تجلیات ختمِ نبوت“ نئے گوشوں کی نقاب کشائی

مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں،اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکر بعثت انبیاءکا سلسلہ ختم فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس صفت خاتمیت کا ذکر قرآن و حدیث میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے،لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم یا زمانہ کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی اور دروازہ نبوت ہمیشہ کےلئے بند کر دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ملعون اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشاندہی فرمائی حدیث مبارکہ میں اُن کی تعداد بھی بیان فرما دی، حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میری اُمت میں تیس (30) کذاب ہوں گے،اُن میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے،حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔“اب اگرکوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے (خواہ کسی معنی میں ہو) وہ کافر،کاذب،مرتد اور خارج از اسلام ہے،نیز جو شخص اُس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن،مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں ختم نبوت کا انکار محال ہے اور یہ ایسا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خود عہد رسالت میں مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعوی کیا،حالانکہ اُس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق بھی کی،تو بھی اُس کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی تامل نہ کیا گیا اور صدیق اکبر کے عہد خلافت میں صحابہ کرام نے جنگ کر کے اُسے کیفر کردار تک پہنچایا،اِس کے بعد بھی جب اور جہاں کسی نے نبوت کا دعوی کیا،اُمت مسلمہ نے متفقہ طور پر اُسے جھوٹا اور خارج از اسلام قرار دیا اور اُس کے قلع قمع کی ہر ممکن کوشش کی۔20 ویں صدی میں جب مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کی فرنگی کارخانے میں تشکیل ہوئی تو سب سے پہلے مرزا کا محاسبہ کرنے والے عارف کامل علامہ غلام دستگیر قصوری تھے جنھوں نے مرزاکی کتاب ”براہین احمدیہ“ میں کئے گئے مرزا کے دعووؤں کا بطلان”رجم الشیاطین براغلوطات البراہین“ میں کیا،آپ مرزاکی کتاب ”براہین احمدیہ“ پڑھ کر اسکی گمراہی اور فتنے سے برصغیرپاک و ہند میں واقف ہونے والے پہلے فرد ہیں،خیال رہے کہ اُس وقت تک مرزا نے کھلا دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا اور اُس کے الہامات کی بناءپر بہت سے علماء اُسے ”مرد صالح “اور” اسلام کا عظیم مبلغ“ قرار دے رہے تھے،مگر یہ علماءاہلسنّت کا نور ایمان تھا جس کی فراست نے مرزا کو قبل از دعویٰ نبوت ہی پہچان لیا تھا،آپ کے بعد علمائے اہلسنّت کی طویل فہرست میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی،علامہ حامد رضا خان،نواب الدین رمداسی،مولانا غلام قادر بھیروی،پیر جماعت علی شاہ صاحب،سیدنا مہرعلی شاہ صاحب اور بہت سے نام ملتے ہیں ۔

یہ اعزاز بھی فاتح سرحد مولانا عبد الحامد بدایونی کو جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے قادیانیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کرنے سے روکنے کی قرار داد 30جولائی 1944ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں پیش کی،اسی طرح تحفظ ختم نبوت کی قانونی جنگ کے مجاہد اوّل علامہ سید سعید احمد کاظمی نے سب سے پہلے 1952 میں مسلم لیگ صوبائی کونسل کے اجلاس میں یہ مسئلہ اٹھایا اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے اور انہیں کلیدی عہدوں سے ہٹانے کی قرار داد منظور کروائی،1953میں غازی کشمیر علامہ سید ابوالحسنات قادری کی زیر قیادت تحریک ختم نبوت چلی،جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے حصہ لیا، اِس تحریک کے دوران علامہ ابوالحسنات قادری گرفتار ہوئے،جبکہ آپ کے صاحبزادے سید خلیل احمد قادری اور مجاہد ملت علامہ عبدالستار نیازی کو سزائے موت سنائی گئی،30جون 1974 کو قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانوں کے خلاف قرار داد پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا،جسے 7ستمبر 1974 کو پاکستان کے دونوں ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرکے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا،اِس دوران علماء اور اکابرین اہلسنّت نے اسمبلی فلور سے پاکستان کے قریہ قریہ،چپہ چپہ کامیاب تحریک چلائی اور یوں نوے سالہ مسئلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا ۔

اِس تحریک کے مختلف محاذوں پر بہت سے اکابر اور علماءاہلسنّت نے گراں قدر خدمات انجام دیں، زیر نظر کتاب”تجلیات ختم نبوت“اِن میں سے چند بزرگوں علامہ اقبال،سفیر اسلام علامہ عبد العلیم صدیقی،علامہ سید سعید احمد کاظمی،صاحبزادہ افتخارالحسن آلو مہاروی،پیرزادہ اقبال احمد فاروقی، چوہدری غلام عباس اور خطیب پاکستان علامہ شفیع اوکاڑوی کے تذکروں پر مشتمل ہے،اِس کتاب کو ممتاز محقق،ادیب اور کالم نگار صلاح الدین سعیدی نے مرتب کیاہے،مولف کے یہ وہ مضامین ہیں جو پاکستان کے مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں،صلاح الدین سعیدی صاحب دسمبر 1965میں لاہور میں پیدا ہوئے،1979سے 1995تک کراچی میں مقیم رہے اور 1995 سے دوبارہ لاہور میں سکونت اختیار کی،تب سے اب تک موصوف کے قلم سے”باتوں سے خوشبو آئے،نظام مصطفےٰ میں جہیز کا تصور،بزرگان دین کا نعتیہ کلام اوّل تا سوم،رسائل میلاد اوّل تا چہارم،شخصیات اسلام،صدیق اکبر کے تاریخ ساز فیصلے،فاروق اعظم کے تاریخ ساز فیصلے، عثمان غنی کے تاریخ ساز فیصلے اورعلی المرتضیٰ کے تاریخ ساز فیصلے“جیسی گرانقدر کتابیں سامنے آچکی ہیں ۔

تجلیات ختم نبوت آپ کی مندرجہ بالا کتابوں میں اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ اِس میں تحریک ختم نبوت میں نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیات کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے اور اُن کے حوالے بہت سے نئے گوشے اور نئے پہلو سامنے لائے گئے ہیں،جیسے علامہ سید سعید احمد کاظمی کے حوالے سے کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ پنجاب مسلم لیگ مجلس عاملہ کے رکن تھے اور آپ نے مسلم لیگ کے صوبائی اجلاس میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے سب سے پہلے قرار داد پاس کروائی،اسی طرح مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی کی قادیانیت کے خلاف بین الاقوامی سرگرمیاں، مناظرے اور تحریری خدمات بھی عام افراد کے علم میں نہیں ہیں،قادیانی گھرانے میں جنم لینے والے آزاد کشمیر اسمبلی کے قائد اور مسلم کانفرنس کے رہنماء چودہری غلام عباس کی زندگی کا یہ پہلو خاص توجہ طلب ہے کہ آپ امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب کے مرید اور خلیفہ مجاز تھے، منیر انکوائری رپورٹ کے مطابق ”پورے شہر میں تقریر کے ذریعے آگ لگانے والے“ صاحبزادہ فیض الحسن کی خود نوشت”زندگی“کے منتخب حصوں کا انتخاب قارئین کیلئے نئی معلومات کا باعث ہے،اسی طرح 1953 کی تحریک ختم نبوت کے دوران” صوبہ بدر خطیب“ کا لقب پانے والے پیرزادہ اقبال احمد فاروقی کی زندگی کے بہت سے نئے گوشے ہمارے سامنے آتے ہیں۔

آج بہت سے لوگ یہ بات تو جانتے ہیں کہ1965 کی جنگ کے دوران ملی نغمے گا کر میڈم نورجہاں نے فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھایا مگر یہ بات شاید ہی کم لوگوں کے علم میں ہو کہ اِس جنگ کے دوران محاذ جنگ پر جاکر پاک افواج کا مورال بلند کرنے کیلئے پر جوش تقریر کرنے اور پاک فوج کے جوانوں کا جذبہ بڑھانے والے کوئی اور نہیں علامہ شفیع اوکاڑوی تھے،غرض کہ اِس قسم کی بہت سی اہم اور نئی معلومات کتاب کا حصہ ہیں،کتاب کے آخر میں مرزا اور مرزائی ذریت کے حوالے سے مشاہر ملت کے تاثرات اورختم نبوت کے حوالے سے منظوم حصہ بے انتہا اہمیت کے حامل ہیں،ابتداء میں میاں محمد سلیم حماد ہجویری کا پر مغز معلوماتی دقیق مقالہ کتاب کے حسن میں چار چار چاند لگاتا ہے،عمدہ پیپر اور خوبصورت ٹائٹل سے مزین یہ کتاب دارالکتابت،شیخ ہندی، سٹریٹ،دربار مارکیٹ،لاہور یا فون 03334330982 سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358029 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More