ابھی تک محترم چیف جسٹس آف
پاکستان افتخارمحمد چوہدری کے سپوت فرزند ارسلان افتخار کے "کارناموں" کے
ثبوت سوائے چند صحافیوں کے علاوہ عوام کے سامنے نہیں آسکے۔ مگر چیف جسٹس کے
حواریوں نے پہلے ہی سے حواس باختگی کے انتہائی بے ذوق تماشے کے ساتھ ساتھ
منہ سے شعلے اور بلغمی چھینٹے نکالنے شروع کر دئیےہیں۔کیونکہ ان کی ذاتی
خواہشوں کے سارے سفینےڈوبنے کے بعد آخری سفینے کو بھی ڈگمگاتے ہوئے دیکھ
کریہ مخطوب الحواس ہو گئے ہیں۔ یہ حواری جو ہر خبر کی سچائی کو تارتار کرنے
کےبعد سچائی کو چھپا کر اسے ہمیشہ اپنی پسند کا لبادہ اوڑھنے کے مرض میں
شدت سے مبتلا ہیں، ان دنوں سچ کو چھپانے کے لیے دھواں دھارگردوغبار اڑانے
میں پوری طرح مشغول ہیں۔ ان سب سالاران کذاب کی کوشش صرف ایک نقطے پر مرکوز
ہے کہ یہ ایک سازش ہے ۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہے۔ ارسلان افتخار کے چالیس
کروڑ لینے اور اپنی غلطی کے اعتراف کے باوجود وہ بڑا معصوم ہے۔ان حواریوں
کے مطابق یہ سازش بھی "کرپٹ" حکومت کی ہے یا پھر پراپرٹی کنگ ملک ریاض کی۔
جو چاہتے ہیں کہ کسی طرح چیف جسٹس سے اپنا بدلہ لیاجائے اور بلیک میل کیا
جائَے۔
ان نجس سوچوں کے مالک سپریم کورٹ کے حواریوں کے کا ہمیشہ سے اصرار چلا آ
رہا ہے کہ افتخار چوہدری اور سپریم کورٹ قانون کی حکمرانی کے مدعی ہیں۔ ان
کے دامن میں کوئی چھید نہیں ہےاور نا ہی ان کے ماتھے پہ کوئی داغ ہے۔ اگر
ہم بھی اس غیرت بریگیڈ کی بودی دلیل کو رنگ برنگے انصاف کے مظاہروں کو
دیکھنے کے باوجودتھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ محترم چیف جسٹس افتخار
چوہدری واقعی قانون کی حکمرانی کے مدعی ہیں اورانھوں نے ان چار سالوں میں
اپنی خوردبینی آنکھوں کی مدد سے اس" کرپٹ" حکومت کی ہر" کرپشن" پر سوموٹو
ایکشن لیا ہے ۔ بلکہ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر مشہور ہیں کہ یہ سارے اہم
مقدمے چھوڑ کر صرف موجودہ حکومت کے خلاف ہی مقدمے سنتے ہیں۔ مگر عوام تب سے
حیرت و استعجاب میں مبتلا ہے جب سے عدالت عظمٰی نے چار سالوں میں لاتعداد
سکینڈل پیدا کرنے اور اپنی محنت شاقہ کے باوجود اس اتنی بڑی" کرپٹ" حکومت
کے خلاف صرف اور صرف “30 سیکنڈ“ کا ایک فیصلہ دیا ہے۔ اب یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے کہ "آزاد عدلیہ" نے دو سال تک پیٹ کا بار سہنے کے ساتھ ساتھ
آئین کی "اپنی تشریحات و توضیحات " کے بعد "30 سیکنڈ" جننے میں کتنا "درد
زہ" برداشت کیا ہے۔ درد کی شدت نہ ہوتی تو عدلیہ عظمٰی بیچاری واضع طور پر
بتا نا دیتی کہ نومولود (30 سیکنڈ) کی حقیقی "تفصیل" کیا ہے۔ "آزاد عدلیہ"
کے بیچارے متوالے ابھی تک باؤلائے پھر رہے ہیں کہ "منڈا ہویائے کہ کڑی ہوئی
اے"۔ اور ملتانی سوہن حلوہ کہہ رہاہے کہ "سائیں کجھ وی نی تھیئیا، نا پتر
تھئے نا دھیی تھائی اے"۔
اب گردباد قصیدہ گو ٹولہ سر جوڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ کسی بھی طرح سے ملمع
کاری کر کے حقیقت کو چھپا یا کم از کم گہنا دیاجائے۔ ان کا تازہ ترین فرمان
ہے کہ محترم چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمد چوہدری اس سار ے قضئیے سےبالکل
لاعلم تھے۔ ان "عالی دماغ" افلاطونوں ے کیا یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ:
۱- ارسلان افتخار ایک ایسے پٹرول پمپ سے جھوٹے بل لیتے رہے اور جہاں پٹرول
نہیں بکتا بلکہ آج بھی وہاں ڈیزل بک رہا ہے (بقول محمود شام اور فیصل
رضاعابدی)۔
۲- اگر کسی باپ کا بیٹا پٹرول کے جھوٹے بل تک لینے میں ملوث رہا ہو اور اس
بیٹے کی جیب میں یکدم چالیس کروڑ روپے آجائیں اور باپ کو پتہ بھی نا چلے۔
ابا حضور بھی وہ جو ملک کا چیف جسٹس ہو اور قانون کی حکمرانی کا مدعی ہے.
۳- کیا ان سچ کے پیام بروں سے یہ سچ درپردہ ہے کہ چیف جسٹس اپنے اسی فرزند
ارجمند بیٹے کو انتہائی معزز پیشے (ڈاکٹری) سے انتہائی کرپٹ اور بد عنوان
پیشے (پولیس)میں ناجائز بھرتی کروانے کا سہرا پوری آب و تاب سے اپنے سر پر
سجائے بیٹھے ہیں ۔
۴- کیا محترم چیف جسٹس صاحب کی آنکھ گھر پر مہنگے تحفوں کی آمد پر بھی نہیں
کھلی۔
۵- محترم چیف جسٹس صاحب کی پوری فیملی اپنی اوقات سے بڑ ھ کر دنیا بھر کے
سیر سپاٹے کرتی رہی . د نیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں کے قیام کرتی رہی اور
مہنگے ترین شاپنگ مالز سے خریداری کرتی رہی۔ اور منصف اعلیٰ صاحب اس حقیقت
سے لاعلم رہے۔
۶- اس منافق غیرت بریگیڈ کےبقول چیف جسٹس کو اس سازش کا برطانیہ جانے یعنی
انٹرنیشنل کونسل آف جیورٹس المعروف "سنگھانیہ انیڈ کمپنی" سے ایوارڈ لینے
سے پہلے علم ہو گیا تھا۔پھر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ابھی تک"انصاف پسند"
چیف جسٹس مسند انصاف پرکیسے بیٹھے ہیں۔ اگر بیٹھے ہیں تو کیااپنے بیٹے کے
خلاف ان الزامات کی انھیں اسی طرح تحقیقات نہیں کروانی چاہیے جس طرح یہ
دوسرے لوگوں اور ان کے بیٹوں کو توہین و تضحیک کے کھلے رویے کے ساتھ
عدالتوں میں گھسیٹ رہے ہیں اور اگراتنے دن گذرنے کے باوجود اب تک اپنے بیٹے
کو کلیئر نہیں کروایا تو کیا یہ انصاف کا قتل اور توہین عدالت نہیں ہے؟ کیا
اس وقت کو ئی ڈیل چل رہی ہے؟ اور "توہین عدالت" ، "توہین عدالت" کی یلغار
سے اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام کو کب تک ڈرایا جا سکے گا؟؟؟
اس وقت نا جانے کیوں مجھےلال حویلی کے بڑبولے شیخ رشید کا 2008ء میں ایک ٹی
وی کو دئیےجانے والا انٹرویو یا د آرہا ہے جس میں وہ محترم افتخار محمد
چوہدری کے بارے میں اظہار خیال کر رہا تھا آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
"چوہدری افتخار کو لانے کے لیے ہم لابی کرنے والے تھے ۔ وہ خود بڑا تیز
آدمی تھا۔ دو دو گھنٹے گھنٹے لال حویلی کے باہر کھڑ ا رہتا تھا۔ جب وہ مجھ
سے بڑے کاموں کی طرف پڑ گیا تو میں نے اسے چوہدریوں کے حوالے کر دیا۔
چوہدریوں نے پھر اسے اپنے سے بڑے سائز کے لوگوں کے حوالے کر دیا۔ اس جگہ
پہنچنے کے لیے اس نے بہت بڑی لابنگ کی۔" |