شاباش ”شیرو“شاباش....!

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرئی پر مجھے تو کوئی خاص حیرت و استعجاب نہیں ہوا، ایسا ہونا تو نظر آرہا تھا کیونکہ اب الیکشن کا بگل بجا ہی چاہتا ہے اور اسمبلی میں موجود دونوں متحارب اور اکثریتی جماعتیں اپنا اپنا ووٹ بنک بچانے کے چکر میں ہیں، دونوں ”سونامی“ سے بچنے کی تگ و دو میں ہیں، نواز لیگ کسی حد تک زیادہ، کیونکہ ”سونامی“ سے زیادہ خطرات اور خدشات بھی انہیں ہی لاحق ہیں۔ اس سے پہلے بھی موجودہ حکومت چار بجٹ پیش کرچکی ہے، صدر مملکت بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں مشترکہ اجلاس کو خطاب سے نواز چکے ہیں لیکن اپوزیشن کے کردار میں اتنی تیزی، تندی و تلخی پہلے دیکھنے میں نہ آتی تھی۔ اب قومی اسمبلی کا ”ایکشن ری پلے“ پنجاب میں بھی نظر آنے کے قوی امکانات ہیں کہ سب لوگوں کو پنجاب یقینا فائدہ دے رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کا ووٹ بنک یہیں ہے، باقی تینوں صوبوں سے چند ایک سیٹیں بھی مل جائیں تو غنیمت قرار دیا جائے گا، پنجاب میں تحریک انصاف ایک ”خطرناک“ حریف بن کر سامنے آچکی ہے، پیپلز پارٹی پر ”قابض“موجودہ قیادت کے نزدیک ان کے لئے سندھ ہی کافی ہے کہ سندھ میں ابھی بھی انہیں ”کارڈ“ بھی نظر آتا ہے اور ان کے نزدیک اس میں ”بیلنس“ بھی موجود ہے ، پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر پنجاب کی حکومت نواز لیگ کے حوالے کرکے مرکز اور دیگر صوبے انہیں ملتے ہیں اور ساتھ میں چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی گارنٹی تو اس میں بھی فائدہ ہی ہے۔ میاں نواز شریف اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ سندھ کی تقسیم کے خلاف جماعتوں کی مدد سے سندھ میں اپنے لئے کوئی جگہ نکال لیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سندھی قوم پرست جماعتوں کا ووٹ بنک کتنا ہے اور اگر کسی حد تک ہے تو کہاں کہاں؟باقی رہا بلوچستان اور کے پی کے تو وہاں مستقبل میں بھی ایسا ہی ملا جلا رجحان نظر آتا ہے ، البتہ کے پی کے میں تحریک انصاف صوبے کے تقریباً سبھی ”کھلاڑیوں“ کو ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے۔ بات ہورہی تھی بجٹ اجلاس کی کہ اس میں ماضی کی ”فرینڈلی اپوزیشن“ نے کیوں ایسی روش اختیار کی کہ یوں لگا جیسے دو گینگ آپس میں قبضے کے لئے لڑ رہے ہوں لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ پولیس آنے سے پہلے نکل جانا ہے اور دوسرے کو زیادہ زخمی بھی نہیں کرنا تاکہ کل کلاں کو کوئی سنجیدہ مسئلہ بھی پیدا نہ ہوجائے، نورا کشتی کے ماہر صرف ”رعایا“ کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم آپس میں ابھی بھی ”دوست“ نہیں ہیں بلکہ پرانی دشمنی واپس آچکی ہے اس لئے پرانے لوگ جو کہیں اور جانے کے لئے پر تول رہے تھے وہ واپس آجائیں۔

قومی اسمبلی میں دھینگا مشتی اور گالم گلوچ کرکے دونوں جماعتوں نے عوام کو یہ باور کرا دیا ہے کہ دونوں ہی ”شیر“ ہیںاور دونوں ہی عوام کو رعایا بھی سمجھتے ہیں، انتہائی بیوقوف بھی، بھیڑ بکریاں بھی بلکہ گیدڑ بھی! اگر ”فرینڈلی“ اپوزیشن کو ابھی بھی انتخابات کی تلوار کا سامنا نہ ہوتا اور ان انتخابات میں نوشتہ دیوار صاف نظر نہ آرہا ہوتا تو نہ اپوزیشن شیر بنتی نہ حکومت کوشیر بننے کی مجبوری لاحق ہوتی۔ ویسے بھی عوام کی حیثیت ہی کیا ہے، کیوں ان کے لئے کسی خطرے کا سامنا کیا جائے اور بنی بنائی حکومت چھوڑی جائے، اسی حکومت کی مدد سے تو آئندہ انتخابات میں کامیابی کے سہانے خواب بنے جارہے ہیں، مسلم لیگ ن کو اگر واقعتا عوام کی کوئی فکر ہوتی، ان سے ہمدردی ہوتی، اگر واقعی اس کی قیادت ”شیر“ ہوتی تو یقینا وہ ان حالات میں جب کہ عوام مہنگائی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ ،بیروزگاری اور ڈرون حملوںکے عذاب سے گذر رہی ہے، پنجاب حکومت کو ٹھوکر مار کر باہر آگئی ہوتی، اس کو ایک ٹوپی ڈرامے کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے حکمران خود احتجاج میں شریک ہورہے ہیں، جلاﺅ گھیراﺅ کرنے والوں کو پولیس بھی نہیں روکتی، سیدھی سیدھی انارکی پھیلائی جارہی ہے۔ عوام کے بھی کیا کہنے کہ پھر ”اسی عطار کے لونڈے سے “ دوا کے طلبگار و خواہشمند ہوتے ہیں۔ انہی لوگوں کو اپنا حکمران بنانا پسند کرتے ہیں جو بعد ازاں پانچ سال ان کی درگت بناتے ہیں۔ سچی بات ہے دونوں جماعتیں شیر جیسے درندے کا کردار ادا کررہی ہیں جو جنگل میں اپنے سے کمزور کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے البتہ اپنے سے طاقت ور کو کینہ بھری نگاہوں سے دیکھتا تو ہے لیکن کچھ کہنے کی ہمت و جرات اپنے اندر نہیں پاتا۔ یہ دونوں جماعتیں ہی شیر ہیں، پوری دنیا کے فراڈئیے، ٹھگ، چوراور ڈکیت ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوچکے ہیں کہ کس طرح قوم کے خزانوں کو خالی کرکے ذاتی زنبیلیں بھری جاتی ہیں۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے، یہ ہمارے بادشاہ ہیں، شیر بھی درندہ ہوتا ہے، یہ بھی درندوں سے کم نہیں، شیر جنگل میں کارروائیاں کرتا ہے، انہوں نے اپنی کارروائیوں سے پورے معاشرے کو جنگل میں تبدیل کردیا ہے، شاباش شیرو، شاباش.... آفرین ہے تم پر اور تمہاری کارروائیوں پر....آخر پر دو اشعار ان ”شیروں“ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے، شاعر کا نام میرے علم میں نہیں ورنہ میں انہیں مائل کرتا کہ اسی پیرائے میں پورا دیوان ہونا چاہئے۔
اصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تمہیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو، بے ضمیر ہو تم
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.