’ویدک ادب اور اُردو‘ ایک مطالعہ

ڈاکٹر مشتاق صدف

ڈاکٹر اجے مالوی نئی نسل کے ایک معتبر محقق اور نقاد ہیں۔ ادھر انھوں نے کئی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب ’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز‘ شائع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہے۔ ’ویدک ادب اور اُردو‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو پہلی بار 2009ءمیں چھپی تھی۔ اب اس کا پانچواں ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اُن کی تمام کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں۔ کتابوں کی بار بار اشاعت اس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کی تحقیقی کاوش کو ادبی حلقوں میں قبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسی مقتدر عالمی شہرت یافتہ شخصیت نے بھی اجے مالوی کو ویدک ادب کا ماہر قرار دیا ہے اور ہندوؤں کے قدیم مذہبی ادب کے پارکھ اور ترجمان کی حیثیت سے ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ اجے مالوی کے لےے پروفیسر نارنگ کی حوصلہ افزا باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

وید دنیا کے قدیم ترین آسمانی صحیفے ہیں۔ اُردو میں ہندو مذہب کے قدیم متون کے تراجم یا دوسری متعلقہ معلومات کی فراہمی سے بہت کم لوگوں کو دلچسپی رہی ہے۔ ڈاکٹر اجے مالوی کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے ویدک ادب اور اُردو کو اپنا تحقیقی میدان بنایا ہے اور اس موضوع پر وہ قابلِ قدر تحقیقی و علمی کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ اس شعبے میں ان کی سعی و جستجو کی داد چاروں طرف سے مل رہی ہے لیکن ان لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔ انھیں روشنی نظر ہی نہیں آتی۔ فقط تاریکی کا رونا روتے ہیں اور گمراہ کن بیانات دیتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہی اجے مالوی کی کتاب ’ویدک ادب اور اردو‘ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر گام پر ناکام رہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ذہنی تعصبات اور تحفظات کے پیش نظر اس کتاب کو تالیف کے زمرے میں شامل کیا جبکہ یہ باضابطہ ایک تحقیقی کتاب ہے۔ ہنگامہ صرف اس لیے ہوا کہ اجے مالوی نے اپنی کتاب ’ویدک ادب اور اُردو‘ میں شمس الرحمن فاروقی کی لسانی عصبیت اور تنگ نظری کو انسب کیا ہے اور ان کے متعصبانہ لسانی تصور کو نشان زد بھی کیا ہے۔ ان کا متنازعہ فیہ بیان آپ بھی ملاحظہ کیجیے :
”پرانے زمانے میں ’اردو‘ نام کی کوئی زبان نہیں تھی۔ جو لوگ ’قدیم اردو‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہ لسانیاتی اور تاریخی اعتبار سے نادرست اصطلاح برتتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ’قدیم اردو‘ کی اصطلاح کا استعمال آج خطرے سے خالی نہیں۔ زبان کے نام کی حیثیت سے لفظ ’اردو‘ نسبتاً نوعمر ہے۔ اور یہ سوال، کہ قدیم اردو کیا تھی، یا کیا ہے، ایک عرصہ ہوا تاریخ کے میدان سے باہر نکل چکا ہے۔ پہلے تو یہ سوال اردو/ہندی کی تاریخ کے بارے میں نوآبادیاتی، سامراجی مصلحتوں کے زیراثر انگریزوں کی سیاسی تشکیلات کا شکار رہا اور پھر جدید ہندوستان میں (ہندوستانی = ہندو) تشخص کے بارے میں سیاسی اور جذباتی تصورات کی دنیا میں داخل ہوگیا۔“
(اُردو کا ابتدائی زمانہ، ص 11)

دراصل اجے مالوی کی تحقیقی کتاب ’ویدک ادب اور اُردو‘ شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘ کی ردّتشکیل ہے۔ اور یہ کتاب ان کے بنیادی مقدمے کی شکست و ریخت کرتی ہے۔ ان کا یہ تصور کہ اردو اٹھارھویں صدی میں پیدا ہوئی، تحقیقی اعتبار سے قطعاً مشکوک اور قابل تنقیص ہے۔ اُردو اچانک خلا سے وجود میں نہیں آگئی بلکہ اس کا ایک اپنا وسیع و بسیط ثقافتی پس منظر رہا ہے جس میں اردو کی تخلیق اور تشکیل و تعمیر ہوئی ہے۔ اردو کے ابتدائی آثار ویدک ثقافت میں آج بھی محفوظ ہے۔ اردو کی حیثیت ویدک دور میں ایک نئی پراکرت کی تھی جو آہستہ آہستہ امیر خسرو کے ےہاں برگ و بار لائی تھی۔ دسویں صدی میں ایک باضابطہ مسلّم اور مستند جدید زبان کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اس کے تواریخی آثار و شواہد موجود ہیں۔ اس کا سب سے بڑا جواب نصیرالدین ہاشمی کی کتاب میں ملتا ہے۔ نیز امرت رائے کی کتاب 'A House Divided' ’گھر جو تقسیم ہوگیا‘ اس گھر کو دوبارہ تعمیر کررہی ہے اور بھولی ہوئی داستان کو دوبارہ یاد دلارہی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی نے اپنی کتاب ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ میں جو قطعی نئی دریافت کا دعویٰ کیا ہے وہ نئی دریافت نہیں ہے، بلکہ ان کی یہ دریافت ڈاکٹر ابومحمد سحر کے دو مضامین سے سرقہ کرکے سامنے آئی ہے۔ واضح رہے کہ فاروقی صاحب اس حوالے سے ابومحمد سحر سے معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ ان کا معافی نامہ ’انتساب‘ بھوپال اور ’صدائے عام‘ بھوپال میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سیاق میں اردو کے ممتاز ادیب ڈاکٹر مختار شمیم کا ایک مدلل مضمون ’تحریر نو‘ ممبئی میں بھی چھپ چکا ہے جو ان کی کتاب ’سوادِ حرف‘ میں بھی شامل ہے۔ فاروقی صاحب کے اس ادبی سرقہ کا انکشاف ایک بین الاقوامی انگریزی ویب سائٹ 'Social Mirror' نے بھی کیا ہے۔ نیز اس حوالے سے سیفی سرونجی کا تبصرہ جو ’انتساب‘ کے شمارہ نمبر 42 میں صفحہ 204 پر چھپا، بھی انتہائی مدلل ہے۔ ظاہر ہے اس نوع کے مضامین اور تبصرات سے فاروقی صاحب کی ادبی غیردیانتداری کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ لہٰذا ان کی برہمی سمجھ میں آتی ہے۔ انھوں نے اجے مالوی کو اپنا حریف سمجھ کر نشانہ سادھ لیا اور کرائے کے ایک ادبی قماش کو آگے بڑھا دیا، لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ اجے مالوی کی کتاب ’ویدک ادب اور اردو‘ فاروقی صاحب کی دریافت کو جھوٹا ثابت کررہی ہے۔

اس کتاب میں اجے مالوی نے وید کے معنی و مفاہیم، ویدوں کی تخلیق کا زمانہ، ویدوں کا خاکہ، رِگ وید، یجروید، سام وید، اتھرو وید پر روح افزا معلومات فراہم کرکے تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ رِگ وید، سام وید، یجر وید، اتھرو وید پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے بھرپور تجزےے بھی کےے ہیں۔ اس سے قبل اُردو میں اس موضوع پر اتنے اچھے تجزےے نہیں ملتے۔ اُردو میں لوک ادب پر اب بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اجے مالوی نے اُردو کا ویدی اسطوری ماڈل، اُردو کا نخشتمسالی پیکر، بنیادی توانائی کی تخشتمسالی تحریر، بنیادی توانائی کی آزادی دید اور عرفان اور اُردو اصطلاح کی معرفت عظمیٰ کے عنوانات سے ایک دلچسپ مکالمہ قائم کیا ہے۔ اُردو میں ویدوں، اپنشدوں اور ان سے متعلق تصنیفات و تالیفات کی 64 تعداد کی تحقیق کرکے محقق نے ہمیں چونکایا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اجے مالوی کی کتاب ’ویدک ادب اور ُاردو‘ کے مطالعے میں ایک بار پھر قارئین کی دلچسپی بڑھے گی اور غور و فکر کے نئے دروازے کھلیں گے۔ ساتھ ہی فاروقی صاحب کی کتاب ’اُردو کا ابتدائی زمانہ‘ کی ر ّدتشکیل کی فضا پہلے سے زیادہ ہموار ہوگی۔
Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 78776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.