جس طرح سیلاب کا سیزن ختم ہونے
کے بعد بھی سیلاب کے نام پر سیاسی دکان چمکانے اور اپنی اپنی جیب بھرنے کا
سیزن تادیر چلتا رہتا ہے بالکل اُسی طرح لیاری میں آپریشن تو ختم ہوچکا مگر
اس کے مختلف علاقوں کو کسی نہ کسی حوالے سے فتح کرنے کی کوششیں دم نہیں توڑ
رہیں۔ گولہ بارود نہ سہی، وعدوں اور دعووں کی بمباری ہی سہی! گز بھر کا
گھاؤ لگاکر دو انچ ڈبیہ میں مرہم عطا کیا جارہا ہے! آپریشن اور مابعد
اقدامات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لیاری میں جو کچھ کیا گیا
وہ محبت کے اظہار ہی کی ایک صورت تھی!
یہ سب کِس کھاتے میں ہو رہا ہے؟ جمہوریت کے کھاتے میں؟ اگر دنیا بھر میں
جمہوریت کی تعبیر و تشریح بدل دی گئی ہے اور اب جمہوریت کا حقیقی مفہوم
جمہور کے خلاف جانا ہے تو پھر ٹھیک ہے!
لیاری والوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف اُن کی نہیں بلکہ خود پیپلز
پارٹی کی بھی آزمائش ہے۔ حکمراں جماعت پورس کے ہاتھیوں کے مانند اپنے ہی
لوگوں پر پل پڑی۔ ایک پوری بستی کو سائڈ لائن کرکے جرائم پیشہ افراد کے
خلاف آپریشن کے نام پر غربیوں کے لیے زندگی مزید دشوار بنادی گئی۔ وفاداری
کا کیا یہی صِلہ ہوا کرتا ہے؟ دنیا حیران ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ غریب
کو جینے کے حق سے بھی محروم کرنے کی ٹھان لی گئی ہے! احساس، مروت، لحاظ،
شرم، غیرت .... سبھی کچھ لپیٹ کر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ طے کرلیا گیا
ہے کہ جب کِسی کو مخالفت پر سزا دی جائے گی اور ضمیر کا گلا گھونٹ دیا جائے
گا تاکہ کوئی آواز نہ آئے اور سُن کر سوچنے کی زحمت سے بچا جاسکے۔
لیاری میں محض ایک ہفتے کے دوران کیا نہیں ہوا۔ اعتبار کا خون بہا، اعتماد
کی لاش گری، تعلقات کی تدفین ہوئی۔ ایک علاقے کو وفا کا صِلہ طلب کرنے،
حقوق کے لیے آواز اُٹھانے پر سزا دینے کا سوچا گیا اور تمام اقدار فراموش
کردی گئیں۔ لیاری سے شہر کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردیئے گئے اور
بدامنی و ہلاکت خیزی کی کھائی کو جانے والے تمام راستے کھول دیئے گئے!
لیاری کے لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُنہیں ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ہے۔
حکومت ایسی ظالم بھی نہیں کہ کِسی کو کِسی جرم کے سرزد ہونے سے پہلے سزا
دے۔ اہل لیاری نے پیپلز پارٹی کو چاہا تھا، اُس کے لیے گالیاں اور گولیاں
کھائی تھیں سو اِس جرم کی سزا دی گئی! جن کی ہر آتی جاتی سانس میں جئے بھٹو
کی صدا بسی ہوئی تھی اُن کے لیے سانس لینا بھی دُوبھر کردیا گیا۔
لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات اُبھرے۔ ہر نقش کہن کو مِٹانے کی ریت
کیوں ڈالی جارہی ہے؟ جمہور کی سلطانی کے عہد میں جمہور کو موت کی نیند
سُلانے پر اِصرار کیوں؟ ارشاد ہوا جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ چلیے مان بھی
لیا کہ جمہوریت کچھ اور نہیں انتقام ہے تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
انتقام اپنوں سے کب لیا جاتا ہے؟ اور اگر یہ محبت کا اظہار ہے تو ایسی محبت
سے لیاری کے غریب باز آئے! وہ جن کی جے جے کار کرتے نہ تھکتے تھے اُنہی کے
ہاتھوں مارے جارہے ہیں اور لبوں پر شِکوہ ہے۔
ہم سے تو تم کو ضِد سی پڑی ہے!
کبھی کبھی دل نے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ شاید یہ جمہوریت کا جدید
ترین ورژن ہو اور ابھی تک ہمارے ذہن اِسے سمجھنے سے محض قاصر ہیں!
لیاری کو بار بار زیادتی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اور پھر سیتا کی طرح
اگنی پریکشا بھی دینا پڑی ہے! اور سِتم ظریفی یہ ہے کہ اُس کے رام لکشمن ہی
اُس کے خلاف ہوگئے ہیں! پھر بھلا باہر کے کِسی راون کی کیا ضرورت؟ اپنے ہی
غیروں کے ساتھ مل کر بار بار لنکا ڈھا رہے ہیں!
لیاری کے مکین یہ سوچ رہے ہیں کہ جن جرائم پیشہ افراد کی بیخ کُنی کا بہانہ
گھڑ کر آپریشن کیا گیا ہے وہ بھی اِس قدر تو جینا حرام نہ کرتے تھے۔ لشکر
کشی تو اُن کے مزاج کا حصہ نہ تھی۔ وہ علاقوں کو بند کرکے مکینوں کو گھروں
میں محصور تو نہ کرتے تھے۔ اگر کرتے بھی تو کیا غلط ہوتا کہ وہ تو جرائم
پیشہ تھے، مگر قانون نافذ کرنے پر مامور ریاستی مشینری کو تو ایسا کرنے کا
کوئی اختیار نہیں۔ مگر یہ تو خیر غریبوں کی سوچ ہے، جن کے ہاتھ میں اقتدار
اور اختیار ہوا کرتا ہے وہ اِس سطح سے بہت بلند ہوکر سوچتے ہیں۔ اُن کے
منصوبوں میں عوام کی سی سطحی سوچ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
خفیہ والوں کے نیٹ ورک کا کوئی جواب نہیں۔ کالعدم امن کمیٹی والوں نے
مزاحمت کی تو اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں تمام اندازے غلط تھے۔ اِن غلط
اندازوں کا ذمہ دار کون ہے؟ سرکاری وسائل پر پَلے ہوئے خفیہ والے کیا گھاس
کھودتے رہے تھے؟ زندگی کی جنگ میں ہارے ہوئے، وقت کے ستائے ہوئے انسانوں کو
جرائم پیشہ اور ایرانی مال کا اسمگلر تو کہتے ہی تھے، اب ان پر علیٰحدگی
پسند ہونے کا لیبل بھی چسپاں کردیا گیا۔ اور پھر وزیر داخلہ نے یہ کہتے
ہوئے قلم توڑ دیا کہ لیاری میں طالبان نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں! اِس بیان کے
بعد تو کچھ کہنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ وزیر داخلہ کا عجیب مسئلہ ہے کہ
شروع ہی میں حرفِ آخر والا بیان دے ڈالتے ہیں! لیاری تو مِنی پاکستان ہے
جہاں تمام قومیتیں عشروں سے مل کر رہتی آئی ہیں۔ کیا یہ سب لوگ علیٰحدگی
پسند ہیں؟ لیاری میں ڈھیرون گولہ بارود پھونک کر کِس کی لاش گرائی گئی ہے؟
زندگی اور حالات کی تمام تلخیاں بھلاکر جھومنے اور رقص کرنے والوں کا خون
کِس کی گردن پر ہے؟ صرف انتظامی مشینری کی گردن پر یا پورے شہر پر؟ شہر پر
ایک اور قرض چڑھ گیا۔ سوال یہ ہے کہ پہلے کون سا قرض چکایا گیا ہے جو یہ
چکایا جائے گا؟
جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں کیا اب اُنہیں زندہ رہنے کے حق سے
بھی محروم کرنے کی ٹھان لی گئی ہے؟ یہ کون سی ضد ہے؟ کیا راج ہٹھ؟ انا کی
غلامی اختیار کرکے بے بس اور لاچار اِنسانوں کو موت کی اسیری میں دینا کہاں
کی انسانیت ہے؟ ہر سوال کے بطن سے مزید سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ اور جب تک
جواب سامنے نہیں آئیں گے، لیاری سوالیہ نشان بنا رہے گا؟
آپریشن کے دوران لیاری کے مکینوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو
خیرباد کہہ چکے ہیں اور الیکشن میں بلال بھٹو زرداری کو امیدوار کی حیثیت
سے قبول نہیں کیا جائے گا؟ پیپلز پارٹی سے اِس حد تک لاتعلقی اختیار کرنے
کے اعلان کی کوکھ سے کون سا عذاب جنم لے گا، یہ دیکھنے کے لیے شہر کا ہر وہ
شخص بے تاب ہے جو لیاری کے غریبوں سے پیار کرتا ہے! |