پاکستان کی فلم انڈسٹری کے زوال
کا رونا رونے والوں کے دل کو تھوڑی بہت ٹھنڈک تو مل ہی چکی ہوگی۔ جمہوری
حکومت کا کمال یہ ہے کہ کئی علوم اور فنون کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئی ہے۔
شاندار حکمرانی کا انداز ملاحظہ فرمائیے کہ پالیسی بیان کامیڈی کا مزا دیتا
ہے۔ بچت کے اقدامات سے اخراجات کے بڑھنے کی بُو آتی ہے، کہیں تعمیری منصوبہ
شروع کیا جائے تو تخریب کا شائبہ سر اٹھاتا ہے اور حد یہ ہے کہ بجٹ پیش
کیجیے تو ایکشن فلم کا گماں ہوتا ہے!
یکم جون کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ اِس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ
عوام مایوس نہ ہوں، ابھی جمہوریت کے ڈرامے میں کئی سنسنی خیز ایکٹ باقی ہیں!
اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھیے رہیے اور ڈرامہ دیکھتے رہیے۔
اب کے بجٹ نے مولا جٹ کی یاد تازہ کردی۔ اِس مولا بجٹ نے ایسا سماں باندھا
کہ قوم نہال اور سرشار ہوگئی۔ دنیا بھر کے غریبوں کے نصیب میں دوسری بہت سی
پریشانیوں کے ساتھ ساتھ بجٹ بھی لکھا ہوا ہے۔ ہر سال بارش، سیلاب، برف باری،
آندھی، خشک سالی اور دیگر قدرتی اوامر کے ساتھ ساتھ بجٹ کو بھی وارد ہونا
ہی ہوتا ہے۔ بجٹ نہ ہو تو غریبوں کو کچھ ہی پتہ ہی نہ چلے کہ اُنہیں مرحلہ
وار قتل کرنے کے کون سے نئے طریقے مارکیٹ میں آئے ہیں! جس بجٹ کا کام ہی
غریبوں کو تکلیف دینا ہے اُسے دل نشیں انداز سے پیش کرنے کا ہماری پیاری
منتخب حکومت کے سر جاتا ہے اور اِس مرحلے سے بخوبی اور بخوشی گزر جانے میں
عوام کی مدد کے لیے اپوزیشن نے بھی خاصا توانا کردار ادا کیا۔ چار سال سے
بھی زائد مدت میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کے لیے نہیں،
بلکہ عوام کے لیے فرینڈلی ثابت ہوئی! بجٹ کو مولا بجٹ بنانے میں مسلم لیگ
(ن) کے اسکرپٹ اور شاندار اداکاری نے مرکزی کردار ادا کیا۔ بجٹ کے حوالے سے
لوگ طرح طرح کے خدشات ذہنوں میں پروان چڑھائے بیٹھے تھے۔ مگر جب بجٹ پیش
ہوا تو سارے خدشات ہوا ہوگئے۔
مسلم لیگ (ن) کہتی آرہی تھی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عوام کو
اندازہ ہی نہیں تھا کہ بھوت پارلیمنٹ ہاؤس میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ بھوت
سرکاری اسکولوں والے گھوسٹ ملازمین کی طرح فرضی نہیں تھے بلکہ اصلی اور
واقعی تھے! مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے لاتوں کے بھوتوں کی تواضع جب لاتوں سے
کی تو سڑا دینے والی گرمی کے ستائے ہوئے عوام کے کلیجے میں ٹھنڈک سی پڑگئی!
بجٹ سیشن میں لاتوں اور گھونسوں کا ایسا دور چلا کہ قوم حیران رہ گئی۔ چند
حکومتی ارکان کی دُھلائی کرکے مسلم لیگ (ن) نے فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا داغ
آخر دھو ہی ڈالا! عظیم سیاسی جماعتوں کے یہی طور ہوا کرتے ہیں یعنی جو کہتی
ہیں وہ کر دِکھاتی ہیں، بھلے ہی اِس عمل میں منتخب ایوان کی میعاد ختم ہونے
کو آئے!
ایوان میں لڑنے والے چونکہ منتخب تھے اِس لیے اُن کی زبان پر جو کچھ بھی
آیا وہ بھی ”منتخب“ ہی تھا۔ میڈیا کی مہربانی کہ لوگوں نے سب کچھ دیکھ اور
سُن لیا۔ آنے والی نسلیں ایسی معرکہ آرائیوں کو ایوان کی کارروائی سے حذف
شدہ پائیں گی! تو تو میں میں سے بات شروع ہونے کے بعد ”ابے جا، تیرے جیسے
بہت دیکھے ہیں“ کی منزل تک پہنچی، پھر مُغلظات کا دور چلا۔ اور اِس کے بعد
ایوان کو باکسنگ اور کِک باکسنگ کے رنگ میں بدلتے دیر نہیں لگی! پیشگی
انتباہ کیا گیا ہوتا تو لوگ بچوں کو یہ تماشا دیکھنے سے باز رکھنے کا
اہتمام کرتے! منتخب نمائندوں کو ایسی کِسی بھی معرکہ آرائی سے قبل انتباہ
کردینا چاہیے تاکہ بچوں کے اخلاق مزید بگڑنے سے بچائے جاسکیں!
قومی اسمبلی کے ہال میں جو کچھ ہوا اگر اُسی کو بجٹ پیش کرنا کہتے ہیں تو
پھر عوام کو ہر ماہ ایسے دو تین تماشے دِکھانے میں کوئی ہرج نہیں! یہ تو
عوام سے سراسر نا انصافی ہے کہ منی بجٹ آتے ہیں اور کِسی ہَلّے گُلّے کے
بغیر گزر جاتے ہیں! لوگ گھی، تیل، آٹے اوردال کے نئے بھاؤ جاننے کے لیے ٹی
وی کے سامنے بیٹھے تھے مگر اُنہیں کیا معلوم تھا کہ منتخب ارکان ایک دوسرے
کو آٹے دال کا بھاؤ یاد دلانے کی کوشش کریں گے! بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی
ایوان میں ایسی بولیاں بولی جانے لگیں کہ اسپیکر بھی بولنا بھول گئیں!
ایوان میں حکومت کا صرف ایک اسپیکر بچا یعنی وزیر خزانہ۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ
شیخ کے پاس قوم کے لیے تو کوئی خزانہ نہیں تھا مگر مضبوط اعصاب کا خزانہ
ایسا تھا کہ ماحول کی پرواءکئے بغیر بولتے رہے! جس طرح بجٹ خسارہ رکنے کا
نام نہیں لیتا بالکل اُسی طرح وزیر خزانہ نے بھی رُکنے کا نام نہیں لیا!
مگر خیر، ایوان میں کون تھا جو رُکنے کا سوچ رہا تھا؟ سبھی نے ”گڈ گورننس“
کے مظاہرے کی قسم کھا رکھی تھی۔
مرزا تنقید بیگ نے بھی مولا بجٹ یعنی وفاقی بجٹ دیکھا اور خوب انجوائے کیا۔
اگلے دن ملاقات ہوئی تو ہم نے کہا کہ سیاست دانوں کو بہبودِ عامہ کا اِس
قدر خیال ہے کہ بجٹ جیسی خشک اور بظاہر بے فیض چیز کو بھی رنگ رنگ، دل کش
اور پُرکیف بنادیا تاکہ کِسی کے دل پر کوئی اقدام گراں نہ گزرے! مرزا کو
ہماری بات سے ذرّہ بھر اتفاق نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟ وہ تو اختلاف ہاتھوں
کی لکیروں میں لکھواکر لائے ہیں! ہم نے پوچھا بجٹ سیشن میں ایسا کیا تھا جو
آپ کو پسند نہیں آیا؟ وضاحت فرمائی ”بھائی صاحب! یہ سب پھر مل کر ہم سب کی
آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور ہم بھولے بادشاہ بنے خود کو اُلّو ثابت
کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔“
مرزا کا استدلال بلکہ ضِد ہے کہ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ نُورا کشتی
سے بڑھ کر کچھ بھی نہ تھا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ مرزا ہر معاملے کو شک کی
نظر سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں اِس لیے فرینڈلی اپوزیشن کی صفوں سے نکلنے
والی مسلم لیگ (ن) کے ”خُلوص“ پر شک کر رہے ہیں! مرزا کا کہنا یہ ہے کہ
ایوان کی میعاد کے آخری لمحات میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی جانب سے
غیرت کا مظاہرہ ایسا ہی ہے جیسے دریائے نیل میں غرق ہوتے وقت فرعون کا
ایمان لانا! ہم نے مرزا سے استدعا کی کہ آج کی سیاست کے تذکرے فرعون کو
زحمتِ شمولیت نہ دیں کیونکہ اِس سے اُس کی ”بیزتی“ خراب ہونے کا اندیشہ ہے!
بجٹ کو مولا بجٹ میں تبدیل کرنے والا ماحول اگر کسی حد تک نُورا کشتی بھی
ہے تو ہم دُعا کریں گے کہ یہ کچھ دن تو چلے۔ اِس بہانے لوگوں کو تھوڑی بہت
تفریح ہی میسر ہوگی اور وہ اِسے بھی بجٹ میں رکھی جانے والی رسمی ریلیف کا
حصہ سمجھ کر خوش ہولیں گے! |