روشنی کی آڑ میں

چراغ تلے اندھیرا تو آپ نے سنا ہی ہوگا مگر روشنی کی آڑ میں اندھیرا ایک نئی اصطلاح آذاد کشمیر کے سرکاری دانشوروں کی اخذ کردہ ہے۔ یہ خطہ زمین جسے ہم آذاد کشمیر کہتے ہیں نہ تو آذاد ہے اور نہ ہی کشمیر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ علاقہ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے آجکل کشمیر کونسل کی ز یرنگرانی متروکہ جائیداد یا جاگیر ہے جسے ہر پانچ سال بعد انتخابات کا ڈھونگ رچا کر ذیادہ بولی دینے والے سیاسی ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا جا تا ہے اور پھر اس ٹھیکیدار کی مرضی پر منحصر ہو تا ہے کہ وہ کس طریقے سے لوٹ مار کر کے نہ صرف اپنی لگائی ہو ئی رقم بمعہ سود وصول کرے بلکہ اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے عوام کو لوٹے ، مخالف برادریوں کی پولیس اور دیگر انتظامی اداروں کے ذریعے ٹھکائی بھی کرے ۔ اورآذادی بزنس کے نام پر اپنی برادری کے سرمائیہ کاروں، دوست یاروں اور وزیروں مشیروں کو عیاشیاں بھی کرائے ۔

اگر آپ اعدادوشمار کے حوالے سے دیکھیں تو آذاد کشمیر اسمبلی کے دس پندرہ ممبراور دوچار وزیر ہمیشہ ہی بیرونی دوروں پر ہوتے ہیں اور مغربی ممالک کے عیش کدوں میں جام غم لٹا کر کشمیر کا غم ہلکا کرتے ہیں ۔ یہ اعزاز بھی آذادکشمیر کے سیاستدانوں کو ہی حاصل ہے کہ اس خطہ کی لیجسلیٹیو اسمبلی میں ٹن وزیروں اور علماءو مشائیخ کی سیٹیں ایک ساتھ ہیں۔ ایک طرف جبہ و دستار کی آڑ میں لوٹنے والے ہیں اور دوسری جانب عوام کے ووٹو ں سے منتخب ہونے والے جمہوریت کے علمبردار بھی ہیں جبکہ یہاں انسانی سمگلنگ جیسے گھناﺅنے کاروبار والے بھی براجمان ہیں۔ یہاں قرآن جلانے والے بھی ہیں اور اپنے جھوٹ و فریب چھپانے کے لیے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسمیں کھانے والے بھی موجود ہیں۔ یہاں ملٹری ڈیموکریسی جیسی اصطلاحات پیش کرنے والے دانشور بھی ہیں اور روشنی کی آڑ میں اندھیرا پھیلانے والے جاھل بھی ہیں۔یہاں لکڑ چوروں کا ایک گروہ بھی بیٹھتا ہے اور آذادی بزنس سے مال کمانے والوں کا ٹولہ بھی ہمہ تن گوش جمہوریت کے راگ الاپتا ہے مگر شرماتا نہیں۔یہ اسمبلی کئی لحاظ سے اعزاز یافتہ ہے۔ مثلاً یہاں عوامی نمائیندگی کے بجائے برادریوںکے نمائیندے بیٹھتے ہیں اور اپنی اپنی برادریوںکے امیروں، سرمایہ داروں اور منہ پھٹ افراد کے منہ بند کرنے کے لیے انھیں نواز تے ہیں ۔ اگر آپ نے اس کی ایک جھلک دیکھنی ہے تو کوٹلی ضلعے کی ایڈمنسڑیشن کو ملاحظہ فرمائیں توآپ ڈوگرہ راج کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جا ئینگے ۔ کوٹلی کا انتظامی ڈھانچہ ایک مثال ہے جبکہ دیگر اضلاح کی بھی یہی حالت ہے۔ آذاد کشمیر کے قانون ساز قانون سازی کم اور قانون شکنی ذیادہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اس سلسلے کی ایک جھلک دیکھنے کے تمنائی ہیں تو آپ عدالتوں میں چلے جائیں اور ایم ایل اے حضرات کی ایماءپر قائم ہونے والے مقدموں کی تعداد دیکھ لیں۔ اگر آپ ان مقدمات کی تہہ میں جائینگے تو ہر مقدمے کا محرک ایک پٹواری اور تھانےدار نکلے گا جسے اس کی برادری کے ایم ایل اے یا وزیر مشیر کی حمایت و تائید حاصل ہو گی چونکہ ہر ضلعے کی انتظامیہ ایم ایل اے اور وزیر حضرات کی پسند کی ہوتی ہے۔ تھانے اور پٹوارخانے ان کے گھروں میں شفٹ ہوجاتے ہیں جہاں خردبرد اور جعلسازی کے نت نئے طریقے ڈھونڈکر قبرستانوں، شاملاتوں اور سرکاری زمینوںپر قبضے اور پھر فروخت کے سامان پیدا ہوتے ہیں اور فوراً عمل درآمد بھی ہو جاتا ہے۔ محکمہ مال ، جنگلات، اوقاف، عشروزکواة،بلدیات اورتعمیرات عامہ کے بعد اب محکمہ تعلیم بھی کھابہ خور ی کا اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ آذاد کشمیر کے جنگلات میں درخت کم اور ملازمیں ذیادہ ہیں ۔ واچر، گارڈاور فارسٹرسیاستدانوں کو منتھلیاںدیتے ہیں اور موسم گرما میں جنگلات میں ایک منصوبے کے تحت آگ لگواتے ہیں تاکہ جلے ہوئے درختوں کو کٹوا کر سیاستدانوں کے رشتہ داروں اور برادری والوں کی آرا مشینوںپر لکڑبجھواکر انھیں نواز سکیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات میں لگی آگ بجھانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ ڈوگرہ دور سے لیکر بعد کے کچھ عرصہ تک جنگلات کے لیے باقائدہ قانون تھا کہ آگ لگنے کی صورت میں ضلعی انتظامیہ فوراً حرکت میں آتی تھی اور علاقہ کے لوگوں کو جمع کر کے آگ کو مزید پھیلنے سے روکا جاتا تھا اور پھر بھجایا جاتا تھا ۔ اب انتظامیہ کا کام آگ لگوانا اور جلی ہوئی لکڑ چوری کروانا ہے۔ بھجانے والے عمل کو ڈوگرہ روایات کا حصہ سمجھ کر ختم کر دیا گیا ہے۔ یقین نہ ہو تو اپنی آنکھوں سے یہ منظر آذادکشمیر کے تمام اضلاع میں آج کل دیکھا جا سکتا ہے۔

اوقاف ، عشرو زکواةکے محکمے نقدی وصولی کے خزانے ہیں جو روز بھرتے اور لٹتے ہیں۔ وزیر وں ، مشیروں کی شاہ خرچیاں اور عیش و عشرت کا سامان عشر و زکواة کا محکمہ پورا کرتا ہے جسکا بندوبست ضلعے کا چیئر مین زکواة کمیٹی کرتا ہے۔ ضلعے کی زکواة کمیٹی کا چیئر مین ہونا ڈپٹی کمشنر ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔ چونکہ چیئر مین کے پاس زکوٰة کا بجٹ موجود ہوتا ہے اور وہ چوری کرنا چائیں تو بھی ضلع کا دفتر آپ کے لیے بہترین چورگاہ ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ اس بات سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زکوٰة کمیٹی یا کونسل کا چیئر مین کتنے حج ، عمرے اور بیرونی دورے کرتا ہے۔ چیئر مین زکوٰة کا حکمران برادری سے ہونا بھی ایک کوالیفکیشن ہے چونکہ اسے اپنی برادری کے ممبران اسمبلی اور وزیروں کے غریب اوربے سہارا بچوں کی کفالت کر نا ہوتی ہے۔

تعمیرات عامہ اور بلدیات کے محکموں پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنرل حیات کے دور میں تعمیرہونے والی سڑکوں اور سرکاری عمارتوں کے علاوہ باقی سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں یا پھر خطرے ناک قرار دی جا چکی ہیں ۔ اس تعمیر ی کام میں تعمیر کم اور تخریب ذیادہ ہوئی ہے جس میں پیپلز پارٹی پہلے نمبرپر اور مسلم کانفرنس دوسرے نمبر پر ہے۔ کماﺅ محکموں میں خوراک کا محکمہ بھی ہے جو کہ ذیادہ کمائی کرتا ہے۔ خوراک کا وزیر ذیادہ بھوکا ہوتا ہے اسلیے ذیادہ کھاتا ہے چونکہ وہ اس اصول پر گامزن رہتا ہے کہ خوراک کا پہلا حق بھوکے کا ہے اور جسکا پیٹ اور آنکھیں بھوکی ہوں اسکی دونوں بھوکیں پہلے مٹائی جائیں۔

آذاد کشمیر کی مثالی جمہوریت میں یہ واقع بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ وزیر خوراک نے خوراک کی مل خرید لی اور پھر اسی مل سے آذادی کے بیس کیمپ کے باسیوںکو کوٹے سے ذیادہ اور غیر معیاری خوراک مہیا کی اور آخر کا ر مل بیچ کر سپین میں ہوٹل خرید لیا۔ آذاد کشمیر میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر بھی انتہائی اہم اور کماﺅ پوت ہوتا ہے۔ اس پوت کی پہچان بھی پو تڑوں سے ہوتی ہے۔ ذیادہ گندے پو تڑ وں والے کو یہ پوسٹ عنایت کی جاتی ہے تاکہ وہ برادری اور پارٹی کے گندے پوتڑے دھو کر پوتر ہوتا رہے۔

چانکیہ نیتی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اندر سے خواہشات اور تعصبات کا اُبلتا چشمہ اور باہر سے دھیمااور میسنا ہونا چاہیے۔اسکا اخلاق دکھلاوہ اور مزاج ٹھنڈا ہو تاکہ پرکھنے والا دھوکہ کھا جائے ۔اگر آپ سابق صدر جنرل انور کی شخصیت کو دیکھیں تو ان میں یہ ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور اسی بنا پر وہ فوج میں جنرل کے عہدے پر پہنچے اور پھر ان ہی خوبیوں کی بنا پر انھیں پر ویز مشرف نے جنرل عزیز اور دیگر قابل اور ذھین لوگو ں پر فوقیت دیتے ہوئے پانچ سال تک حاکم کشمیرمقرر کر دیا۔جنرل انور کی بطور صدر تعیناتی کے پیچھے کئی مقاصد پنہاں تھے مگر سکندر ،انور اور عتیق اختلافات کی وجہ سے بیل منڈھے نہ چڑی ۔ جنرل انور اور قصوری برادران جو کام بیک چینل ڈپلومیسی کی آڑ میں کرنا چاہتے تھے وہ اب حکومت امن کی آشا اور دیگر اقدامات کے ذریعے کر رہی ہے۔ گلگت بلتستان کا وجود کشمیر سے کاٹ دیا گیا ہے اور اب آذاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی تیاریاں ہیں جس کی تکمیل کے لیے آذاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت پہلے سے قائم کردی گئی ہے۔

آذاد کشمیر کی موجودہ حکومت نے علم دوستی کا سبق بھی جنرل انور ہی سے سیکھا کہ کس طرح علم کی روشنی کی آڑمیں اندھیراپھیلایا جائے اور مال کمایا جائے۔جنرل انور نے ٹائیں ڈھلکوٹ جوکہ انکی آبائی بستی ہے میں ایک ماڈل گرلز کالج بنانے کی منصوبہ بندی کی اور کروڑوں کا ٹھیکہ اپنے چہیتے ایم ایل اے کے والد کو دیا جسپر تب کے سیکٹری وزارت امورکشمیر نے یہ کہہ کر دستخط کر نے سے انکار کر دیا کہ یہ نیب کیس ہے۔یہ مقام سلائیڈ ایریا میں ہے اور آبادیوں سے دور اور سہولیات سے محروم ہے۔ اگر کالج بنانا ہی ہے تو اس کے لیے موزوں جگہیں باغ، راولاکوٹ ، پلندری ، سہنسہ، کوٹلی اور تراڑکھل ہیں۔مگر المیہ یہ تھا کہ یہ جگہیں جنرل انور کے گھر سے دور تھیں اور آبادیوں کے قریب ان کا دوست تعمیرات میں ڈنڈی مارنے کے قابل نہ تھا۔ اگر آپ چاہیں تو کسی بھی وقت اس کالج کا معائینہ کر سکتے ہیں۔ اس کالج میں کشمیر بھر کی ذھین بچیاں زیر تعلیم ہیں اور پہلے دو بیج اپنی تعلیم مکمل کر کے عوام کی خدمت پر مامور ہیں۔ اس میں سے بہت سی بچیاں ڈاکٹر، انجیئنر، سائینسدان ، ماہرین تعمیرات ہیں اور کچھ نے مقابلے کے امتحانات میں نئے ریکارڈقائم کیے ہیں۔

موجودہ حکومت نے جنرل انور کے علم پھلاﺅ فارمولے کے تحت بہت سی یونیورسٹیاں ، میڈیکل کالج، سائینس یونیورسٹیاں اور ریسرچ سسٹم قائم کیئے ہیں اور تاحال کیئے جارہے ہیںان منصوبوں کی افتتاحی تقریبات پر کئی کروڑخرچ ہو چکے ہیں اور حکمران برادریوں کے بہترین ذھن ان منصوبوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔روشنی کی آڑمیں اندھیراپھیلانے کے منصوبے مزید پانچ سال تک جاری رہے تو ہر وزیر کی برادری کا اپنا کالج اور یونیورسٹی ہو گی جہاں ان کے میٹرک اور مڈل پاس برادری کے پروفیسر اور لیکچرارہونگے اور اپنی برادری کے طلباو طلبات کو تعلیم کے ذیورسے آراستہ کرینگے۔جن جن مقامات پر یہ ادارے بن رہے ہیں وہاں حکمران برادریوں کے علاوہ کسی دوسری برادری کا انسان تو کیا مال مویشی بھی چلا جائے تو زندہ واپس نہیں آتا۔جنرل انور کی تقلید میں ان اداروں کی تعمیرکا کا م بھی برادری اور پارٹی کے ٹھیکیداروں کو سونپا جا رہا ہے اور متعلقہ ایم ایل اے اور وزیر کا م کے آغاز سے پہلے ہی اپنا کمیشن لے چکے ہیں ۔ بقول لارڈنذیر احمد کے جناب وزیراعظم بھی اس بہتی گنگامیں ہاتھ دھو رہے ہیں اور اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں ۔
د۔دور غرور کر مغز وچوں دنیا خواب جانی متوالیا اوُ
لقمے چرب کھوا کے نفس ظالم ویری بغل اندر تُدپالیا اوُ
اوکھا ہوسیںوقت حساب دے توں دفتر منشیاں جدوں نکالیااوُ
کہہ دیں جواب ھدائت اﷲپچھن تُد تھیں جدوں منہہ کالیااوُ
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90776 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.