نومبر2012 میں صدر باراک حسین
اوبامہ کی مدت ختم ہورہی ہے اور امریکہ کے نئے صدر کا انتخاب ہونا ہے۔ اس
انتخاب کے لئے باراک اوبامہ نے ابھی سے ہی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ وہ
دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو نتائج کے بعد ہی پتہ چلے گا مگر
سیاسی مبصرےن اور ریسرچ اسکالر ابھی سے یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اگر
امریکہ کے مسلمانوں کا جھکاﺅ اوبامہ کی طرف رہا تو وہ دوبارہ امریکہ کے صدر
بنائے جا سکتے ہیںکیونکہ گزشتہ کئی انتخابوں میں یہی دیکھا گیا ہے کہ
مسلمانوں کا جھکاﺅ جدھر رہا ہے، ادھر ہی جیت ہوتی ہے۔سال2000 میں جب جارج
بش کا مقابلہ امریکی یہودی لابی سے جڑے الگور سے تھا۔اس وقت عام امریکی
مسلمانوں کا جھکاﺅ جارج بش کی طرف تھا۔اگرچہ بعد کے دنوں میں پوری دنیا کے
مسلمانوں کو خاص طور پر امریکہ کے مسلمانوں کو جارج کی مسلم دشمنی کا
خمیازہ بھگتنا پڑا۔صدر بننے کے بعد بش نے مسلم دشمنی کا پورا ثبوت دیا اور
فلسطین سمیت پورے عرب میں مسلمانوں کو زبردست جانی و مالی نقصان
پہنچایا۔2004 میں دوبارہ الیکشن ہوا تو اس الیکشن میں مسلمانوں نے بش کے
خلاف ووٹنگ کی مگر قدرت کو اس کی ہار منظور نہیں تھی چنانچہ دوبارہ فتح بش
کی ہی ہوئی۔ دراصل اس الیکشن میں امریکہ کے مسلمان یک جان ہوکر ’جان کےری
‘کی حمایت میں کھڑے نہیں ہوسکے۔ مسلمانوں کے بکھراﺅ کا فائدہ بش کو ہوا اور
وہ امریکہ کے دوبارہ صدر چن لئے گئے۔ مسلمان اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے
تھے چنانچہ انہوں نے متحد ہوکر2008 کے الیکشن میں اوبامہ کا ساتھ دیا اور
اوبامہ کی جیت ہوئی۔دراصل امریکہ کے مسلمان جب متحد ہوکر کسی ایک کو ووٹ
دیتے ہیں تو اس امیدوار کی جیت یقینی ہوجاتی ہے کیونکہ ان کے ووٹ کو فیصلہ
کن سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر امیدوار الیکشن سے پہلے مسلم تنظیموں سے
قریب ہونے کی کوشش تیز کر دیتا ہے۔امریکہ میں رواں سال کے آخر میں(نومبر
میں)صدارتی انتخاب ہونے جارہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ 2012 کے
الیکشن میں بھی مسلمان وہی رول ادا کرسکتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ الیکشن
میں کیا ہے یعنی وہ اس مرتبہ بھی اوبامہ کے حق میںووٹ ڈالیں گے۔ چنانچہ
یونیورسٹیIllinois کے پروفیسر Brian Gaines کہتے ہیں کہ” امریکہ میں
مسلمانوں کی صورت حال دیگر مذاہب سے الگ ہے۔ مسلمان کسی بھی ایسے صدر کو
قبول نہیں کرتے ، جو ان کے مذہبی امور میں رکاوٹ پیدا کرے۔بش کے دور اقتدار
میں مسلمانوں نے امریکہ میں مشکلوں کا سامنا کیا ہے خاص طور پر نائن الیون
کے بعد ان کی زندگی پر غم کے سیاہ بادل منڈلاتے رہے ہیں ایسے میں تقریبا
ً55 فیصد ایسے مسلمان ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکہ میں رہنے سے بیزار
ہوگئے تھے۔ان کی یہ بیزاری اوبامہ کے دور میں کم ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ جب
الیکشن کا دور آیاتو تقریباً76 فیصد مسلمانوں نے کھلے عام اوبامہ کو ووٹ
کیا اور آنے والے الیکشن میں بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ وہ اوبامہ کو ہی
اپنا ووٹ دیں گے“۔حالانکہ اوبامہ نے جامع ازہر مصر میں مشرق وسطیٰ اور
مسلمانوں کے تئیں جو کچھ بھی کہا تھا، اس پر عمل نہیں ہوسکا اور نہ ہی
فلسطین کے سلسلے میں ان کا کردار قابل ستائش رہا ہے،پھر بھی امریکی
مسلمانوں کا رجحان اوبامہ کی طرف زیادہ ہے۔ کیونکہ اوبامہ کے اقتدار میں
ایک بھلا یہ ہوا ہے کہ امریکی عوام میں اسلام کے تئیں جو غلط فہمیاں پیدا
کی گئی تھیں اس میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اوبامہ سے پہلے
امریکہ کے 47 فیصد لوگ مسلمانوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے تھے مگر
اوبامہ کے دور ااقتدار میں اس رجحان میں کمی ہوئی ہے۔ ان کے دور اقتدار میں
ایک پاکستانی مسلم سہیل محمد کو امریکہ میں جج کا عہدہ بھی دیا گیا ہے بلکہ
اب تو عیسائی مذہبی پیشواﺅں نے بھی عیسائیوں کو مسلمانوں کے ساتھ میل جول
بڑھانے کی ترغیب دینا شروع کردی ہے چنانچہ ایک انگریز پادری Rick Warren نے
ابھی کچھ دنوںپہلے ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ ” مسلمانوں
اور مسیحوں کو دنیا میں درگزر اور امید کی کرن پیدا کرنے کے لئے اتحاد
باہمی سے جینے کا ہنر سیکھنا چاہئے“۔ ایک امریکی سیاسیات کے ماہر ’بروکنز‘
کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ کی قیمت اس لئے بھی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ
جو مذہبی خیال کے ہیں وہ سیاسی امور میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔کون ہارا ،
کون جیتا،اس سے انہیں سروکار نہیں ہوتا جبکہ اسلام سیاست اور مذہب کو ساتھ
لے کر چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی مسلمان جو اپنے مذہب کا سخت پابند ہوتا
ہے۔وہ بھی انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے
ووٹر متحد ہوجاتے ہیں اور جس کو بھی ووٹ دیتے ہیں وہ امیدوارکامیاب ہوجاتا
ہے۔اسی لئے ان کے ووٹ کو فیصلہ کن کہا جاتا ہے۔مسلمانوں کے ووٹ کو فیصلہ کن
ہونے کا اعتراف متعدد امریکی ماہرین کرچکے ہیں چنانچہ امریکی سیاست کے ماہر
Farid Senzaiان کا تعلق Institute for Social Policy and Understanding سے
ہے۔اس کا ہیڈ آفس واشنگٹن میں ہے، نے امریکہ میں مسلمانوں کا ایک تجزیاتی
مطالعہ پیش کیا ہے کہ ”مسلمانوں کا ووٹ امریکی صدر کے تعین کرنے میں کلیدی
کردار ادا کرتا ہے“ امریکہ میں مسلمانوں کی ووٹ ویلو(الکٹرولر بیس) تقریباً
23 ہزار ہے یعنی ان کے ووٹ کی ویلو مجموعی تعداد کی 0.6 فیصد ہے۔یہ تو اےک
رپورٹ میں کہا گیا ہے مگر دوسری رپورٹوں میں مسلم ووٹ کی ویلو اس سے کہیں
زیادہ ہے۔ واشنگٹن میں قائم Brookings Institutionکے کے سروے کے مطابق
امریکہ کے مسلمانوں میں 60 فیصد کی عمریں 18 سا ل سے زیادہ ہیں“۔اس طرح
دیکھا جائے تو کل ووٹرز کا ایک فیصد مسلم ووٹر ہے۔بظاہر یہ فیصد کم ہے جس
کا صدارتی انتخاب میں فیصلہ کن ہونا حیرت انگیز لگتا ہے مگر سچائی تو یہ ہے
کہ امریکہ میں جیت ہار کا اوسط تھوڑے ووٹوں سے ہی ہوتا ہے۔ 2000 کے الیکشن
میں جارج بش کی جیت اپنے حریف پر محض 537 ووٹوں سے ہوئی تھی۔اس سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اوسط نتائج پر کتنا اثر انداز ہوسکتا ہے۔
مسلمانوں کا ایک فیصد ووٹ صدر کے انتخاب میں فیصلہ کن حیثیت اس لئے رکھتا
ہے کہ ان کا ووٹ سمٹ کر کسی ایک کے حق میں جاتا ہے۔ حالانکہ کئی مرتبہ کسی
کسی شہر میں مسلمان اجتماعیت سے ہٹ کر دوسرے کو بھی اپنا ووٹ دے دیتے ہیں
مگر اس کا خمیازہ وہ سن دوہزار چار میں بش کو دے کر بھگت چکے ہیں لہٰذا اب
وہ اپنے ووٹ کو بکھرنے سے گریز کریں گے ،ساتھ ہی وہاں جو اسلامی تنظیمیں
کام کررہی ہیں وہ ان کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔امریکہ میں
مسلمانوں کے تقریباً 843 اسلامک سینٹر،165 اسلامک اسکول اور426 ایسوسی ایشن
ہیں۔جب الیکشن کا وقت قریب آتا ہے تو تمام ادارے متحرک ہوجاتے ہیں اور
مسلمانوں کی ذہن سازی شروع کردیتے ہیں۔ چنانچہ ان تنظیموں کے بارے میں ”
روبرٹ مکاﺅ“ جو ’کیر‘ میں مسلم آرگنائزیشن کے منتظم ہیں کہتے ہیں کہ ہم نے
ہمیشہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ” وہ صدر کے انتخاب میں اپنا رول ادا
کریں۔یہی نہیں، انہیں ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے یہ احساس دلایا جاتا ہے
کہ ووٹ ڈالنا ایک سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں
بیداری لانے کے لئے فلمیں دکھائی جاتی ہیں تاکہ وہ ووٹنگ کو اچھی طرح سمجھ
سکیں“۔مسلمانوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے کی بات امریکہ کی کئی تنظیمیں
کرچکی ہیں چنانچہ واشنگٹن میں Zogby International اور Pew Research Center
نے بھی مسلمانوں کے ووٹوں کے تعلق سے تقریباً اسی سے ملتا جلتا تجزیہ پیش
کیا ہے۔امریکی تنظیموں نے جو سروے کیا ہے ،مسلم ووٹرز کا فیصد اس سے کہیں
زیادہ ہوسکتا ہے۔دراصل امریکہ میں مسلمانوں کی صحیح تعداد کے بارے میں حتمی
اعدا دو شمار پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ کوئی 5 ملین کہتا ہے تو کوئی 8 ملین۔ہر
سروے میں الگ الگ باتیں کہی جاتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تین طرح کے
مسلمان پائے جاتے ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو مہاجر ہیں۔کسی دوسرے ملک سے یہاں
آکر بس گئے ہیں اور گرین کارڈ حاصل کرلیا ہے۔ایسے لوگوں کا ریکارڈ امیگریشن
سے مل جاتا ہے۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر مذہب
اسلام کو قبول کیا ہے۔ایسے لوگوں کا صرف تخمینہ ہی لگایا جاسکتا ہے،باضابطہ
ان کا اندراج نہیں ہے جبکہ ان کی تعداد بھی خاصی ہے اور تیسرے وہ لوگ ہیں
جو یہیں پیدا ہوئے اور یہیںرہ رہے ہیں۔ایسے لوگوں کے ہر شہر میں صحیح
اعدادو شمار کا اندازہ حتمی نہیں ہے۔مسلمانوں کی صحیح تعداد کا اندازہ نہ
ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی تنظیم یا انسٹی ٹیوٹ سروے کرتی ہے تو ان
کے سروے میں تینوں زمروں کے لوگوں کو ایک زمرے میں رکھ کر اعدا دو شمار
بیان نہیں کیا جاتا ہے لہٰذا ان کی صحیح تعداد کی مکمل معلومات نہیں
ہوپاتی۔ہر ادارہ اپنے اپنے طور پر ان کی تعداد بتا تاہے۔بہر کیف ان کی
تعداد اتنی ضرور ہے جو صدر کے انتخاب پر اثر انداز ہوسکے۔یہی وجہ ہے کہ جب
بھی انتخاب کا وقت آتا ہے تو امیدوار صدر مسلم تنظیموں سے ملنا جلنا زیادہ
کردیتے ہیں۔امریکہ کے ہر شہر میں کچھ نہ کچھ مسلم موجود ہیں مگر اس کے کچھ
مشہور شہروں میں ان کی تعداد کا اوسط کچھ یوں ہے: کیلیفورنیا میں
مسلمان20.0 فیصد،نیویارک میں 16.0،ایلی نوائے میں 8.4،نیو جرسی میں4.0،
انڈیانا میں 3.6،میشی گن میں 3.4،ورجینیا میں 3.0، ٹیکساس میں 2.8، اوہائیو
میں 2.6، میری لینڈمیں 1.4فیصد مسلمان ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ میں 843
اسلامک سینٹر کے علاوہ 400 ایسے مدرسے ہیں جو چھٹیوں کے زمانے میں بچوں کو
اسلامی تعلیم دیتے ہیں اس کے علاوہ فل ٹائم 165 اسکول اور 426 ایسوسی ایشن
ہیں۔200 ایسے مدرسے ہیں جہاں بچوں کو تعلیم کے علاوہ عملی طور پر اسلامی
طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔یہ تمام سینٹر مسلمان کو الیکشن کے زمانے میں ان
کے ووٹ کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کا ووٹ
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ |