ایماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

پاکستان کا سات سو کلومیٹر تک مار کرنے والے حتف 7کروز میزائل کا تجربہ ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت والا یہ میزائل راڈار پر نظر نہ آنے والی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہے۔ ہم 5جون کو ایک اخبار کی ویب سائٹ پر تازہ ترین خبروں میں یہ خبر پڑھنے کے بعد وہاں دی گئی تصویر کو دیر تک دیکھتے رہے اور فلک کی سمت بڑھنے والے اس میزائل کو دیکھ کر ذہن میں عسکری برتری ترقی فخرخودداری آزادی کے مسحورکن خیالات انگڑائیاں لینے لگے۔ چند لمحوں میں تصورات کی ایک دنیا آباد ہوگئی جس میں پاکستان کی عسکری اورتکنیکی ترقی کے ساتھ پیارے وطن کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوکر قائدانہ کردار ادا کرتے بھی دیکھا۔ ذہن میں ایک پوری فلم چلی لیکن جب تصورات کی دنیا سے باہر نکلے تو اسی تصویر میں لانچر کی جگہ پر اٹھتے دھوئیں میں ڈھوبتے جذبوں مرتے جوش بزدلی اور غلامی کی مظہر پاکستانی قوم اور سیاسی اور عسکری قیادت کے گرد آلود چہرے نظر آنے لگے جیسے کسی نے ان کو دھول چٹادی ہو اور انہوں نے شکست خوردہ چہروں کے ساتھ طاقت ور کی غلامی کو قبول کرلیا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تصورات میں قائم ترقی خوشحالی خودداری اور خوداعتمادی کی عمارت دھڑام سے نیچے آگری۔اس کے ساتھ ہی ذہن میں سوالات کا ایک سیل امڈ آیاجس نے خبر سے حاصل ہونے والی خوشی کو ناامیدی کے سمندرمیں غوطہ لگانے پرمجبورکردیا۔ ذہن میں اٹھنے والے اس سوال نے تو بہت پریشان کیا کہ اس تمام تر عسکری ترقی کے باوجود ہم بے بسی اور غلامی کی تاریخی تصویر کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اور اگر عسکری ترقی کا مطلب ملک کا دفاع اور عوام کی حفاظت کی قوت حاصل کرنا ہے تو ہم نے طاغوت کا کلمہ کیوں پڑھ رکھا ہے؟ اگر عسکری قوت اور اعلٰی ٹیکنالوجی کے حصول کا مقصد ملکی دفاع ہے تو پھر ملکی دفاع سے دستبرداری کے بعد مزید قوت حاصل کرنے پر وہ پیسہ لگانے کا کیا جواز ہے جو غریب عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوسکتا ہے؟ کہتے ہیں کہ ایک شیر کی قیادت گیدڑوں کے جتھے کو شیروں کی فوج بنادیتی ہے اور اگر شیروں کی قیادت گیدڑ سے کرائی جائے تو پورا جتھاگیدڑ بن جاتا ہے۔ اس قوم نے جن شیروں کی قیادت میں آزادی حاصل کی تھی بدقسمتی سے وہ ایک عشرے تک بھی ہم میں نہ رہے اور پھر حکمرانی کے اس منصب پر گیدڑوں کو بٹھادیاگیا۔ یہاں تاریخ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہیں۔ شاید پرویز مشرف کا تذکرہ بھی غیر ضروری ہو جسں نے فوج کا سالار ہونے کے باوجود ایک ایٹمی ملک کو امریکا کی لونڈی بنادیا تھا۔ اور اب اس کے جانشین ملک کو بھارت کی لونڈی بنارہے ہیں۔پرویز مشرف کے بعد حکومت میں شامل قیادت نے اس بزدل کے حقیقی وارث بن کر قوم کو مسلسل ڈرایا کہ کوئی کچھ بھی کرے جو طاقت ور ہے وہ درست ہے اور ہمیں اسی کو درست تسلیم کرنا چاہیے۔ جس دن میزائل کا تجربہ کیاجارہا تھا اسی دن موجودہ حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو میں فرمارہے تھے کہ امریکا کی مرضی پر سپلائی نہیں کھولیں گے تو وہ ناراض ہوگا شہباز شریف قوم پرستی کا نعرہ لگا کر محاذ آرائی چاہتے ہیں۔ محبوب کی ناراضی کی اتنی فکر مگر وہ تو اپنے ان عاشقوں کو دیدار تک کرانے پر راضی نہیں۔ ویسے کائرہ صاحب کی بات غلط بھی نہیں۔ کیوں کہ محاذ آرائی کرنے والے ایسے نہیں ہوتے۔ اگرہم ہوتے تو ضرور یہ یاد دلاتے کہ حضرت جس دن ایٹمی ملک کا حکمران اور سپہ سالار ایک فون کال پر سب کچھ امریکا کے حوالے کررہا تھا پڑوس میں ایک بے آسرا اور ٹیکنالوجی کے ہجے تک سے ناواقف ایک حکمران نے اسی سپر طاقت کے ساتھ محاذ آرائی مول لے لی تھی۔ اور پھر ثابت کردیاتھا کہ جدیدٹیکنالوجی اگر نہ بھی ہوں تو ایک ٹیکنالوجی ایسی ہے جس سے بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی کو شکست دی جاسکتی ہے اور وہ ٹیکنالوجی ہے ایمان ۔ یہ غیرت دین ہی تھی جس نے امریکا کی آگ اگلنے والی توپوں کو ٹکڑے ٹکرے کردیا اور جس نے اس کو دھول چٹا دی جس کو اپنی عسکری برتری پر ناز تھا۔ اس کے برعکس جہاں ایمان کی ٹیکنالوجی موجود نہ تھی وہاں اٹیم بم پاس ہونے کے باوجود بھی طوقِِ غلامی گردن میں ڈال کر فرعون وقت کا کلمہ پڑھ لیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سوئیڈن کے ریسرچ ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ یعنی سپری نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ ہتھیار جتنے بھی ہوں جب تک جذبہ ایمانی نہ ہوتو کچھ بھی نہیں۔
Rana Bilal
About the Author: Rana Bilal Read More Articles by Rana Bilal: 19 Articles with 14208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.