نُور بھائی کا ڈپریشن

جس طرح بہت سے لوگوں کو بلا جواز دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرکے اپنا مذاق اُڑوانے بلکہ ذِلّت سے دوچار ہونے کا شوق ہوتا ہے بالکل اُسی طرح نُور بھائی (ذوالنور) کو کِسی جواز کے بغیر پریشان ہونے کا شوق ہے۔ اِس شوق کی تکمیل کے لیے وہ اپنا سُکون غارت کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ ہمارے احباب میں شامل ہیں مگر یہ گمان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم بھی پریشان ہونے کے شوق میں اپنا ذہنی سُکون غارت کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں! ہم نے اپنے آپ کو اِس معاملے میں اِستثناءدے رکھا ہے!
نُور بھائی کئی دِن سے کچھ زیادہ ہی پریشان تھے۔ ایک دن ہم نے ہمت کرکے اِضافی پریشانی کا سبب پوچھ لیا۔ ہمت کا لفظ ہم نے اِس لیے استعمال کیا ہے کہ نُور بھائی سے کسی بھی معاملے میں وضاحت طلب کرنا اپنے ذہنی سُکون کی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے!

نُور بھائی نے وضاحتی بیان میں کہا ”کئی دن سے دفتر میں کام کی زیادتی کے باعث ڈپریشن سا ہوچلا ہے۔“
یہ سُن کر پہلے تو ہم ”زیر لب کے نیچے“ مُسکرائے۔ مگر پھر مُسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوئی اور ہنسی کو قہقہے میں تبدیل ہونے سے روکنا ہمارے بس میں نہ رہا۔ یہ سب کچھ اِس لیے ہوا کہ ہم نُور بھائی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ کسٹم سے متعلق اُمور کی انجام دہی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ جس طرح وہ مختلف کاموں کے لیے دفاتر کے چکر لگانے والوں یعنی ”کسٹمرز“ سے نپٹتے ہیں بالکل اُسی طرح دفتری اُمور سے بھی نپٹتے ہیں! دفتر میں وہ کرتے ہی کیا ہیں جو ڈپریشن ہوگا! صبح نو سے شام بجے تک وہ خاصے بے تکلفانہ انداز سے گپ شپ فرماتے ہیں۔ دُنیا کے کِس موضوع میں ہمت ہے کہ اُن کے ذہن کے راڈار سے بچ کر نکل جائے؟ بے فکری اور بے نیازی کے ساتھ دفتری اُمور کی انجام دہی کوئی اُن سے سیکھے۔ پاپولر نان فکشن کے ایک مصنف نے تو دفتر کے ماحول کو آسان اور خوشگوار بنانے کے موضوع پر اپنی کتاب کے لیے مفید مواد جمع کرنے کی خاطر نُور بھائی سے سیر حاصل گفتگو بھی کی تھی!

ڈپریشن کی بات پر ہمیں قہقہہ لگاتے دیکھ کر نُور بھائی بپھر گئے اور کچھ ایسی ظالم نظروں سے دیکھا کہ ہم اپنے آپ کو ڈپریشن میں مُبتلا ہوتا ہوا محسوس کرنے لگے! ایسی حالت میں اُنہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا تو بہت دور کی بات ہے، دیکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں! ہم نے نُور بھائی سے کہا کہ بھائی صاحب! کیوں آفس کو ناحق بدنام کرتے ہیں؟ کون سا کام اور کیسا کام؟ اگر اِس بہانے پکنک پر جانا چاہتے ہیں تو یاد رکھیے کہ آپ تو روزانہ پکنک پر جاتے ہیں اور دفتری اوقات ختم ہوتے ہی پکنک ختم ہو جاتی ہے!

اِس بات پر ہمیشہ ہمارا اِصرار رہا ہے کہ ڈپریشن کی شکایت تو نُور بھائی کے دفتری ساتھیوں کو ہونی چاہیے! نُور بھائی کا دعوٰی ہے کہ کام کی زیادتی سے ڈپریشن ہوچلا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب وہ کام کرتے ہی نہیں تو کام کی زیادتی کہاں سے آئی؟ نُور بھائی کا معاملہ تو یہ ہے کہ
تُمہی قتل بھی کرو ہو، تُمہی لو ثواب اُلٹا!

ڈپریشن کی بات پر ہم نے نُور بھائی کو نفسی پیچیدگیوں کے کسی مستند ماہر (سائکیاٹرسٹ) سے ملنے کا مشورہ دیا۔ اِس پر انہوں نے ایک بار پھر ظالم نظروں سے ہمیں یوں گھور کر دیکھا کہ اُن کی اُوپر کی منزل میں تھوڑی بہت گڑبڑ کا اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی!

ہم نُور بھائی کو کوئی مشورہ دیں اور وہ آسانی سے مان لیں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اور اگر وہ مان جائیں تو پھر وہ نُور بھائی نہیں ہوسکتے! ایک بار پہلے بھی ہم نے اُنہیں سائیکیاٹرسٹ سے ملنے کا مشورہ دیکر اپنی شامتِ اعمال کو دعوت دے ڈالی تھی! کئی احباب کے سمجھانے پر نُور بھائی سائکیاٹرسٹ سے ملاقات پر رضامند ہوئے۔ (اللہ ذہنی پیچیدگیوں کے ماہرین کو یوں بھی سزا دیا کرتا ہے!) ذہنی خلل میں مبتلا ہر شخص کی طرح نُور بھائی بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ اُن کے ذہن کا کوئی اسکریو ڈھیلا ہے! اِس ملاقات کا اثر ہمیں کم از کم نُور بھائی پر تو مرتب ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ اور سائکیاٹرسٹ پر کیا گزری، اِس کا ہمیں کچھ زیادہ علم نہیں! کِسی سے بتایا کہ وہ سائکیاٹرسٹ شاید پہلی بار اپنی تحلیل نفسی کے مرحلے سے گزرا تھا!

قسمیں اور واسطے دیکر احباب نے نُور بھائی کو دوسری بار یہ تسلیم کرنے پر آمادہ کیا کہ اُن کی اُوپر کی منزل کا بلب ٹھیک سے نہیں جل رہا! شہر کے مشہور سائکیاٹرسٹ سے تعارفی ملاقات میں نُور بھائی نے جب اپنے دِل (یعنی ذہن) کا حال سُنایا تو اِس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ اُن کا بھی وہی مسئلہ ہے جو پوری قوم کا ہے۔ یعنی زیادتی اور بدہضمی! نُور بھائی اپنے بارے میں بتاتے ہوئے خاصی کسر نفسی سے کام لے رہے تھے۔ ہم ساتھ تھے۔ جب ہم نے یاری دوستی ایک طرف رکھ کر سائکیاٹرسٹ کو تفصیل سے اُن کے دفتری معمولات کے بارے میں بتایا تو اُس نے خاصی کھوئی کھوئی آنکھوں اور رشک آمیز نظروں سے نُور بھائی کو گھورنا شروع کیا اور گھورتا چلا گیا۔ ہم نے کاندھا پکڑ کر ہلایا تو سائکیاٹرسٹ خیالی دُنیا سے واپس آیا! اُس نے بتایا کہ دفتر میں جس قدر سُکون مَیسر ہونا چاہیے، نُور بھائی کو اُس سے کہیں زیادہ مَیسر ہے! ذہن کو خوراک زیادہ ملی ہے تو بدہضمی ہوگئی ہے یعنی ڈپریشن ڈیرے ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے!

نُور بھائی یہ تمام باتیں نہایت سُکون سے سُن رہے تھے۔ سائکیاٹرسٹ نے تسلیم کیا کہ اِس قدر پُرسُکون حالت تو نصیب والوں کے حصے میں آیا کرتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اُسے نُور بھائی پر رشک آ رہا ہے! ہم نے وضاحت کی کہ ہر سرکاری دفتر کو اللہ نے کچھ ایسی ہی پُرسُکون کیفیت سے ہمکنار کیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ گپ شپ کے علاوہ لوگ قیلولہ (یعنی اچھا خاصا مراقبہ) کرنے کے لیے بھی دفتری ماحول کو ترجیح دینے لگے ہیں!

اب سوال یہ اُٹھا کہ نُور بھائی ڈپریشن سے نجات پانے کے لیے کیا کریں؟ سائکیاٹرسٹ نے تجویز کیا کہ اُنہیں، ظاہر ہے دِل پر پتھر رکھ کر، کچھ دن پوری دِل جمعی سے کام کرنا چاہیے تاکہ ذہن سے فراغت کی زیادتی کے اثرات زائل ہوں اور دماغ کچھ ٹھکانے پر آئے! ہم نے عرض کیا کہ یہ علاج اگر ملک بھر میں اُصول کا درجہ اختیار کرگیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ اِس طرح تو دفاتر کا ”نظام زندگی“ درہم برہم ہو جائے گا! ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ خدشہ بھی لاحق ہوا کہ اگر نُور بھائی نے دفتر میں کام کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا تو کہیں اُن کے دفتری ساتھیوں کا ذہنی معائنہ لازم نہ ہو جائے!

سُنا ہے نُور بھائی نے زندگی میں پہلی بار، ظاہر ہے محض اپنے مفاد کی خاطر، کِسی کا مشورہ مانا ہے اور دفتر میں اپنا کام پوری ایمانداری اور دِل جمعی سے کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی اُنہیں ذہنی سُکون عطا کرنے کے ساتھ ساتھ شاید آئندہ زیادہ بڑے پیمانے پر فراغت اور بے فکری کے لیے تیار بھی کر رہی ہے! آپ سوچیں گے دفتری ساتھیوں کا کیا بنا؟ وہ بے چارے تو نُور بھائی کو باقاعدگی سے کام کرتا دیکھ کر اب تک سکتے کی حالت میں ہیں اور عین ممکن ہے کہ جلد ہی ذہنی پیچیدگیوں کے ماہرین کو چند نئے کرم فرما میسر ہوں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525244 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More