیساتھ بھی ہُوا تھا۔ تبھی تُو وہ ایک دِن
سادگی سے مولوی صاحب کے نِکاح میں چلی گئیں۔ کامل بھی رفتہ رفتہ اِس شادی
کیلئے رضامند ہُوگیا تھا۔ اُسے ویسے بھی مولوی صاحب کی شخصیت بُہت بھلی
لگتی تھی بس ایک بات تھی جو کامل کو پریشان کئے دے رہی تھی کہ اماں کے
مولوی صاحب سے نِکاح کے بعد وہ اُنہیں کسطرح پُکارے گا۔ یہ مشکل بھی شادی
کے دوسرے دِن مولوی صاحب نے کامل کو اپنے سامنے بِٹھا کر حل کرتے ہوئے کہا
کہ آج سے تُم جلباب کے چھوٹے بھائی ہُو اور مجھے چاہو تو چاچا کہہ کر
پُکارو اور چاہو تو بابا کہہ کر مُخاطب کرلینا۔ اور جلباب تُم بھی کامِل سے
بالکل ایسے ہی پیش آنا کہ جیسے کوئی شفیق بِہن اپنے چُھوٹے بھائی کیساتھ
پیش آتی ہے۔ دِیکھو اِنسان کو پھر بھی دُھوکہ دِیا جاسکتا ہے۔ لیکن کوئی
بھی اپنے رَبَّ کو دُھوکہ نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ صرف سمیع و بصیر ہی نہیں
بلکہ دِل میں چُھپے ہر راز کو بھی خُوب جانتا ہے۔
اَمّاں کی شادی کے بعد کامِل کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا۔ گُویا جیسے اَبّا
بھی واپس آگئے ہُوں۔ اب نہ اَمّاں سارا دِن کپڑے سیتے گُزارتیں اور نہ ہی
کامل کو چھوٹے موٹے کھلونوں کیلئے ترسنا پڑتا۔ صبح اسکول جاتے ہُوئے جتنا
جیب خرچ اماں دیا کرتی تھیں اُس میں بھی اب مولوی صاحب نے تین گُنا اِضافہ
کردِیا تھا۔ اسکے علاوہ کامل کا پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے کا دیرینہ خواب
بھی شرمندہ تعبیر ہُوچُکا تھا۔ مولوی صاحب ایم اے اسلامیات تھے۔ اور سُونے
پر سہاگہ یہ کہ عربی ، فارسی ، کیساتھ ساتھ انگلش زُبان پر بھی کافی مضبوط
گِرفت رکھتے تھے ۔ وہ انتہائی خُوبرو شخصیت کے مالک ہُونے کیساتھ نہایت
خُوش اِخلاق ، اور مرنجان مرنج طبیعت کے انسان تھے۔ اَمَّاں سے شادی کے
فوراً بعد ہی مولوی صاحب نے اپنے مکان کی بیٹھک میں ایک کوچنگ سینٹر بھی
کھول لیا تھا۔ مولوی صاحب کے اِخلاق اور اُنکی قابلیت کا تمام علاقہ ہی
معترف تھا۔ شائد اِسی وجہ سے بُہت جلد کوچنگ سینٹر میں تِل دھرنے کو بھی
جگہ باقی نہ رہی تھی۔ کُوچنگ سینٹر کی کامیابی کے باعث مولوی صاحب کو
اِضافی آمدنی ہُونے لگی تھی۔ اور گھر کے حالات بھی مزید بہتر ہُونے لگے تھے۔
مولوی صاحب اور جلباب کی اپنائیت سے کامل کو کبھی یہ احساس ہی نہ ہُوسکا ۔
کہ مولوی صاحب کامل کے سوتیلے ابا اور جلباب اُسکی سوتیلی بہن ہے۔ اُسکی ہر
جائز خُواہش کو مُولوی صاحب دوسرے تیسرے دِن ہی پُورا کردیتے تھے۔ اب وہ
اَمَّاں سے نہیں بلکہ مولوی صاحب سے پڑھ رَہا تھا۔ کلاس ختم ہُونے کے
باوجود مولوی صاحب اضافی آدھا گھنٹہ کامل کو دینے لگے تھے۔ جِسکی وجہ سے وہ
رِیاضی ہو یا انگلش، اسلامیات ہو کہ چاہے اُردو ۔مولوی صاحب کے دلنشین
انداز تکلم اور سمجھانے کے باعث ہر مضمون پر کامِل اپنی گرفت مضبوط سے
مضبوط تر کرتا چلا جارہا تھا۔
جِن دِنوں کامل میٹرک کے اِمتحانات کی تیاری کررہا تھا۔ ایک دِن سفینہ
پُھُّپو اچانک جہلم سے آگئیں۔ اور رات کو جب سبھی ساتھ کھانا کھارہے تھے۔
سفینہ پُھُّپو نے مولوی صاحب سے جلباب کو اپنے بیٹے کیلئے مانگ لیا۔ وہ اس
برس حج پر جانے کا اِرادہ رکھتی تھیں اس لئے جلد از جلد جلباب کو بہو بنا
کر اپنے گھر لیجانا چاہتی تھیں۔ سفینہ پُھُّپو کی بات سُن کر کامل نے
مُسکرا کر اپنی بہن جلباب کی جانب دیکھا۔ وہ شرماکر کھانے سے اُٹھ گئی۔
حالانکہ ابھی جلباب نے میٹرک پاس کیا تھا اور بمشکل عمر کے سولہویں یا
سترہویں برس میں داخل ہُوئی تھی۔ لیکن جب وہ اَمَّاں کیساتھ کھڑی ہُوجاتی
تب دونوں ماں بیٹی سے زیادہ چھوٹی بڑی بہنیں ہی نظر آتی تھیں۔ مولوی صاحب
تُو گُویا جیسے سفینہ پُھُّپو کے منتظر بیٹھے تھے۔ صرف ایک ماہ بعد ہی
سفینہ پُھُّپو مختصر سی ایک بارات کیساتھ پھر سے آئیں ۔ اور انتہائی سادگی
سے جلباب کو بیاہ کر اپنے ساتھ لے گئیں ۔اُس دِن وِداع کے وقت اَمّاں کی
آنکھیں اِس شدت سے برسیں کہ گُویا پہلی اور آخری مرتبہ برس رہی ہُوں۔
وقت پر لگا کر اُڑتا چلا جارہا تھا۔ بُورڈ کے امتحانات میں کامل نے پُورے
ڈویژن میں فرسٹ پوزیش حاصل کی تھی۔ اور جب وہ اپنی مارک شیٹ اَمَّاں کو
دِکھاتے ہُوئے اَمَّاں سے لپٹ رَہا تھا۔ تب اُسے ایک بات شدت سے مِحسوس
ہُورہی تھی۔ کہ اَمّاں کے سراپے میں بُہت جلدی جلدی تبدیلی واقع ہُوتی
جارہی ہے۔ اب وہ نادان کامل نہیں تھا کہ اتنا بھی نہیں سمجھ پاتا کہ اُنکے
گھر نیا مہمان آنے والا ہے۔
پھر وہ وقت بھی آن پُہنچا جب اَمَّاں کو مولوی صاحب میٹرنٹی ہُوم لیکر جانے
کی تیاری کر رہے تھے۔ مولوی صاحب نے سفینہ پُھُّپو اور جِلباب کو چند دِنوں
کیلئے گھر سنبھالنے کیلئے بُلوا لیا تھا۔ کامِل کو چند دِنوں سے اَمَّاں سے
عجیب سی شرم و جھجک مِحسوس ہُونے لگی تھی۔ اسلئے جب اَمَّاں اسپتال جانے
کیلئے کمرے سے نِکل رہی تھیں۔ تب کامل خاموشی سے مولوی صاحب کے چھوٹے سے
کتب خانے میں جا گُھسَّا ۔
تمام کمرہ شیلفوں اور الماریوں میں موجود کتب سے بھرا پڑا تھا۔سامنے ٹیبل
پر ایک کتاب رکھی نظر آرہی تھی۔ جس میں کُچھ عجیب و غریب سے نقوش بنے ہُوئے
تھے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا ۔ کہ وہ پہلی مرتبہ مولوی صاحب کے کُتب
خانے میں آیا ہُو اور کسی کتاب کو پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہُو۔ لیکن یہ کتاب
کُچھ عجیب ہی انداز میں لکھی ہُوئی تھی۔ کامل کی نِگاہ اپنی پسندیدہ کتاب
کی تلاش میں تمام کمرے کا طواف کرنے لگی تب ہی اُسے ایک شیلف میں انوارُ
العلوم ( مثنوی مولانا رُوم) نظر آگئی۔
مثنوی مولانا رُوم کو وہ کئی مرتبہ پڑھ کر ازبر کر چُکا تھا۔ اِسے پڑھنے کی
وجہ سے ہی اُسے تفاسیر پڑھنے کا شوق پیدا ہُوا تھا۔ مولوی صاحب کی لائبریری
میں تفسیر ابن کثیر، تفسیر ابن عباس ،تفسیر قرطبی، تفسیر نعیمی، اور نہ
جانے کتنی ہی تفسیریں موجود تھیں۔ وہ آجکل فجر کی نماز کے بعد تفسیر ابن
کثرت مولوی صاحب سے پڑھ رَہا تھا۔
کامِل نے آگے بڑھ کر مثنوی مولانا رُوم کو عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگایا
اور اُسکے مطالعہ میں گُم ہُو گیا ۔ کتاب پڑھتے پڑھتے نہ جانے کب کامل کی
آنکھ لگ گئی۔ آج اُسکے خُوابوں میں نہ پریاں تھیں۔ اور نہ ہی نرگس اُسے
کہیں نظر آئی۔ پھر منظر تبدیل ہُوا۔ اور اُسے ایک مُہیب جنگل نظر آنے لگا۔
وہ جنگل میں داخل ہُوا ہی تھا کہ اُسے ہر طرف سے رُونے اور سِسکنے کی
صدائیں سُنائی دینے لگیں۔ اُس نے گھبرا کر جُونہی آنکھیں کھولیں۔ جلباب
اُسکے قدموں کو تھامے اُسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جلباب کی آنکھوں میں
آج پہلی مرتبہ کامل نے آنسو دِیکھے تھے ۔اُسکی سسکیاں ماحول کو عجیب
وحشتناک بنائے دے رہیں تھی۔ کامل ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ وہ جِلباب سے رُونے
کی وجہ معلوم ہی کرنا چاہ رہا تھا۔ کہ اُسے آنگن سے بھی سفینہ پُھُّپو کے
بین کی صدائیں بُلند ہُوتی سُنائی دینے لگیں ۔
(جاری ہے)
پلکوں سے دَرِّ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |