24 جنوری 2009 کو کرناٹک صوبے کے ایک اہم شہر اور بھارت کے آئی ٹی سینٹر
مینگلور (سابقہ بنگلور) میں ایک انتہا پسند ہندو تنظیم شری رام سینا (رام جی کی
فوج) کے جوانوں نے ایک ہوٹل پر حملہ کردیا۔ اس ہوٹل میں موجود لڑکیوں کے ساتھ
بدسلوکی کی گئی۔ ان کے کپڑے پھاڑ دئیے۔ ان کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی گئی۔ وہاں
موجود لڑکوں کو زدوکوب کیا گیا۔ ان حملہ آور انتہا پسند ہندو نوجوانوں کا کہنا
تھا کہ انہوں نے یہ حملہ اس لیے کیا کہ ہوٹل میں غیراخلاقی کام ہوتے ہیں۔ یہاں
لڑکے اور لڑکیاں شراب نوشی اور ڈانس کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں ہندو مذہب اور
ہندو تہذیب کے خلاف ہیں۔ اس لیے ہم کسی کو بھی اس طرح کے غیراخلاقی کام کرنے کی
اجازت نہیں دے سکتے۔ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ایسے کام نہیں کرسکتا۔
تمام انتہا پسند ہندو تنظیموں نے لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں ہراساں کرنے
کے مرتکب نوجوانوں کے اس طرز عمل کو کھلم کھلا یا ڈھکے چھپے الفاظ میں سراہا ہے
۔ شری رام سینا کے سربراہ پرمود متھالک نے اسے ایک احسن اور قابل تقلید اقدام
قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ پرمود متھالک وہ شخص ہے جس نے مالیگاؤں بم دھماکے میں
ملوث ہندو سادھوی (عورت سادھو) پرگیا سنگھ ٹھاکر کو ہندو قوم کی عظیم عورت اور
ہر ہندو کے لیے ایک مثال قراردیا تھا۔ پرمود متھالک نے پرگیا سنگھ ٹھاکر کا
موازنہ جھانسی کی رانی اور بھگت سنگھ کے ساتھ کیا اور اسے عظیم انقلابی کہا
تھا۔ مہاراشٹرا کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ نے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کی چارج شیٹ
میں سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کو اس دھماکے کا ذمہ دار قراردے دیا ہے۔
دوسری جانب اعتدال پسند حلقوں کا خیال ہے کہ یہ قدم شخصی آزادی کے خلاف ایک
حملہ ہے۔ کس شخص نے کیا کرنا ہے اس کا تعین کرنے کا حق اسے ہے۔ کسی بھی شخص کو
اپنی مرضی اور خیالات مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قانون کے دائرے میں رہتے
ہوئے کوئی بھی شخص کچھ بھی کرنے میں آزاد ہے۔ اگر قانون کے خلاف کوئی کام ہوتا
ہے تو اسے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے، نہ کہ کسی تنظیم یا اس کے ارکان کی۔ اس
طرح کی کاروائیوں سے فساد پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔
شری رام سینا اور اس کے ارکان کے اس طرز عمل کو 'ہندو طالبانائزیشن' بھی کہا
جارہا ہے۔ کرناٹک صوبے میں اس وقت انتہا پسند ہندو جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی'
کی حکومت ہے۔ اس حکومت کے زیرسایہ انتہاپسند ہندو تنظیمیں اپنے مذہبی ایجنڈے پر
پوری قوت سے عمل کررہی ہیں۔ حکومتی مشینری اور ذرائع استعمال کر کے ہندو طالبان
کھل کھیل رہے ہیں۔ یہ لوگ پورے ہندوستان کو سیکولر کی بجائے ہندو ملک بنانا
چاہتے ہیں، یعنی ہندو مذہب کی تعلیمات کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان،
عیسائی ، سکھ، بدھ اور دیگر مذاہب کے لوگ اگر ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو
انہیں ہندو طورطریقے اپنا کر رہنا ہوگا۔
ہندو طالبان عناصر کی کاروائیوں میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں
جنہوں نے اڑیسہ، کرناٹک اور دیگر صوبوں میں عیسائیوں کو قتل کیا، ان کے چرچ
جلائے اور انہیں ہندو بننے پر مجبور کیا۔ یہ ہندو طالبان ہی تھے جنہوں نے معروف
مسلمان مصور فدا مقبول حسین کے خلاف ایک مہم شروع کی، جس کے نتیجے میں مصور کو
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وہ ہندو طالبان ہیں جنہوں نے کانگریس حکومت کی
طرف سے مسلمان حاجیوں کو دی جانے والی سبسڈی کے خلاف ایک ہنگامہ بپا کیا ہوا
ہے۔ اور ماضی میں جائیں تو ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت، احمد آباد اور
گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، 1984 میں سکھوں کا قتل عام، ملک کے لیڈر گاندھی
جی کا قتل اور دیگر تمام خونی اور سفاک واقعات کے پیچھے انتہاپسند ہندو تنظیمیں
کارفرما ہیں۔ اس وقت ہندوستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہندوانتہاپسندی کا فروغ
ہے۔چونکہ ہندوستان میں بہت سے مذاہب اور تمدن کے حامل لوگ بستے ہیں لہٰذا
ہندوستان کی بقا اور اتحاد اس کے سیکولر طرزعمل سے ہی ممکن ہے۔ بڑھتی ہوئی ہندو
انتہاپسندی اسے تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ |